اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا
قرآن کریم : "وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے
اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لئے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو
جا" اور وہ ہو جاتی ہے۔"( البقرہ: 117)
اللہ تعالی کی عظمت کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔
ایک لفظ میں ساری کائنات کو سمو دیا ہے، اس لفظ میں اربوں کھربوں بلکہ ان
گنت عالمین بند ہیں ۔ یہ لفظ جب عکس ریز ہوتا ہے تو کہیں عالم ملکوت و جبروت آباد
ہوجاتے ہیں اور کہیں کہکشانی نظام اور سیارے مظہر بن جاتے ہیں ۔ کتنا برجستہ
راز ہے یہ کہ لفظ ہر آن اور ہر لمحہ نئی صورت میں جلوہ فگن ہورہا ہے۔ اس ایک لفظ
کی ضیاپاشیوں کو کبھی ہم بقا کہتے ہیں اور کبھی فنا کا نام دے دیتے ہیں۔
لفظ میں شکل و صورت پنہاں ہے جو بقا ، فنا
اور پھر بقا کے مراحل سے گزرتی ہے۔ فردسپرد خاک ہوکر زمین کا حصہ بن جاتا ہے۔
زمانہ کے نشیب و فراز سے خشکی سمندر اور سمندر خشکی میں تبدیل ہوتے ہیں۔ خشک مٹی
کی جگہ سمندر لے لیات ہے اور جس جگہ پہلے سمندر تھا وہاں مٹی میں چکنائی کا عنصر
غالب آجاتا ہے۔ کمہار کا وہاں سے گزر ہوتا ہے اور خاک ایک بار پھر پیمانہ بن جاتی
ہے۔ خاک سے پیمانہ اور پیمانہ سے خاک۔۔ سب مٹی کا پھیلاؤ (کھلونا) ہے۔
اے عظیم ! اس کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں کہ اس
نے "؛کن" کہہ کر ایک ذرہ بے مقدار پر اتنے عکس ڈال دئے ہیں کہ میں
پیمانہ بن گیا ہوں، ایسا پیمانہ جس کے ذریعے دوسرے ذرات (مخلوق
) وہ نشہ اور شیفتگی حاصل کرسکتے ہیں جس سے پیمانہ خود
سرشار اور وحدت کی شراب میں مست و بے خود ہے