کٹھ پتلی ہے یہ نوع ہماری ساقی
حرکت ہے اشارات پہ ساری ساقی
ہوتی ہے جو تھریک تو پیتے ہیں ہم
ورنہ ہے بساط کیا ہماری ساقی
قرآن کریم : اس کاامر یہ ہے کہ
جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو، وہ ہو جاتی ہے۔"(یٰس : 86)
کسی بھی متحرک شے میں حرکت ضروری ہے۔ حرکت کی ابتدا تقاضے
سے شروع ہوتی ہےاور ایک کے بعد ایک تقاضا وجود میں آتا ہے۔ ہر تقاضا پہلے سے
ریکارڈ ہے جو پورا ہونے یا پورا نہ ہونے پر بھی موجود ہوتا ہے لیکن یہ موجودگی
زندگی کی بیلٹ پر واپس ہو جاتی ہے۔
تقاضا وہم سے شروع ہوتا ہے۔ وہم سے مراد ہے کہ تقاضے کا بہت
لطیف احساس پرنٹ کی شکل میں موجود ہے۔پھر نقش میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ گہرائی
دراصل خیال ہے۔ خیال سے مراد ذہن انسانی
میں تقاضے کا ادراک ہونا یعنی پانی پینے کےلئے تقاضے کا ظاہر ہونا جس کو عرف عام
میں پیاس کہتے ہیں۔پیاس تقاضے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہےتو پانی کا مظاہرہ ہوتا ہے
اور مظاہرہ پیاس ہے۔پانی پینے سے عارضی طور پر تشنگی دور ہوتی ہے۔ پیاس کا تقاضا
یعنی تحریک نہ ہوتو ہم پانی نہیں پیتے۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہےجو جاری و ساری ہے۔
آدمی کی بساط نہیں کہ اس نظام کی کنہ سے واقف ہو جائے۔ الا ماشاء اللہ
زندگی دو رخوں پر قائم
ہے۔ تقاضے کی تکمیل یا عدم تکمیل۔ حضور قلندر بابا اولیاء کا ارشاد گرامی ہے کہ
جب تک ذہن کےپردوں میں حرکت نہ ہو اور حافظہ نہ دہرائے تو عمل کی تکمیل نہیں ہوتی
۔ اس قانون کے پیش نظر یہ علم ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی یعنی گوشت پوست اور ہڈٰوں سے
مرکب جسم اطلاعات کے تابع ہےاور اطلاعات خیال کے تابع ہے۔ خیال تصور بنتا ہے تو شے
کے وجود کا مظاہرہ ہوتا ہے اور خدمت پر مامور پانی خود کو پیش کردیتا ہے