یہ طاق یہ ٹوٹے ہوئے دَر اور دیوار
ذروں میں نظر آتے ہیں سارے آثار
ذروں میں ہے گرم شاعروں کی محفِل
ذرّوں میں ہیں بند شاعروں کے اشعار
قرآن
کریم:"اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر
اترا گئے تھے۔سودیکھ لو، ان کےمسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا
ہے، آخر کار ہم ہی وارث ہیں۔"(القصص: 58)
ابدال حق قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں کہ دنیا اور دنیا کی رونق ، بے
ثباتی میں بھی وجودِ بقا کا پہلو رکھتی ہے۔ منفرد فکر اور کمالاتِ انسانی کی
لافیائیت کا یہی تصورحضور قلندر بابا اولیاء کی ذات اور احساسات کو عام ذہنوں
اور عام تصورات سے بلند و بالا کرتا ہے۔ عظیم الشان محلات، عیش گاہوں کے اجڑے طاق،
ٹوٹے درودیوارسرسری نگاہ سے دیکھنے والوں کے لئے محض روزمرہ کی داستان ہیں کہ دنیا
کی ہر شے فانی ہے، ہر شے کی تعمیر میں تخریب اور ہر کمال کا مقدرزوال ہے ۔اس سے
زیادہ نہ نگاہیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ ذہن اس سے ماورا کوئی اور تصور قائم کرسکتا
ہے۔ ابدالِ حق فرماتےکہ شاعر (حضور قلندر بابا
شاعر کو فطرت کا مزاج شناس سمجھتے ہیں )کے نزدیگ تخریب وزوال کا عمل محض
عبرت کی داستان نہیں بلکہ اس کے تخلیقی ذہن اور گہرائیوں میں حقیقت تلاش کرنے والی
نگاہوں کے سامنے محلات، عیش گاہوں کے ٹوٹے طاق اور درودیوار کے ذروں میں وہ عظیم
الشان عمارتیں ایک بار پھر پوری آب وتاب سے مکمل اور منورنظرآتی ہیں جن سے شاعر کی
حسین یادیں وابستہ ہیں۔ بے ثباتی اور ٹؤٹ پھوٹ کے عمل میں شاعر ان مقامات کی تصویر
بھی دیکھتا ہے جن میں چند لمحے گرار کر یا جن محفلوں میں شریک ہوکر اس نے
رودادِاول بیان کی تھی اورجن اشعار نے اس کی زندگی میں ہی قبولیتِ عام حاصل کرلی
تھی۔ اب اگرچہ وہ درودیوار اور محفلیں خوبیاں اوررعنائیاں کھو کر داستانِ پارینہ
بن گئی ہیں مگرشاعرکاکلام اوران محفلوں کی یاد ابھی تک محفوظ ہے۔ اس کی گواہی بھی
شکستہ درودیوار کے ذرات دے رہے ہیں۔امتادِزمانہ سے مٹی کا ڈھیر مٹی میں مل گیا مگر
رودادِ اول جو مادیت اور زمان و مکان سے ماوراء ہے، ابھی تک دل کی دھڑکن بنی ہوئی
ہے