کیا علم کہ کب جہاں سے ہم اٹھتے ہیں
پیر اپنے مگر سوئے عدم اٹھتے ہیں
ممکن نہیں عمر کو پلٹ کر دیکھے
انسان کے آگے ہی قدم اٹھتے ہیں
قرآن کریم:’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا
ہے۔ ‘‘ (البقرۃ : ۱۵۶)
—————————————————————————-
’’ازل تا ابد ‘‘ایک
لفظ ہے ۔اس لفظ میں اللہ کے اسرار پنہاں ہیں ۔ انسان ازل میں تخلیق ہوا اور پھر یہ
تخلیق متعین عمل (process) کے تحت زمین پر ظاہر ہوئی ۔ زمین پر موجود ہونا اس بات کا ثبوت
ہے کہ تخلیق ایسا عمل ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ تغیر پذیر ہے۔ بچہ جس روز پیدا
ہوتا ہے، اسی دن سے عدم کے سفر کی شروعات ہوجاتی ہے ۔ بچپن عدم میں چلا جاتا ہے
پھر لڑکپن عدم میں چلا جاتا ہے پھر جوانی عدم کی زینت بن جاتی ہے اوربالآخر بڑھاپا
زمین کو داغِ مفارقت دے کر رخصت ہوجاتا ہے ۔ جس طرح زمین پر ہر لمحہ، ہر آن انسان
سفر میں ہے، اسی طرح مقام ِ ازل سے زمین تک آنے میں بھی انسان مسافر ہے ۔
حامل ِ علم ِ لدنّی
ابدال ِ حق قلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں— ہر قدم عدم کی
طرف اٹھ رہا ہے۔ بندہ بشر میں اتنی ہمت نہیں
کہ زندگی کے ماہ و سال کو پلٹ کر دیکھے ۔اے انسان ! آگے
بڑھتا چلا جا، پیچھے نہ دیکھ۔ قدرت اگر یہ
چاہتی کہ انسان پیچھے بھی دیکھے تو گردن میں بھی ایک آنکھ لگا دیتی ۔ ماضی
جوگزرگیا، ہاتھ نہیں آتا ۔ مستقبل جو آنے والا ہے، وہی ہماری زندگی ہے ۔
حقیقی علم جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں
کہ ہمیں کس نے پیدا کیا ہے؟اس دنیا میں
پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے ؟ مرنے کے
بعد کون سے عالم میں چلے جاتے ہیں اور اُس
عالم میں زندگی کن طرزوں پر قائم ہے؟ [1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔