عدم کی زینت

عدم کی زینت

Rubayat | November 2024


کیا علم کہ کب جہاں سے ہم اٹھتے ہیں

پیر اپنے مگر سوئے عدم اٹھتے ہیں

ممکن نہیں عمر کو پلٹ کر دیکھے

انسان کے آگے ہی قدم اٹھتے ہیں

 

 قرآن کریم:’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ ‘‘ (البقرۃ :  ۱۵۶)   

—————————————————————————-

’’ازل تا ابد  ‘‘ایک لفظ ہے ۔اس لفظ میں اللہ کے اسرار پنہاں ہیں ۔ انسان ازل میں تخلیق ہوا اور پھر یہ تخلیق متعین عمل (process) کے تحت زمین پر ظاہر ہوئی ۔ زمین پر موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تخلیق ایسا عمل ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ تغیر پذیر ہے۔ بچہ جس روز پیدا ہوتا ہے، اسی دن سے عدم کے سفر کی شروعات ہوجاتی ہے ۔ بچپن عدم میں چلا جاتا ہے پھر لڑکپن عدم میں چلا جاتا ہے پھر جوانی عدم کی زینت بن جاتی ہے اوربالآخر بڑھاپا زمین کو داغِ مفارقت دے کر رخصت ہوجاتا ہے ۔ جس طرح زمین پر ہر لمحہ، ہر آن انسان سفر میں ہے، اسی طرح مقام ِ ازل سے زمین تک آنے میں بھی انسان مسافر ہے ۔

 حامل ِ علم ِ لدنّی ابدال ِ حق  قلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں ہر قدم عدم کی طرف اٹھ رہا ہے۔ بندہ بشر میں اتنی ہمت نہیں  کہ زندگی کے ماہ و سال کو پلٹ کر دیکھے ۔اے انسان  !  آگے بڑھتا چلا جا،  پیچھے نہ دیکھ۔ قدرت اگر یہ چاہتی کہ انسان پیچھے بھی دیکھے تو گردن میں بھی ایک آنکھ لگا دیتی ۔ ماضی جوگزرگیا، ہاتھ نہیں آتا ۔ مستقبل جو آنے والا ہے،  وہی ہماری زندگی ہے ۔

حقیقی علم جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ   ہمیں کس نے پیدا کیا ہے؟اس دنیا میں پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے ؟   مرنے کے بعد کون سے عالم میں چلے جاتے ہیں  اور اُس عالم میں زندگی کن طرزوں پر قائم ہے؟ [1]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



[1] ماہنامہ قلندر شعور۔نومبر-2024


More in Rubayat