تو آج خدارا، کل کے بارے میں نہ سوچ
آئے گی اجل ، اجل کے بارے میں نہ سوچ
رشتہ تو ہمارا ہے ازل سے لیکن
پی اور پلا، ازل کے بارے میں نہ سوچ
’’وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو، وہ ضرورتمہیں ا ٓکررہے گی۔ پھر تم غیب اور ظاہرکے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ وہ تمہیں تمہارے اعمال سے آگاہ کر دے گا ۔ ‘‘ ( الجمعۃ : ۸)
یہ کون نہیں جانتا کہ آج نہیں تو کل ہمیں مر جانا ہے ۔زندگی صرف آج کا نام ہے پھر آدمی کیوں آنے والی کل کے بارے میں پریشان ہے ؟کبھی اس نے سوچا ہے کہ مرنا کیا ہے ؟ ہمارا رشتہ قدرت کے ساتھ اُسی وقت سے قائم ہے جب سے کائنات موجود ہے ۔ قدرت نہیں چاہتی کہ ہم اس سے جدا ہوں ۔ قدرت ہمیں اس دنیا سے اُس دنیا میں اس لئے الٹ پلٹ کر رہی ہے کہ ہمارا تعلق اس کے ساتھ قائم رہے ۔ مرنا جب ہمارا مقدر بن چکا ہے تو پھر فرد معرفت ِحق کی شراب خود پیے اور دوسروں کو بھی پلا ئے کیوں کہ نقد سودا ادھار سے اچھا ہے ۔
یہاں ہر سانس شراب کا گھونٹ ہے۔ گہرائی میں سوچا جائے تو ساری دنیا خالص شراب کا ایک گھونٹ نظر آنے لگتی ہے۔ حد اور حدود ایسی ہوں تو مستی و قلندری یا گمراہی کا وجود، نا وجود بن جاتا ہے۔ شراب کا یہی گھونٹ زندگی میں پنہاں اسرار کو عارف کے اوپر منکشف کرتا ہے، چاہے وہ اسے مستی و قلندری میں گزار لے اور چاہے گمراہی میں ضائع کردے۔
زندگی غیب سے آتی ہے اور غیب میں لوٹ جاتی ہے ۔غیب ظاہر غیب، دیکھنے کا زاویہ ہے ۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے سے شے کا وجودختم نہیں ہوتا۔ آدمی کے پاس وہی لمحہ ہے جس لمحے وہ غیب کو حاضر دیکھتا ہے۔ زندگی جس لمحے میں گزر رہی ہے، اس میں زندگی کو تلاش کیا جائے توماضی ، حال اور مستقبل کی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے۔ کیا ہونا ہے اور کیا ہوگا، یہ ایسے سوالات ہیں جن میں الجھ کر لمحہ ٔ موجود بھی مٹی کی مانند مٹھی سے پھسل جاتا ہے۔