عارضی۔۔۔فانی دنیا

عارضی۔۔۔فانی دنیا

Rubayat | March 2014


انسان کاغرور اقتدار و زر ہے

گر یہ بھی نہیں تو مذہب و ممبر ہے

دیکھا جو اسے بعد فنا ہونے کے

معلوم ہوا یہ خاک مٹھی بھر ہے

قرآن کریم!                     بہتات کی حرص نے تمہیں  غافل کیا یہاں تک کہ تم قبرستان میں جا پہنچے۔(2-1:102)

وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل  کے لیے سامان دنیا  جمع کیا ، مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی فراموش کردیئے۔  جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزت و توقیر کے حصول کا تعلق ہے، یہ ایک خود فریبی ہے۔ ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد انکار نہیں کر سکتا ۔

فراعین مصر کے محلات ، قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔  ترقی یافتہ  اقوام اس لیے عذاب میں مبتلا ہیں کہ ترقی کے پیچھے ان کے محدود مفادات ہیں۔ ہر ترقی مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے   ذاتی منفعت کے لیے خوبصورت دنیا کو بد ہیئت بنا دیا ہے۔ جگ مگ  کرتے ستاروں کی سہانی راتوں کو دھندلادیا۔ پرخمار اور سحر انگیز نسیم صبح میں ایٹمی ایندھن کا زہر گھول دیا ہے۔ یہ وہ عروج یافتہ قوم ہے جسن نے پھولو ں کی مسکراہٹ چھین  لی۔ اب پرندوں کی روح پرور چہچہاہٹ ایک نغمہ ٔ دل سوز بن کر رہ گئی  ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو عدم تحفظ کے عمیق غار میں دھکیل دیا ہے۔ عدم تحفظ کی حالت میں سسکتی ہوئی انسانیت کے  لیے چاندنی کا حسن اور دھوپ کی خوب صورتی ماند پڑ گئی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ایٹمی تجربات ، ڈیزل و پڑرول کے بخارات اور جیٹ طیاروں کے آتشی فضلات نے فضا کو کچھ اس طرح زہر آلود کر دیا ہے کہ انسان کے اندر جانے والا ہر سانس زہرناک بن گیا ہے۔ اور اس زہرناکی نے انسان کو زیر و زبر کر دیا ہے۔  ذہن بکھر گیا ہے، دل ہے کہ ہر لمحہ ڈوب جانے کو بضد ہے۔ ترقی کے پر فریب پردوں میں سسکتی ہوئی، تڑپتی اور روتی ہوئی قوم نے عافیت اس میں سمجھی کہ عدم تحفظ کے خوف ناک عفریت سے فرار اختیار کیا جائے ، لیکن اس سے فرار میں بھی انہیں لالچی اور خود غرض جینیس ذہن نے شکار کی طرح دبوچ لیا  ہے


More in Rubayat