تسخیر کائنات

تسخیر کائنات

Rubayat | June 2022


جام و قدح و سبو یہاں میرا ہے

مے خانہ میں ہوں اب یہ جہاں میرا ہے

جب تک کہ شراب ہے مرے ساغر میں

جو کچھ بھی ہے زیر آسمان میرا ہے

 

قرآن کریم:       " اللہ نے مسخر کردیا جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے، تمہارے لئے، سب اس کی جانب سے۔" (الجاثیہ: 13)

 

تخلیق کا مقصد معرفت ہے۔ معرفت کا ذریعہ حواس ہیں۔ حواس کی ابتدا معرفت سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الست بربکم فرمایا اور سب سے پہلے اپنی آواز سے نوازا اور اپنا دیدار عطا کیا۔ سماعت و بصارت، ادراک و گویائی۔ خالق کائنات کے عرفان کے لئے عطا کی گئی ہے۔ عشقِ الٰہی کے طالب کو محبوب کے دائمی حسن کی کشش مسحور کردیتی ہے۔ وہ جرعہ جرعہ معرفت کا جام پیتا ہے اور ہر گھونٹ میں نئی شان دیکھتا ہے۔ ایسے عاشق پر محبوب کی نظر کرم محیچ ہو جاتی ہے اور اس احاطے میں وہ زمین و آسمان کی ہر شےکو تابع فرمان دیکھتا ہے۔ حافظ شیرازی فرماتے ہیں،

"ہم نے جام میں محبوب کے رخ ِ روشن کا عکس دیکھا ہے۔

اے بے خبر! تجھے ہمارے دائمی مشروب کی لذت کی کیاخبر!"

ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء اس رباعی میں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے دوستوں پر یہ راز کھل جاتا ہےکہ دنیا و مافیہا کی ہر شے الوژن ہے۔ وہ معرفت کے کیف میں گم رہتے ہیں اور ماسوا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ منزل کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش اور دولت ان کے لئے بے وقعت ہے اور پرکاہ  (تنکا) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ بے نیازی کی دولت  فرد کو دو رخوں سے آزاد کرتی ہے اور یک سو کرکے اس رخ سے واقف کردیتی ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا کیاہے۔

کائنات کی نیابت۔ خالق کائنات اللہ کی طرف سے اشرف المخلوق انسان کے لئے امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ قلندر صفت انسانوں کے ہاتھ میں اپنے نظام کی زمام ِ کار (باگ ڈور) دے دیتے ہیں اور یہ تابع ذہن بندے اللہ کی سنت کو اپنا کر مخلوق کی خدمت کو شعار بنا لیتے ہیں


More in Rubayat