عدم کی زینت

عدم کی زینت

Rubayat | September 2021


کیا علم کہ کب جہاں سے ہم اٹھتے ہیں

پیر اپنے مگر سوئے عدم اٹھتے ہیں

ممکن نہیں عمر کوپلٹ کر دیکھے

انسان کے آگے ہی قدم اٹھتے ہیں

 

قرآن کریم :          ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔"

"ازل تا ابد" ایک لفظ ہے۔اس لفظ میں اللہ کے اسرار پنہاں ہیں۔ انسان ازل میں تخلیق ہوا اورپھر یہ تخلیق متعین عمل (پروسیس) کے تحت زمین پر ظاہر ہوئی۔زمین پر موجود ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ تخلیق ایسا عمل ہےجو ہر آن اورہرلمحہ تغیر پذیر ہے۔ بچہ جس روز پیدا ہوتاہے، اسی دن سے عدم کے سفر کی شروعات ہوجاتی ہے۔ بچپن عدم میں چلا جاتاہےپھرلڑکپن عدم میں چلا جاتا ہے پھر جوانی عدم کی زینت بن جاتی ہےاور بالآخر بڑھاپا زمین کو داغ مفارقت دے کر رخصت ہوجاتا ہے۔ جس طرح زمین پر ہر لمحہ ، ہر آن انسان سفر میں ہے، سی طرح مقام ازل سے زمین تک آنے میں بھی انسان مسافر ہے۔

حامل علم لدنی حضورقلندربابا اولیا٫ فرماتےہیں۔ ہر قدم عدم کی طرف اٹھ رہا ہے۔ بندہ بشر میں اتنی ہمت نہیں کہ زندگی کے ماہ و سال کو پلٹ کر دیکھے۔اے انسان! آگے بڑھتا چلا جا، پیچھے نہ دیکھ ۔ قدرت اگر یہ چاہتی کہ انسان پیچھے بھی دیکھے تو گردن میں بھی ایک آنکھ لگادیتی ۔ ماضی جو گزر گیا ہاتھ نہیں آتا۔ مستقبل جو آنے والا ہے وہی ہماری زندگی ہے۔

حقیقی علم جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ ہمیں کس نے پیداکیا ہے؟

اس دنیا میں پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے؟

مرنے کے بعد کون سے عالم میں چلے جاتے ہیں؟

اور اس عالم میں زندگی کن طرزوں پر قائم ہے؟


More in Rubayat