Topics
س: بابا جی! میں بہت پریشانی، بے بسی اور شکستگی کے عالم میں اپنے دکھ سے نجات پانے کے لئے آپ کے آغوش رحمت میں پناہ لینے آئی ہوں۔ آپ کی ذات لاکھوں بندگان خدا کے لئے سایہ رحمت ہے۔ خدارا مجھے بھی اپنی رحمتوں سے نواز دیجئے۔ اپنے بارے میں مجھے لکھتے ہوئے شرم آ رہی ہے لیکن کیا کروں۔ آپ کے علاوہ میرا کوئی مسیحا نہیں، کسی کے پاس میرے دکھوں کا مداوا نہیں۔ سچ پوچھئے تو جس قسم کی صورت حال اس وقت درپیش ہے اگر دل کو اس بات کا حوصلہ نہ ہوتا کہ آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں تو میں ہرگز آپ کو خط نہ لکھتی۔
ہمارے خاندان میں تقریباً سبھی بیٹیاں، پھوپھیاں اور تایا زاد بہنیں ازدواجی لحاظ سے بڑی دکھی اور تباہ حال ہیں۔ اگر سب کے دکھوں کی تفصیل لکھوں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ یوں سمجھئے کہ کسی کو شوہر اچھا نہیں ملا۔ سب کے شوہر اول درجے کے نکھٹو اور ہڈ حرام ہیں۔ اخلاق و عادات اور کردار بھی خراب۔ شوہر ان کے لئے زندگی کا عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ایک بہن کا شوہر پہلے نکھٹو تھا۔ کچھ کمانے لگا تو دوسری شادی کر لی۔ گھر میں کتے کی بھی کچھ قدرہوتی ہے، بیوی کی اتنی بھی نہیں ہے۔ چھوٹی بہن کو آوارہ اور چور میاں نصیب ہوا۔ اس نے اتنے دکھ دیئے کہ وہ دکھوں کے ہاتھوں قبر میں اتر گئی۔ بڑی کزن کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی طلاق دے دی گئی۔ دوسری جگہ شادی کی تو شوہر ہڈ حرام نکلا۔ دوسری بہنوں کا بھی اسی طرح کا حال ہے۔ میری باری آئی۔ والدین نے میری منگنی کی لیکن لڑکا انتہائی جھوٹا، اس قدر جھوٹا کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ پکا 420، دھوکے باز اور فراڈیا نکلا۔ بدنیتی اس کی نس نس میں رچی ہوئی ہے۔ گزر اوقات کے لئے فراڈ کے ذریعے جو حاصل ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس عذاب سے نجات مل گئی۔ مگر اب کہیں سے رشتہ نہیں آتا ہے۔ داغ جو لگ گیا۔ میری عمر کی لڑکیاں کئی بچوں کی ماں بن چکی ہیں اور میں ہوں قسمت کی ماری کہ دلہن بننے کے سپنے ہی دیکھ رہی ہوں۔ شادی نہ ہونے کا اندیشہ میرے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔
ج: آدھی رات گزرنے کے بعد اول و آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف کے ساتھ تین سو بار یُرْسَلُ الرِّیَاحَ فِیْھَاکَانَ فِیْہِ پڑھ کر دس منٹ تک عرش کا تصو رکریں اور شادی کی دعا کریں اور یہی دعا کرتے کرتے سو جائیں۔ جب تک آپ دلہن بن کر اپنے گھر پہنچ جائیں یہ عمل جاری رکھیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****