Topics
س: یہ الجھن میرے سارے خاندان کی الجھن ہے۔ امید ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے روحانی علم سے ہم لوگوں کے لئے کوئی نہ کوئی حل نکال کر ہمیں ذہنی الجھنوں پریشانیوں، بے عزتی، بے حسی، پیار و محبت جیسے جذبے کے فقدان سے جنہیں ہم تین پشتوں سے جھیلتے چلے آ رہے ہیں، نجات دلائیں گے۔ اس بدبختی کی وجہ میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ہمارے دادا مرحوم انڈیا پولیس میں تھے۔ ایک دفعہ ناگپور میں ان کی ڈیوٹی سڑک پر لگی ہوئی تھی۔ اس سڑک پر سے تاج الدین باباؒ کی سواری وہاں کے راجہ صاحب کے پاس جا رہی تھی۔ بابا صاحبؒ تانگہ میں تھے اور تانگہ سڑک پر جا رہا تھا۔ میرے دادا نے مداخلت کی اور ان کی شان میں گستاخی کی۔ بابا صاحبؒ نے کہا۔ ’’جا تیرا پیچھا بھاری ہے۔‘‘ دادا صاحب کی بارہ اولادیں ہیں۔ جن میں سے چھ لڑکے ، چھ لڑکیاں ہیں۔
ایک لڑکی اور ایک لڑکا فوت ہو گئے۔ باقی ابھی زندہ ہیں اور ان میں سے سب شادی شدہ اور بوڑھے ہو گئے ہیں۔ ان کی اولادیں جوان اور بال بچوں والی ہیں۔ میں ان کے بڑے بیٹے کی بڑی بیٹی ہوں۔ میں نے بچپنے سے آج 35سال کی عمر تک اس خاندان کے ہر فرد میں مشکلات ہی دیکھی ہیں۔ ہمارا خاندان انتہا سے زیادہ غریب اور ان پڑھ ہے۔ ان میں غصہ زیادہ ہے، عزیزوں رشتہ داروں کا کوئی پاس نہیں کرتے، یہاں تک کہ اپنے بچوں کی ذرا سی خوشی دیکھنا بھی ان کو گوارا نہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ شاید میں غلط لکھ رہی ہوں مگر یہ سب دن کی طرح حقیقت ہیں۔ اب جب کہ میں خود کئی بچوں کی ماں ہوں کہ بابا صاحبؒ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کا یہ اثر ہے۔ خدا اور اس کے محبوبﷺ کا واسطہ آپ محفل میں تاج الدین بابا صاحبؒ سے مل کر ہم لوگوں کے لئے کہیں کہ وہ مالک برحق سے ہم لوگوں کی مشکلیں دور ہونے کی دعا کریں۔ تا کہ ہمارے بچے بھی سکون کے ساتھ پیار و محبت سے رہ سکیں۔
جتنی جلد ہو سکے ہم لوگوں کا یہ کام کرا دیں۔
ج: جیسے ہی اس فقیر کو حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کے دربار میں حاضری نصیب ہوئی آپ کی درخواست پیش کر دی جائے گی۔
آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے حالات اب انشاء اللہ درست ہو جائیں گے۔ کثرت سے وضو یا بغیر وضو یا حی یا قیوم کا ورد کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****