Topics

گھن۔قبض۔نظر

س: مؤدبانہ التماس ہے کہ بندہ بعنوان (آپ کے مسائل) کا ٹوکن پر کر کے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جناب کے فیض سے سینکڑوں پریشان بندے آپ کے مشوروں پر عمل پیرا ہو کر پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔

میں ملازمت کے سلسلے میں لاہور آیا تو اس وقت میں نے ماموں کے گھر رہنا شروع کیا۔ 2ماہ کے بعد میرا ہاضمہ خراب ہوگیا۔ روٹی کھاتا تو مرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے سینہ جلنے لگتا اور سینے میں اوپر کی طرف گیس سی اٹھتی تھی۔ روٹی کے بعد میں بوتل یا فروٹ کھاتا تو یہ کیفیت کم ہو جاتی تھی۔ اکثر اوقات صبح کا ناشتہ ہی شام تک ہضم نہیں ہوتا تھا اور کبھی جب بھوک لگ بھی جاتی تو ایک یا ڈیڑھ روٹی سے زیادہ نہیں کھا سکتا تھا۔ جبکہ میں اپنے گاؤں میں تین روٹیاں کھا لیتا تھا اور دن میں تین چار مرتبہ روٹی کھاتا تھا اور کسی قسم کی شکایت نہیں ہوتی تھی۔

گیس کی بیماری ختم ہو گئی تو اس کے بعد قبض کی بیماری شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ فضلہ باہر لانے کے لئے انگلیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ پھر صبح و شام گرم دودھ پینا شروع کیا۔ دودھ سے قبض کی شکایت کے دوران مجھے بالوں اور آنکھوں کی بیماری شروع ہو گئی۔ میرے بال گرنا اور سفید ہونا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ آدھے بال سفید ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ کنگھے کے ساتھ روزانہ 50بال ضرور گرتے ہیں۔ صابن لگانے اور تولیہ استعمال کرنے اور سر کھجانے سے بھی بال گرتے ہیں۔ اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ ماتھے کی جانب گنج ہو گیا ہے۔ نظر کی عینک پہلے مجھے 2/1/2نمبر لگتی تھی۔ اب ڈھائی سال کے عرصے میں 3/1/2نمبر ہو گئی ہے اور نظر مزید کمزور ہو رہی ہے۔ ڈیڑھ سال سے خوراک اچھی سے اچھی کھا رہا ہوں۔ صبح شام دودھ فروٹ خالص دیسی گھی استعمال کر رہا ہوں۔ لیکن میرے جسم میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔

پہلے پہلی مرتبہ جب میں گیارہ ماہ ماموں کے گھر رہا تو وہاں آ کر پابند ہو گیا۔ گاؤں میں اپنے گھر آزادی سے رہتا تھا اور ذہن آزاد تھا۔ کسی قسم کا غم و فکر نہ تھا۔ لیکن ماموں کے گھر آ کر اپنے آپ کو قید و پابند سمجھتا۔ بات بات پر ٹوکنا۔ رعب جمانا، گھر سے نکال دینا۔ گھر والوں پر باتیں کسنا۔ ان پر مجھے بہت غصہ آتا تھا لیکن میں نہ ممانی کو زبان سے کچھ کہتا اور نہ ماموں کو اور خاموشی میں غصہ اپنے اندر اندر پیتا رہتا۔ اب جبکہ میں علیحدہ ہو گیا ہوں یہ کیفیت نہیں جاتی۔ خیال اور معمولی سی بات پر غصہ کرنا اور ہر وقت ذہن میں غصہ رہتا ہے۔ کسی سے جھگڑا ہو جائے تو اتنا غصہ آ جاتا ہے کہ منہ میں سے جھاگ نکل آتی ہے۔

ج: لاشعوری آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اظہار بھی شرم کی بات ہے۔ فارسی کی مثال ہے’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘۔ آپ نے خود کو گھن لگا دیا ہے اور خود اپنے ہاتھوں اپنا اندرونی نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ آپ جس طرح ممکن ہو۔ غلط عادت چھوڑ دیں اور ہر وقت یا حی یا قیوم کا ورد کریں۔ رات کو سونے سے پہلے ایک سو ایک بار کلمہ شہادت پڑھ کر مراقبہ کریں، مراقبہ میں یہ تصور کریں کہ جامنی رنگ کی روشنیاں آپ کے سینے میں جمع ہو رہی ہیں۔ یہ عمل روزانہ بلاناغہ پندرہ منٹ تک کریں۔ صبح بہت سویرے بیدار ہو کر سیر کیا کریں۔ کھانوں میں چیزیں کم اور ترکاریاں زیادہ استعمال کریں۔


Topics


Roohani Daak (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔


انتساب

ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔

جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔

*****