Topics
س: للہ مجھ پر رحم کیجئے۔ حرام موت مرنے سے بچا لیجئے۔ میں زندگی سے بے زار ہوں۔ خراب صحبت اور دوست نما دشمنوں میں رہ کر اس بری عادت میں مبتلا ہو گیا تھا اور خود کو تباہ کر دیا تھا۔ بار بار توبہ کی اور کنٹرول کرنا چاہا مگر ہر بار شیطان کے چنگل سے نہ بچ سکا۔
کبھی بھی طبیعت ایک جیسی نہیں رہتی۔ چہرہ ہر وقت ایسا رہتا ہے جیسے کسی نے سب کچھ مجھ سے چھین لیا ہو۔ انیس بیس برس کا ہو چکا ہوں مگر ابھی تک اپنے آپ کو بچہ تصور کرتا ہوں۔ فطری باتیں سب تقریباً بھول گیا ہوں۔ اپنے یا غیر کسی بھی آدمی سے اخلاق سے بات نہیں کرتا۔
میٹرک پاس ہوں مگر اپنے آپ کو جاہل تصور کرتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے گھبرا جاتا ہوں۔ کبھی کبھار تو مجھ سے ایک اسکرو تک بھی نہیں لگتا۔ اکثر ہاتھ کپکپا جاتے ہیں۔ ہتھیلیوں سے پسینہ آتا ہے۔
اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں بھی نہیں جاتا کہ سب لوگ مجھے غلط سمجھیں گے۔ ہر چمکتی ہوئی چیز مجھے بری لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ تمام چیزیں مجھے منہ چڑا رہی ہیں۔ میرا مذاق اڑا رہی ہیں۔ ہر وقت سوتا رہتا ہوں اور لوگوں کے پوچھنے پر کہتا ہوں کہ مجھے سونے میں سکون ملتا ہے۔
اپنے سے چھوٹے بچے کو بھی اپنے سے بڑا سمجھنے لگتا ہوں۔ طبیعت پر جبر کر کے اپنی عمر کے دوستوں میں بیٹھتا ہوں۔ تو ان کی زندہ دل باتیں اور قہقہے سن کر اداس ہو جاتا ہوں۔ جہاں کہیں جاؤں ذرا سی دیر میں طبیعت اکتا جاتی ہے۔ اور وہاں سے بھاگنے کی سوچتا ہوں۔
ہر وقت بس دل یہی چاہتا ہے کہ مر جاؤں تو سارے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔
موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہو گا۔ نامی کتاب کا مطالعہ کیا تو دنیا سے بے زاری اور بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے جو کھانا میں کھا رہا ہوں وہ میری ٹانگوں میں اتر رہا ہے۔ گرمی میں لحاف اوڑھ کر سوتا ہوں۔ نہانے کو بھی دل نہیں چاہتا۔
ج: کسی نہر یا ندی کے کنارے پانی پر کھڑے ہو کر نماز کی طرح نیت باندھ لیں اور 21مرتبہ یا حفیظ پڑھ کر پانی سے باہر آ جائیں اور نہر کے کنارے پر دس منٹ تک آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں۔ یہ عمل صبح سورج نکلنے سے پہلے 21روز تک کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****