Topics
س: بعد سلام عرض ہے کہ میں اپنی امی جان کے مرض کے بارے میں آپ کو کئی خط لکھتی رہی ہوں جس کا آپ نے ہمیشہ جواب دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب میری امی کافی حد تک ٹھیک ہیں جس کے لئے میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ کی دعائیں ہمارے کام آئیں۔ اب مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کی رہنمائی حاصل کی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ 5اپریل کو میری شادی ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ہوئی جو کہ میرے بھائی کا دوست تھا۔ دو سال پہلے میرے بڑے بھائی کی شادی پر اس کی امی نے مجھے پسند کیا اور میرا رشتہ مانگا جس پر میرے والدین نے کہا کہ ابھی ہمیں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنی۔ لڑکا جب بھی میرے بھائی کو ملنے آتا باہر سے ہی مل کر چلا جاتا تھا کہ آج تک کبھی اس نے میری شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی میں نے اس کی۔ اس کی ماں نے ہمارے گھر کے بڑے چکر لگائے کہ نہیں میں نے اسی لڑکی کو اپنی بہو بنانا ہے۔ لڑکے کا باپ فوت ہو چکا تھا تین لڑکے اور دو لڑکیاں پہلی ماں سے تھے جو کہ اپنے اپنے گھروں میں آباد تھے۔ کوئی بھی لڑکا ہمارے گھر آنے کو تیار نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ سوتیلے ہیں اس لئے بیوہ ماں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور خود ماں پردے کی اتنی پابند ہے۔ بڑی شریف عورت ہے اور پھر ہماری ہی ذات کی ہے۔ اچھی ہے بس میرے نصیب تھے رشتہ طے ہو گیا۔ اور میری شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد میرے والدین نے مجھے بٹھا کر سمجھایا کہ دیکھو بیٹی ہم ان والدین میں سے نہیں جو کہ بیٹی کو غلط راستہ دکھائیں۔ تم نے اسے اپنا گھر سمجھنا ہے اور بیٹی بن کر جس طرح ہماری خدمت کرتی آئی ہو اسی طرح وہاں بھی اپنے گھر کو جنت بنانا ہے۔ میں نے شادی سے پہلے اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں سے اپنی خدمت اور نیک نامی کی وجہ سے اتنی عزت اور محبت پائی تھی کہ سب ہی مجھ سے بہت ہی خوش تھے۔ میرا گھر میرے ماں باپ کے گھر سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ میرے ساتھ سسرال والوں کا رویہ بہت ٹھیک رہا لیکن شوہر نے مجھ پر بڑا رعب ڈالنے کی کوشش کی۔ میری ہر وقت یہ خواہش ہوتی کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے لیکن وہ بار بار بات پر ناراض ہو جاتا اور مجھ سے بات نہ کرتا۔ جس پر میں اسے رو رو کر مناتی کہ جیسے آپ کہتے ہیں میں ویسے ہی کرتی ہوں۔ پھر آپ کیوں خفا ہو جاتے ہیں۔ میری ساس مجھے ہر وقت یہی کہتی کہ میری خواہش تھی کہ میں وہ بہو لاؤں گی جو میرے گھر کا سارا کام سنبھالے تو میں دل میں سوچتی کہ ہاں یہ میرا گھر ہے میرے شوہر پر گھر کی ساری ذمہ داری ہے۔ مجھے بھی اس گھر میں اپنا مقام بنانا ہے۔ میں دن رات ان کی خدمت میں مصروف ہو گئی کہ اصل عورت کا مقام اس کا گھر ہے۔
میرے شوہر کا گھر والوں سے اور اپنی ماں سے بہت ہی اچھا سلوک تھا۔ ماں اس کو میرے کمرے میں دیر سے آنے دیتی اور رات کے بارہ بجے تک اس کو لے کر بیٹھی رہتی اور چھٹی کے دن ہمارے کمرے سے نہیں نکلتی تھی۔ میں سوچتی کہ ماں ہے اس کا بیٹا ہے لیکن میرے شوہر نے کبھی بھی میرے گھر والوں سے اچھا سلوک نہیں رکھا۔ جب بھی میں میکے جانے کے لئے کہتی تو ناراض ہو جاتے لیکن اگر کبھی جاتے تو سیدھے منہ ان سے بات نہ کرتے حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میرے ماں باپ گھر آئے داماد کی بہت عزت کرتے۔ میں ماں بننے والی تھی۔ شادی کے پانچویں مہینے میں بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹر نے مجھے بستر پر سیدھا لیٹنے کی ہدایت کی اور چلنے پھرنے سے منع کر دیا تو میری ساس بیٹے کے سامنے مجھے کھانے کا پوچھ لیتی اور سارا دن کمرے میں کوئی نہ آتا تھا۔ ساتویں مہینے مجھے ڈاکٹر نے آہستہ آہستہ چلنے پھرنے کو کہا تو میں نے کچن کا سارا کام سنبھال لیا۔ میں کرسی میز رکھ کر کام کرنے لگتی۔لیکن اس طرح گھر کا سارا کام نہیں ہوتا تھا۔ سب گھر والے اور میری ساس مجھ سے اکھڑی اکھڑی رہنے لگی۔ بیٹا جب بھی سونے کے لئے کمرے میں آتا تو خود ساتھ آ جاتی یا باہر کمرے کے دروازے کے ساتھ لگ کر ہماری باتیں سنتی۔ بتائیں کوئی ماں شادی کے بعد یہ چاہے گی کہ سنوں کہ میاں بیوی آپس میں کیسے ہنستے بولتے ہیں۔
ج: سو مرتبہ بِسْمِ اللّٰہِ اَلْوَاسِعُ جَلَّ جَلَالُہُ پڑھ کر ساس کا تصور کریں اور تصور کرتے کرتے سو جائیں۔ یہ عمل رات کو سونے سے پہلے کریں اوراول و آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ عمل کی مدت 90دن ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****