Topics
اللہ کی صفات پر غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ زمین، بیج، پانی، دھوپ یا چاندنی نہ ہو تو ہماری غذائی ضروریات کی تکمیل نہ ہو۔ وہ کون سی ہستی ہے جو مخلوق کیلئے زمین سے اناج اور پھل پیدا کرتی ہے اور اس نے زمین کے اندر تخلیقات اور نشوونما کی ایسی صلاحیتیں منتقل کر دی ہیں کہ اگر ایک قطعہ زمین میں چار مختلف درخت لگائے جائیں تو ایک ہی قطعہ زمین سے مختلف رنگ، شکل اور خواص کے پھل ملیں گے۔جیسے امرود، انار، انگور اور کھجور۔ ایک کیاری میں پانچ قسم کے پھول لگائیں تو ہر پھول کا رنگ اور خوشبو الگ الگ ہوتی ہے۔ ربوبیت کا وصف یہ ہے کہ آم کی ایک گھٹلی زمین میں بوئی جاتی ہے تو آم کی ایک گھٹلی کے عوض پچیس تیس سال تک ہر سال ہزاروں آم مفت فراہم ہوتے ہیں۔
آسمان کی طرف نگاہ کریں تو نگاہ حیران ہو جاتی ہے کہ آسمان ایک چمکتی دمکتی اور روشن دنیا کا نام ہے جہاں چاند، سورج،ستارے اور کہکشانی نظام نظر آتے ہیں۔ یہ سب چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں، مخلوقات کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ سمندر کی گہرائی میں تہہ تک نظر ڈالیں تو وہاں مچھلیاں، سمندری مخلوقات اور دیگر غذائیں موجود ہیں جو انسان کی خوراک بنتی ہیں اور کوئی فرد اس خوراک کا ایک پیسہ بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیتا۔ مچھیرے مچھلیاں پکڑ کر بازار میں فروخت کرتے ہیں تو یہ انسانوں کاآپس میں لین دین ہے۔
6ارب کی آبادی میں ایک فرد بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے خوراک کیلئے ایک پیسہ اللہ کو دیا ہو۔
انسان ماں کے پیٹ میں پہلا قدم رکھتا ہے اور نو ماہ تک اسے غذا فراہم کی جاتی ہے۔ اس غذا کا ایک پیسہ بھی اللہ تعالیٰ کو ادا نہیں کیا جاتا۔ پھر جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ماں کے دودھ کے ذریعے اس بچہ کی پرورش کرتے ہیں اس دودھ پینے کی کوئی اجرت اللہ تعالیٰ کو ادا نہیں کی جاتی۔ انسان کیلئے اس دنیا میں وسائل پہلے سے مہیا کر دیئے جاتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ پیدائش کے بعد انسان خود اپنے لئے وسائل تخلیق کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت عدل و توازن اور اکرام کے ساتھ انسان کے لئے وسائل پیدا کر دیتی ہے۔
بارش اللہ تعالیٰ برساتا ہے۔ زمین کو نشوونما کے لئے قوت اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ ایک چھوٹے سے بیج کو ایک بہت بڑا درخت بنا کر زمین کے اوپر پھیلنے کی قوت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ انسانی زندگی کے کسی بھی رخ پر غور و فکر کیا جائے تو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت نے انسان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہوش و حواس، سماعت و بصارت اور احساس و ادراک عطا کیا ہے۔
جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے انسان زندہ رہتا ہے، دیکھتا، سنتا، کھاتا اور پیتا ہے، شادی کرتا ہے، بچوں کی دیکھ بھال کر کے ان کی شادیاں کرتا ہے۔ زمین پر کاشت کرتا ہے اور گھر بناتا ہے اور پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ زمین پر یہ سب چیزیں عارضی ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے
* انسان کو زمین کے اوپر ایک معینہ مدت تک رہنے کیلئے بھیجا ہے
مقررہ مدت کے بعد زمین انسان کو قبول نہیں کرتی بلکہ زمین اسے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اور مادی جسم فنا ہو جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے پیدا ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے وسائل اپنا حق سمجھ کر مفت استعمال کئے اس انسان نے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ کو کیا دیا؟ اللہ تعالیٰ کیلئے کیا ایثار کیا ہے؟
آدمی صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتا ہے۔ ایک ماہ خون پسینہ ایک کر کے محنت و مشقت کے بدلے جو مزدوری اسے ملتی ہے تو وہ مالک کا شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی خوشامد میں لگا رہتا ہے لیکن اس اللہ کے لئے شکریہ کے دو بول نہیں ادا نہیں کرتا۔ جس اللہ نے زمین، ہوا اور پانی مفت فراہم کئے ہیں۔
o وہ اللہ جو گائے کے جسم میں خون و غلاظت سے دودھ علیحدہ کر کے ہمیں پلاتا ہے۔
o وہ اللہ جو شکم مادر میں ماں کے خون کو انسان کی شریان اور رگوں میں دوڑا دیتا ہے۔
o وہ اللہ جو ماں کے خون کو دودھ میں تبدیل کر کے انسان کی غذا بناتا ہے، جو سورج سے زمین کو روشنی اور حرارت بخشتا ہے اور درخت و پھل اگاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور ہوش و حواس عطا کئے ہیں۔ انسان کو آنکھیں، کان اور زبان عطا کی ہے۔ جس سے انسان دیکھتا ہے، سنتا ہے اور بول سکتا ہے۔ دل عطا کیا ہے تا کہ وہ محسوس کر سکے۔ آدمی دنیاوی کاروبار میں تو مالک کی خوشامد کرتا ہے جہاں سے اسے محنت و مزدوری کے بعد معاوضہ ملتا ہے لیکن جس اللہ نے انسان کو ترتیب و تسلسل کے ساتھ تمام وسائل مفت عطا کئے ہیں اس کا زبانی کلامی شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔
ایک انسان جس طرح پریشان، غمزدہ اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جانور تو اس طرح عدم تحفظ کا شکار نہیں۔ ایک انسان جس طرح دوسرے انسانوں کو قتل کر رہا ہے، جانور اپنی نوع کے افراد کو اس طرح قتل نہیں کرتے۔
خود غرضی۔۔۔۔۔۔
دولت پرستی۔۔۔۔۔۔
محلات کی تعمیر۔۔۔۔۔۔
آرام و آسائش کے سامان۔۔۔۔۔۔
نوع انسانی کا قتل۔۔۔۔۔۔
o کیا یہ انسان کا شرف ہے؟
بھول کر بھی اللہ کی طرف ذہنی اور قلبی توجہ نہ کرنا۔۔۔۔۔۔
o کیا یہ انسان کا شرف ہے؟
انسان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اس کا ذہن دولت کے انبار جمع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا۔ دنیا کی محبت نے اس کے دل کو اس طرح جکڑ لیا ہے کہ دل سے کبھی اللہ تعالیٰ کی آواز نکلتی ہی نہیں۔
آج انسان کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، چلنا، پھرنا۔۔۔۔۔۔
عیاری،
مکاری
اور
خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفت فراہم کی ہیں اور جن کی بنیاد پر انسان زندہ ہے اور آرام و آسائش سے زندگی بسر کر رہا ہے تو انسان کا ذہن ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے گا اور وہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن جائیگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
o کیا تم غور نہیں کرتے کہ جس لکڑی سے تم آگ سلگاتے ہو
اور محلات قائم کرتے ہو
وہ لکڑی تم نے بنائی ہے یا اللہ نے بنائی ہے؟
اگر آسمان سے بارش نہ برسے تو ساری دنیا ویران ہو جائیگی۔
اب آسمان سے بارش تم برساتے ہو یا اللہ تعالیٰ برساتا ہے؟
کیا تم غور نہیں کرتے؟
کہ اگر سمندر میں لہریں نہ ابھریں
اور ان لہروں کے ٹکرانے سے بخارات اوپر نہ اٹھیں
اور ہوا ان بخارات کو اپنے دوش پر لے جا کر بادل نہ بنائے
اور بادلوں کے قافلے شمال رخ اختیار نہ کریں
جہاں آکسیجن کی کمی سے وہ آبی بخارات برف نہ بن سکیں
اور پھر اگر سورج کی شعاعیں ان کو پانی میں تبدیل نہ کریں
تو کیا زمین سیراب ہو سکتی ہے؟
اور کیا زمین پر ندی، نالے، نہریں اور دریا بہہ سکتے ہیں؟
اگر اللہ تعالیٰ زمین کو پتھر یا پہاڑ کی طرح بنا کر اس کے اندر سے نشوونما کی صلاحیت ختم کر دے تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا طریقہ یا سائنس موجود ہے جس کے ذریعے وہ زمین سے اپنے لئے غذا حاصل کر سکے؟
یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے یا بندے کرتے ہیں؟
ظاہر ہے انسان کو اس پر کچھ دسترس نہیں
اور یہ سب اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ تمام نعمتیں اور وسائل اپنی مخلوقات کے لئے مہیا کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسان ان نعمتوں کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات سے مشرف و ممتاز بنایا ہے۔
o انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ
بارش کون برساتا ہے؟
زمین کے پیٹ سے اجناس کون پیدا کرتا ہے؟
دریا سے مچھلیاں کون عطا کرتا ہے؟
o ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ
ہم زمین پر پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھے؟
اور وہاں سے زمین پر کیوں آئے؟
اور پھر زمین سے کہاں اور کیوں چلے جاتے ہیں؟
انسان کو اللہ تعالیٰ کے کائناتی نظام پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ اگر وہ تفکر یا غور و فکر نہیں کرے گا تو انسان کی حیثیت جانور سے زیادہ نہ ہو گی اور وہ بھیڑ بکری جیسی مخلوق بن کر رہ جائے گا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل اور صلاحیت سے اپنے نظام حیات پر غور و فکر کر کے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو وہ دیگر مخلوقات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ا س لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات میں غور و فکر کی صلاحیت نہیں رکھی یہ صرف انسان کو عطا کی ہے اور غور و فکر کی صلاحیت ہی دراصل انسان کی اصل ہے۔
لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ تمام عالم اسلام غور و فکر یا تفکر سے محروم ہے اور اس محرومی کی بنیاد پر امت مسلمہ کو جس کی تعداد ایک ارب ہے غیر مسلموں نے اپنا غلام بنا لیا ہے۔ افغانستان، ایران، عراق، بوسنیا، چیچنیا، فلسطین، کشمیر ہر طرف مسلمانوں کی ہلاکت کی خبریں ہیں اور تو اور مسلمان خود ہی مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ مسلمانوں کا حال یہ ہو گیا ہے کہ انہیں کسی مسلمان کی شہادت سے اتنا بھی درد محسوس نہیں ہوتا جتنا کسی کو ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ ہر شخص بے حس ہو گیا ہے۔ پڑوس کی ہمیں کوئی خبر یا فکر نہیں ہوتی۔
اس بے حسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سلیم کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار بندہ نہیں رہا اور اس نے مادیت کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان مادیت سے اس طرح وابستہ ہو گیا ہے کہ پیدا کرنے والی ہستی سے اس کا تعلق کمزور سے کمزور تر ہو گیا ہے۔ مادیت نے اس طرح غلبہ حاصل کر لیا ہے کہ وہ تخلیق کو تو سب کچھ سمجھتا ہے لیکن تخلیق کرنے والے خالق سے اس کا رشتہ باقی نہیں رہا۔
مسلمان اور ان کے اسلاف میں بنیادی فرق یہی ہے کہ جب تک ہمارے اسلاف میں غور و فکر رہا وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے شکر گزار رہے اور اللہ تعالیٰ کے مہیاکردہ وسائل اس حقیقت پسندانہ فکر کے ساتھ استعمال کرتے رہے کہ یہ ہماری ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں تو وہ دنیا پر حکمران رہے لیکن اب مسلمان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں سے تو بھرپور استفادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور وہ دنیا کی ذلیل ترین قوم بن کر غیر مسلم اقوام کی محتاج بن گئی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ آج مسلمان پیسے اور اقتدار کے ساتھ ساتھ اس علم کے بھی محتاج ہیں جو ان کی میراث تھا۔
آج کی دنیا سائنسی دنیا کہلاتی ہے۔ سائنس کا مطلب ڈھونڈنا، تلاش کرنا یا کھوج لگانا ہے۔ اس علم کے ذریعے آدمی کسی چیز کی ماہیت تلاش کر کے اس سے استفادہ حاصل کرتا ہے اور تحقیق و دریافت کے ذریعے کسی چیز کی ماہیت قلب کو تبدیل کر کے ایک چیز سے ہزاروں چیزیں بنا دیتا ہے۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات ہیں۔ جو قوم سائنس کے ان اصولوں پر عمل پیرا ہو جاتی ہے وہ تحقیق و ایجادات کے ذریعے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتی ہے اور جس قوم سے تحقیق و ایجادات نکل جاتی ہیں وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شکر کرو کہ شکر کرنے والے بہت کم ہیں۔ آپ محض ایک بات پر ہی عمل شروع کریں کہ جب بھی کوئی چیز، نعمت یا وسائل استعمال کریں تو کہیں
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
کپڑا پہنیں تو شکر ادا کریں۔ سونا مرنے کے برابر اور جاگنا دوبارہ زندہ ہونے کے برابر ہے، صبح بیدار ہو کر شکر ادا کریں۔ درخت، پھول اور سبزہ دیکھیں تو کہیں
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
شکر کی عملی پریکٹس مشکل کام نہیں، ٹھنڈے پانی کا گھونٹ پینے سے مسرت ہو، ٹھنڈک کا احساس ہو، پیاس بجھے تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
تو نے مجھے ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا۔ روکھی سوکھی کھائیں یا مرغن کھانا کھائیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
اللہ تعالیٰ روٹی نہیں کھاتے، پیٹ تو ہمارا ہی بھرتا ہے۔
شکر کرنے سے اللہ خوش ہو جاتا ہے۔ کوئی دوست ملے تو ہنس کر بات کریں۔ بڑوں کا احترام کریں، بچوں سے شفقت سے پیش آئیں اور یہ سب نعمتیں ملنے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
o شکر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو خوش ہو کر استعمال کیا جائے!
قرآن پاک میں ارشاد ہے
o ہم نے لقمانؑ کو حکمت عطا کی تا کہ وہ شکر ادا کرے۔
اللہ تعالیٰ نے لقمان کو حکمت دی تا کہ :
* وہ اس حکمت سے لوگوں کا علاج کریں
* انسانوں کو فائدہ پہنچائیں
* اور اس عطا کردہ نعمت کا استعمال کریں۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکمت اس لئے دی ہے میں اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں یہ اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔ شکر سے مراد ہے کہ جو شئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے آپ اسے خوش ہو کر استعمال کریں اور ذہن میں یہ بات نقش ہو کہ یہ نعمت مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں اس کا فائدہ انہی کو پہنچتا ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے وہ محروم رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ان دونوں سے ہی بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے اس قدر نعمتیں فراہم کیں ہیں کہ انسان کسی نعمت کو استعمال کر کے شکر ادا کرے تو اس کے من کے اندر ایک ایسی شمع روشن ہو جاتی ہے جو یقیناًاسے رسول اللہﷺ کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔ یقین کریں کہ اس عمل کی وجہ آپ کے اندر رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے نقوش روشن ہو جائیں گے۔
مسلمان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو تو استعمال کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہیں بنتے۔ اگر مسلمان انبیاء علیہم السلام کی طرز فکر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کر کے اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں اور اس امر کا یقین کر لیں کہ وہ جو کچھ استعمال کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو ان کی بدحالی ختم ہو جائے گی اور ان کا اپنے اوپر یہ ظلم بھی ختم ہو جائے گا۔
رسول اللہﷺ کی ولادت با سعادت کی نسبت سے ایک بنیادی بات یہ سوچنی چاہئے کہ رسول اللہﷺ کی زمین پر تشریف آوری کا مقصد کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کون سا مشن رسول اللہﷺ کے سپرد کیا ہے؟
انسان اور امت مسلمہ پر بالخصوص یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غور و فکر کر کے اس قادر المطلق ہستی اللہ کا کھوج لگائے جس نے ہمیں یہ تمام نعمتیں مہیا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو کائناتی نظام حیات پر غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا ذوق عطا فرمائے!
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔