Topics

نیابت و خلافت اور خاتم النبیّینﷺ

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ہمیں یہ سعادت اور شرف نصیب ہوا ہے جس کی بناء پر ہم توحید پرست کہلاتے ہیں۔ آپﷺ کی ذات گرامی ایسی مبارک اور مسعود ہستی ہیں جن کی وجہ سے نوع انسانی کو اس بات کا ادراک ہوا کہ انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے اور انسان کس بنیاد پر اشرف المخلوقات ہے؟ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور اس دنیا سے تشریف لے جانا  اس مسلسل عمل کی آخری کڑی ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ایک مجلس منعقد فرمائی۔ اس مجلس میں فرشتے اور جنات موجود تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اللہ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمین فرشتے اور جنات پہلے سے موجود تھے اور نیابت و خلافت کے منصب پر کوئی فائز نہ تھا۔ آپ سے مراد یہ ہے کہ میں ایسی ہستی تخلیق کر رہا ہوں جو میری قائم مقام بن کر اپنے اختیارات استعمال کرے گی۔ جیسے نائب وزیراعظم یا نائب گورنر ہوتا ہے۔

فرشتوں نے یہ بات سن کر کہا کہ آپ نے جس ہستی کو اپنا نائب یا خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا ہے اور جن عناصر سے اس کی تخلیق ہوئی ہے ان عناصر میں فساد اور خون خرابہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اس بات کو رد نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں وہ تو کوئی بھی نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ جس بندہ کو جتنا علم عطا کر دیں وہ اتنا ہی جانتا ہے۔ اس پر فرشتے خاموش ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو نیابت و خلافت کیلئے اپنی ذات میں موجود صفات کا علم عطا کیا اور آدم کو خلیفتہ الارض کی حیثیت سے وہ علوم سکھا دیئے جن کو جان کر حضرت آدمؑ اللہ تعالیٰ کے نائب کے فرائض انجام دے سکیں پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور جنات کو سمجھانے اور ان سے آدم کی حاکمیت کا اقرار کرانے کیلئے آدم سے کہا کہ ہم نے اپنی نیابت اور خلافت کے اختیارات استعمال کرنے کیلئے قاعدوں اور ضابطوں پر مشتمل جو علم تمہیں سکھایا ہے وہ بیان کر دو۔ آدمؑ نے ان اسماء کی تفصیل بیان کر دی جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھائے تھے۔ فرشتوں نے یہ سن کر کہا کہ جو کچھ آدم نے بیان کیا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور آپ حکیم و علیم اور دانا و بینا ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب چونکہ آدم کو نیابت و خلافت سونپ دی گئی ہے اس لئے تم آدم کی حاکمیت کا اقرار کرو۔ فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔ سجدے سے مراد یہ نہیں کہ نعوذ باللہ فرشتوں یا جنات نے آدم کو اللہ کا درجہ دے دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آدم کی حاکمیت قبول کرنے کیلئے اپنے سر جھکا دیئے اور یہ اقرار کر لیا کہ آدم ان علوم کی بنیاد پر ہمارے حاکم ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے نیابت و خلافت کیلئے آدمؑ کو سکھائے ہیں۔

اس موقع پر جنات میں دو گروہ بن گئے ایک گروہ نے آدم کی حاکمیت کوقبول کر لیا اور دوسرے گروہ نے آدم کی حاکمیت قبول نہیں کی۔ جس گروہ نے آدم کی حاکمیت کو قبول کر لیا وہ اللہ کا پسندیدہ گروہ کہلایا اور جس گروہ نے آدمؑ کی حاکمیت قبول نہیں کی اللہ تعالیٰ نے اسے معتوب قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اختیارات تفویض کر کے جنت میں بھیج دیا اور جنت میں ان علوم کی پریکٹس کرائی جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھائے تھے۔

جنت کا ماحول یہ ہے کہ جب آپ ’سیب‘ کہیں تو سیب موجود ہو جاتا ہے۔ دنیا کی طرح سیب حاصل کرنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ آپ زمین کھودیں اس میں سیب کا پودا لگائیں پھر اس پودے کو پانی دیں اور کھاد ڈالیں، اسے کیڑے مکوڑوں سے بچائیں۔ بارش اور دھوپ سے اس کی حفاظت کریں اور پھر سات آٹھ سال تک پھل کا انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جب کن کہا تو کائنات بن گئی۔ 

جنت میں آدم نے سیب کہا تو سیب موجود ہو گیا۔ یہ امر سمجھنے کیلئے تخلیقی قوانین کا علم جاننا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ فرشتے، جنات، آسمان، زمین، چاند، سورج تخلیق ہوں تو سب ایک لفظ کُن سے وجود میں آ گئے۔ اس تخلیقی عمل میں یہ بات غور طلب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کُنکہا تو پہلے سے کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ کُنکے بعد ان کی تخلیق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے کن کہنے اور آدم کے اختیار میں یہ فرق ہے کہ جب آدم نے ’سیب‘ کہا تو وہ سیب سامنے آیا جو پہلے سے موجود تھا۔ آدم نے جب ’پانی‘ کہا تو وہ پانی موجود ہوا جو پہلے سے تخلیق ہو چکا ہے۔ آدم نے حُور کہا تو حُور موجود ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ حُور پہلے سے موجود تھی۔ جب آدم نے حُور کہا تو وہ سامنے آ گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ حُور پہلے سے موجود نہ تھی اور آدم کے کہنے سے تخلیق ہوئی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!

o میں احسن الخالقین ہوں یعنی میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین ہوں بہترین خالقیت کا وصف یہ ہے کہ ایک چیز عدم سے وجود میں آ جاتی ہے۔ اور آدم کی تخلیق کا وصف یہ ہے کہ پہلے سے موجود وجود کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

جتنا عرصہ آدم جنت میں رہے تو آدم کو کُن کہنے کی پریکٹس ہوتی رہی اور آدم کے اندر اللہ تعالیٰ کے علم الاسماء کا یقین راسخ ہو گیا۔ آدم کے مشاہدہ میں یہ بات آ گئی کہ میں جو ارادہ کرتا ہوں اس پر لازماً عمل درآمد ہو جاتا ہے۔

یاد رہے!

کہ یہ عمل درآمد اللہ کی تخلیق کردہ اشیاء میں ہو گا کوئی نئی اور غیر موجود شئے تخلیق نہیں ہو گی۔

اللہ تعالیٰ نے آدمؑ سے کہا اور تمہاری بیوی جنت میں خوش ہو کر رہو۔ جہاں سے جو چیز چاہو، خوشی خوشی کھاؤ پیو۔ جنت میں رہنے کیلئے دو شرائط عائد ہوئیں۔ تخلیق کے تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ خالق پر کوئی شرط عائد نہیں ہوتی۔ شرائط مخلوق کیلئے عائد ہوتی ہیں۔

دو شرائط یہ ہیں کہ 

1۔ جنت میں خوش ہو کر رہنا بے حد خوش ہو کر کھانا پینا ہے۔ یعنی خوشی کے ساتھ جنت کی ساری زمین پر تصرف کا حق دیا گیا۔

انسان جب خوش ہوتا ہے تو وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ شادی بیاہ کے مواقع پر کئی کئی دن شادی کے معمولات میں گزر جاتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ اتنے دن گزر گئے لیکن وقت کا پتہ نہیں چلا۔ خدانخواستہ کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو دس منٹ بھی دس گھنٹوں کے برابر ہو جاتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب انسان خوش ہوتا ہے تو وہ اسپیس کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے اور جب غمگین اور پریشان ہوتا ہے تو وقت کی گرفت اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک دن ایک سال کے برابر لگتا ہے۔ جنت کا ماحول چونکہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں خوش ہو کر رہا جائے اس لئے وہاں وقت کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا۔

آپ قرآن پاک پڑھ کر جس قدر غور و فکر کریں گے تو معلوم ہو گا کہ جتنا خوش رہا جائے شعور اسی قدر آزاد ہو گا۔

2۔ آدم پر دوسری شرط یہ عائد کی گئی کہ شجر ممنوعہ کے نزدیک نہیں جانا۔ اگر تم اس درخت کے قریب گئے تو تمہارا شمار ظالمین میں ہو گا۔ اس درخت کے قریب جانا۔۔۔۔۔۔حکم عدولی یا ٹائم اور اسپیس کی گرفت ہے۔

ظالمین کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔تم ناخوش ہو جاؤ گے۔

بہرحال شیطان کے بہکاوے میں آ کر آدم سے جنت میں سہو ہو گیا اور اس بھول پر آدم کے ذہن میں یہ بات آ گئی کہ مجھ سے حکم عدولی ہو گئی ہے۔ جب جنت کی فضاء ’’خوشی‘‘ سے نکل کر آدم کے ذہن میں ظالمین کا تاثر قائم ہو گیا تو آدم اسپیس کی گرفت میں آ گئے یعنی آدمؑ کو جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔ آدمؑ نے زمین پر عاجزی انکساری کی۔۔۔۔۔۔روتے رہے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہیں، اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو معاف فرما دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس شرط کی یاد دہانی کرا دی کہ اگر تم خوش رہو گے تو جنت میں دوبارہ داخل ہو جاؤ گے اور اگر خوش نہ ہوئے تو جنت تمہیں قبول نہیں کرے گی۔

خوشی کیا ہے؟

اللہ کے پسندیدہ راستے پر چلنا۔۔۔۔۔۔خوشی ہے اور

اللہ کے پسندیدہ راستے پر نہ چلنا پریشانی اور ناخوشی ہے۔

خوش رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی حکم عدولی نہ ہو یعنی تم شجر ممنوعہ کے پاس نہ جاؤ۔ مثلاً جو ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اس میں شاخ در شاخ برائی پھلتی پھولتی ہے اور آدمی تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جھوٹ کی بے شمار شاخیں ہیں، آدمی کو ایک جھوٹ کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور جھوٹ کے درخت کی سو شاخیں انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے جتنی بھی ممنوعہ باتیں بتائیں ہیں وہ سب شجر ممنوعہ ہیں۔ جھوٹ بولنا، حقوق العباد کا خیال نہ رکھنا یا قتل کرنا برائی کا درخت ہے۔ جو شاخ در شاخ بڑھتا رہتا ہے۔ اسی صورت خوشی کا درخت ہے۔ اس میں سے بھی شاخیں نکلتی ہیں مثلاً آپ نے ایک کنواں بنوا دیا اور اس سے ہزاروں آدمی سیراب ہوتے ہیں تو وہ کنواں ایک درخت ہے۔ اور پانی پینے والے ہزاروں آدمی اس کی شاخیں اور پھول ہیں۔ اس طرح نیکی اور برائی ایک درخت کی طرح پھلتی پھولتی ہے۔ حضّور پاکﷺ نے فرمایا نیکی ایک درخت ہے جس سے تمہیں بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اور تمہاری اولاد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ

o اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ بندے آپس میں پیار و محبت سے رہیں۔

o ایک دوسرے کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں اور 

o ایک دوسرے کی حق تلفی نہ ہو

o اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے جن آداب کا تعین کر دیا ہے ان کی پیروی کر کے اللہ کو راضی رکھیں اسی طرح آپ راضی برضا اور خوش و خرم رہیں گے

o رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کریں۔

یہ ہماری سعادت ہے کہ ہم حضّور پاکﷺ کے امتی ہیں اس کے ثمرات تب حاصل ہوں گے جب رسول اللہﷺ کے اوصاف ہمارے اندر پیدا ہوں گے۔ اگر ہم باعمل ہوں گے تو سچی و حقیقی خوشی اور اطمینان قلب نصیب ہو گا۔ اگر خوش نہیں رہیں گے تو سکون نہیں ملے گا اور یقین کے درجے میں داخل نہ ہو سکیں گے۔

o یہ قانون ہے۔

ناخوش آدمی جنت میں نہیں جا سکتا۔

ہر امتی پر فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے کہ

* کیا میں اپنے عمل میں سچا ہوں۔۔۔۔۔۔؟

کیا میں حضورﷺ کا امتی کہلا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔؟؟

جب آپ اس سوال پر غور و فکر کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ یقیناً میں اس کا اہل نہیں ہوں کہ آپﷺ کا امتی کہلا سکوں۔ 

اب یہ خیال آئے گا کہ میں کس طرح آپﷺ کا امتی ہوں؟

آج اپنی حالت اور اعمال سے ہم فرشتوں کی اس بات کی تصدیق توکر رہے ہیں کہ یہ فساد کرے گا لیکن اللہ کی اس بات کا مان کہاں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں نے آدم کو علم الاسماء سکھائے ہیں؟ آج وہ علم کہاں ہے؟

علم الاسماء میں تو فساد نہیں بلکہ رحمت ہی رحمت اور اللہ ہی اللہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

o جو بندے میرے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔

میں نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان پر اپنے راستے کھول دوں!



Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔