Topics

مقامِ محمود

اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات اپنے حبیب اور برگزیدہ ہستی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کیلئے تخلیق کی ہے۔ کائنات میں خالق اور مخلوق دو ہستیاں سامنے آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے اپنے اور مخلوق کے درمیان ایک ایسی ہستی کو پردہ، واسطہ یا میڈیم بنایا جو خالق سے قریب ترین، لیکن مخلوق ہے۔

رسول اللہﷺ کا ارشادِ عالی مقام ہے۔

اول ما خلق اللّٰہ نوری

* اللہ نے سب سے پہلے میرا نُور  تخلیق کیا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی صفات کا بیان فرمایا ہے۔

ھولااوّل و الآخر و الظاھر والباطن

* کائنات کی ابتداء بھی میں ہوں۔ اس کائنات کی انتہا بھی میں ہوں اس کائنات کا ظاہر اور باطن بھی میں ہوں۔

الا انہ بکل شئی محیط

* ایک احاطہ اور دائرہ ہے وہ دائرہ اللہ ہے تم اس کے بیچ میں ہو اللہ نے ہر شئے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّھَادَةِهُوَالرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ

* اللہ غیب اور شہود دونوں کو جانتا ہے۔وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

کوئی چیز مجھ سے مخفی نہیں ہے۔ جو تم مجھ سے چھپاتے ہو وہ میں جانتا ہوں اور جو تم کرتے ہو وہ سب میرے علم میں ہے۔

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ 

* میں تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں۔

قریب بھی نہیں بلکہ اقرب

اقرب کا مطلب ہے جس میں فاصلہ کا تعین نہ کیا جا سکے۔ فاصلہ تو ہے لیکن اتنا کم ہے کہ اسے ملی میٹر میں بھی ناپ نہیں سکتے۔

و فی انفسکم افلا تبصرون

* میں تمہارے اندر موجود ہوں۔۔۔۔۔۔دیکھتے کیوں نہیں؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!

* جب تم سنتے ہو تو میری سماعت سے سنتے ہو، جب تم بولتے ہو تو میرے نطق سے بولتے ہو۔ جب تم سوچتے ہو تو میرے فواد سے سوچتے ہو۔

اللّٰہ نور السموٰات والارض

* اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور  ہے۔ اس نُور  کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں ایک چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا تارہ ہے۔ اس میں ایک مبارک درخت زیتون کا تیل جلایا جاتا ہے وہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ اس کا تیل خواہ اسے آگ نہ بھی چھوئے روشن ہے۔ نُور  پر اعلیٰ نُور ۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا نُور  دکھا دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے نُور  علیٰ نُور  یعنی نُور  سے اعلیٰ نُور  فرمایا ہے۔ عالم ارواح میں مخلوقات کی پہلی بنیاد اللہ نور السموٰات والارض ہے۔ 

زمین، آسمان اور کائنات کی تخلیق کا پہلا مرحلہ اللہ کا نُور  ہے۔ نُور  کائنات کی بنیاد اور پہلا نقطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے رسول اللہﷺ کا نُور  بنایا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کائنات کا سب سے پہلا فرد میں ہوں اور میری تخلیق نُور  سے ہوئی ہے یعنی میں اللہ کا نُور  ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نزول سب سے پہلے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہوتا ہے اور نُور  کو نُور  قبول کرتا ہے۔ نُور  اول سے دوبارہ نزول ہوتا ہے تو نُور  روشنی میں بدل کر مخلوقات بنتا ہے۔

جب اللہ نے چاہا کہ کائنات بن جائے تو کائنات اور اپنے درمیان ایک پردہ قائم رکھا۔ تا کہ خالق اور مخلوق الگ الگ ہستی کے طور پر متعارف ہوں۔ رسول اللہﷺ کائنات اور اللہ کے درمیان ایک پردہ ہیں۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام بحیثیت مخلوق کائنات کا رخ اول ہیں۔

پہلے اللہ وحدہ لا شریک ہے پھر اللہ تعالیٰ کے اس تخلیقی نظام میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نُور  ہے اور اس کے بعد ساری کائنات ہے۔ اس طرح کائنات میں دو ہستیاں معزز و محترم ہوئیں۔ ایک پیدا کرنے والی ہستی اور ایک وسائل کو مخلوق میں تقسیم کرنے والی ہستی۔ ایسی ذات جس سے پوری کائنات میں رحمت تقسیم ہوتی رہے۔

اول ماخلق اللہ نُور ی میں رسول اللہﷺ کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ آیات بھی ہیں۔

* اللہ کی طرف سے آیا نُور  اور کتاب مبین

* اس نُور  پر ایمان لاؤ جو ہم نے اتارا ہے

* اے لوگو! تمہارے پاس خدا کی طرف سے دلیل آ چکی ہے۔ ہم نے تمہاری طرف وہ نُور  اتارا ہے جو ہر چیز کو روشن کرتا ہے

* اے نبیﷺ ہم نے تم کو بھیجا، خوشخبری سنانے والا، چوکنا کرنے والا، خدا کی طرف۔۔۔۔۔۔اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر۔

میرے پیارے نبیﷺ، ہم سب کے آقا محمد رسول اللہﷺ کی رحمت سے کائنات میں روشنی ہے۔ کائنات میں حیات ہے۔ رحمت للعالمین کی رحمت سے مخلوقات میں زندگی اور حرکت تقسیم ہوتی ہے، نُور  آسمانوں اور زمین میں زندگی فیڈ کرتا ہے۔

* اے لوگو! تمہارے پاس خدا کی طرف سے دلیل آ چکی ہے

* ہم نے تمہاری طرف وہ نُور  اتارا ہے جو ہر چیز کو روشن کرتا ہے

مرشد کریم حضّور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے جب میں نے ان آیات کی تفسیر پوچھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے رب العالمین اور اپنے محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آ لہ و سلم کے لئے رحمت للعالمین فرمایا ہے تو رب العالمین اور رحمت للعالمین میں کیا فرق ہے؟

میرے مرشد کریم نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد

اول ما خلق اللّٰہ نوری

کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے رسول اللہﷺ کو تخلیق فرمایا اور رسول اللہﷺ کو مقام محمود میں جگہ عطا فرمائی جہاں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے علاوہ کسی بندے کی پہنچ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کائنات کے لئے کوئی حکم نازل فرماتے ہیں یا کُن کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت، جلال اور اس کی ربوبیت کے انوارات پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبول فرماتے ہیں اور

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

کے تحت اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال اور عظمت کو رحمت میں تبدیل کر کے عالمین میں تقسیم کر دیتے ہیں۔

* رسول اللہﷺ کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کے جلال، عظمت، تجلیات اور انوارات کو براہ راست برداشت نہیں کر سکتی۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام باعث تخلیق کائنات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے، جب اللہ تعالیٰ کُن فرماتے ہیں تو کُن کی تمام تجلیات اور پوری مشیئت مقام محمود پر سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذہن مبارک میں آ کر رک جاتی ہیں اور مقام محمود سے لہروں کی صورت میں تبدیل ہو کر کائنات کو تخلیق کرتی ہیں۔

اس کی وجہ بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو بنایا تو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا۔۔۔۔۔۔ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو تجلیات، انوارات اور مشیئت موجود تھیں وہ سب ’’ کُن‘‘ کے بعد مظہر بن گئے۔ اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ کائنات تجلیات کو براہ راست برداشت نہیں کرسکتی۔ کائنات میں انسان، فرشتے، جنات، حیوانات، نباتات، جمادات سب شامل ہیں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں اپنے مقام سے ذرہ برابر اوپر نہیں ہو سکتا۔ مجھے تو جو پیغام ملتا ہے وہ بصورت وحی لے آتا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلی براہ راست اگر حضرت جبرائیل علیہ السلام پر نازل ہو جائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پر جل کر راکھ ہو جائیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ یا اللہ! میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔

ارشاد ہوا! اس پہاڑ کی جانب دیکھو! اگر تم قائم رہ جاؤ تو دیکھ لینا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب پہاڑ کی طرف دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنی تجلی کا نزول کیا تو پہاڑریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس تجلی کو برداشت کر سکے اور نہ پہاڑ اس تجلی کو برداشت کر سکا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس تجلی کو برداشت نہ کر سکے تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کوئی اور مخلوق کیسے اس تجلی کو براہ راست برداشت کر سکتی ہے؟

رسول اللہﷺ کے واقعہ معراج کے متعلق قرآن پاک میں بیان ہے۔

* پھر اس نے اپنا جلوہ فرمایا۔ جب وہ آسمان بریں کے بلند تر کنارے پر تھے۔ پھر وہ قریب ہوئے اور آگے بڑھے، دو کمانوں کے فاصلے پر یا اور بھی کم۔

نظام کائنات پر تفکر کیا جائے اور ان لوگوں سے رہنمائی ملے جو اس نظام میں بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کام کر رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں ’’کُن‘‘ ختم نہیں ہوا۔ ’’کُن‘‘ ازل سے جاری وساری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو پروگرام ہے وہ مسلسل نشر ہو رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پروگرام میں جلال، جمال، عظمت اور جبروت ہے۔ کائنات میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کسی ہستی کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کُن کہنے پرکائنات کے اس جاری وساری پروگرام کی تجلیات کو براہ راست قبول کر سکے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ ایک پاور ہاؤس سے بجلی بن کر ہائی ٹینشن تاروں کے ذریعے گرڈ اسٹیشن آتی ہے اور گرڈ اسٹیشن سے گیارہ ہزار کلو واٹ تار کے ذریعے ٹرانسفارمر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے دو سو واٹ تک کم ہو کر گھر میں بلب روشن کرتی ہے۔ گر ڈپاور ہاؤس سے براہ راست بلب روشن کیا جائے تو بیس ہزار واٹ کا بلب بھی فیوز ہو جائے گا اور جل کر راکھ ہو جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تجلی کو ہائی ٹینشن برق فرض کر لیا جائے تو جب تک اس کی قوت کم نہیں ہو گی، برداشت کے دائرہ سے باہر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے نظام کیلئے وسائل کی تقسیم ضروری ہے۔ محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو ذخیرہ کر کے سارے نظام میں پھیلاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ خالق ہیں جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور مخلوق میں ضروریات اور تقاضوں کی احتیاج رکھ دی اور ان ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل بھی تخلیق کر دیئے۔ مخلوق کو زندہ رکھنے، پروان چڑھانے اور مخلوق کے جذبات و احساسات کی آبیاری کیلئے ایک نظم کے تحت وسائل کا نظام جاری و ساری کر دیا۔ اس نظام میں تواتر، توازن اور ترتیب قائم کی تاکہ مخلوق بیزاری و اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ مخلوق کو یہ وسائل اس طرح میسر ہیں کہ ضروریات کی کفالت بھی کرتے ہیں اور آنکھوں سے اوجھل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اگر یہ وسائل آنکھوں سے اوجھل نہ ہوں تو مخلوق میں بیزاری پیدا ہو جائے اور ان کے اندر وسائل کی طلب کم ہو جائے۔ اس فارمولے پر غور کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہو گا کہ مخلوقات میں جمادات، نباتات، حیوانات، ارض و سموٰات اور انسان سمیت پوری کائنات کی زندگی، غیب و شہود دو رخوں پر قائم ہے۔ آسان الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پوری کائنات فنا و بقا پر قائم ہے۔

اگر فنا نہ ہو تو بقا نہیں ہو گی اور اگر بقا نہیں تو فنا نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں فنا و بقا کا جو نظام بنایا ہے یہ دراصل ایک عمل ہے ۔ اسے ہم کائنات کی حرکت اور کائنات کا تغیر کہہ سکتے ہیں۔ خالق اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس میں تغیر نہیں ہوتا اور کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ مخلوق کے اندر تغیر ہوتا ہے۔ مخلوق کا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔احتیاج جبکہ خالق میں کسی قسم کی احتیاج، تغیر، تبدیلی یا تعطل نہیں ہوتا۔ خالق کی شناخت مخلوق سے برعکس ہے۔

o خالق کسی کا باپ نہیں، کسی کی اولاد نہیں، خالق کو بھوک پیاس نہیں لگتی، وہ کسی گھر کا محتاج نہیں۔ اس کا کوئی خاندان نہیں ہے۔

آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، لا تا خذہ سنتہ ولانوم

o اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں

حیی و قیوم۔۔۔۔۔۔ خود زندہ اور قائم ہے

اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ

یعنی اس میں کوئی تغیر و تبدیلی نہیں ہے۔

خالق اور مخلوق کے رشتے کو برقرار رکھنے کیلئے ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جس میں ایسا تغیر ہو جو معطل نہ ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔

فلن تجد لسنت اللّٰہ تبدیلا

و لن تجد لسنت اللّٰہ تحویلا

* سو تم اللہ کی سنت میں تبدیلی نہ پاؤ گے

اور نہ کبھی اللہ کی عادت میں تغیر دیکھو گے۔

اللہ کے نظام میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو بنانا چاہا تو کہا

کُنoہو جا

فیکون oہو گیا

کن کے اندر لا محالہ یہ راز مخفی ہے کہ خالق کچھ چاہ رہا ہے اور پھر خالق نے جو کچھ چاہا وہ ہو گیا تو کائنات بن گئی۔ یعنی ارض، سماوات، عالمین، انسان، جنات، فرشتے، حیوانات، نباتات، جمادات جو بھی مخلوقات ہیں سب وجود میں آ گئیں۔ اس دنیا میں جتنے بھی لوگ موجود ہیں وہ سب جسمانی وجود رکھتے ہیں۔ جسمانی وجود روح کے تابع ہے۔

* روح اللہ کا امر ہے۔ اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے۔ ہو جا۔ اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔

ازل میں اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ کہا تو پہلی تخلیق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہوئی۔ پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ روح اپنے لئے ایک وجود بنا کر اس دنیا میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے۔ بچہ میں اگر روح نہ ہو تو وہ بچہ مردہ کہلائے۔ روح جسم کی تشکیل اور پیدائش کے بعد جسم کو بڑھاتی رہتی ہے۔ لیکن بڑھنے سے پہلا جسم غائب ہوتا رہتا ہے۔

ہر پہلے منٹ کو فنا ہے تو دوسرے منٹ کو بقا ہے۔ ہر تیسرے منٹ کو فنا ہے تو چوتھے منٹ کو بقا ہے۔ فنا غیب ہے اور بقا شہود ہے۔ 

ساری کائنات غیب اور شہود کی ایک بیلٹ پر چل رہی ہے جو چیز کبھی شہود ہوتی ہے وہ غیب میں چلی جاتی ہے۔

فنا، بقا اور غیب و شہود کا یہ سلسلہ بالآخر ٹوٹ جاتا ہے۔ شہود اس طرح غیب میں چلا جاتا ہے کہ آدمی باوجود حیات کے اس دنیا میں نظر نہیں آتا۔ میری والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا، مجھے وہ بہت پیار کرتی تھیں میں انہیں بہت یاد کرتا ہوں۔ خواب میں مجھے ملتی ہیں میرا بہت خیال رکھتی ہیں اور یہاں آ کر میرا تحفظ کرتی ہیں۔ لیکن میری والدہ صاحبہ اب شہود میں نہیں غیب میں ہیں۔ آج میں آپ کے سامنے ہوں ایک روز یہ شہود بھی غیب میں چلا جائے گا۔ اس طرح یہ ساری کائنات غیب اور شہود پر قائم ہے۔

غیب کیا ہے؟

غیب اللہ ہے!

شہود کیا ہے؟

شہود رسول اللہﷺ ہیں!

غیب میں تغیر نہیں! شہود میں تغیر ہے۔

غیب اور شہود دونوں ایک دوسرے سے اس طرح چپکے ہوئے ہیں کہ غیب کو شہود سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ شہود کو غیب سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔

آپ 40سال کے ایک فرد سے اس کے بچپن کے 2ماہ الگ نہیں کر سکتے۔ اس کی جوانی علیحدہ نہیں کر سکتے۔ 70سال کی عمر تک کون سی علامت ہے جو بدل نہ گئی ہو، چہرے کے نقش و نگار، خدوخال ہر چیز تبدیل ہو گئی ہے۔ وہ بچہ جس کا نام رکھا گیا تھا وہ غیب میں چلا گیا لیکن شناخت کس بات پر قائم رہی؟ غیب پر، اس کا مطلب ہے کہ غیب ہی بنیاد اوراصل ہے۔ شہود اس غیب کا مشاہدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائناتی سسٹم کو غیب اور شہود پر متحرک رکھا ہوا ہے۔ جب کائنات کی زندگی زیر بحث آتی ہے تو حیات و ممات اور ان کے وقفوں میں زندگی زیر بحث آتی ہے۔ معصوم بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا یہ سب زندگی کی تقسیم ہے اور اس میں شہودی کیفیات اور زندگی کی تقسیم ہے چونکہ شہود بذات خود متغیر شئے ہے اس لئے متغیر شئے کو قائم رکھنے کیلئے بھی متغیر چیزیں درکار ہیں۔

ان میں دن رات شامل ہیں۔ کروڑوں سال سے دن رات باری باری بدل بدل کر آ رہے ہیں، کبھی رات ہو جاتی ہے، کبھی دن آ جاتا ہے۔ لاکھوں سال سے آپ گندم کھا رہے ہیں جو موسم کے حساب سے کبھی غیب میں چلی جاتی ہے اور پھر دوبارہ موجود ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو حیات و ممات کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ حیات و ممات کو قائم رکھنے کیلئے مخلوق کو ایک نظام کے تحت وسائل کا پابند و محتاج رکھنا ضروری ہے جہاں ہم سب ہوا، پانی اور کھانے پینے کے محتاج ہیں اور اگر پانی یا ہوا نہ ہو تو زمین مردہ ہو جائیگی۔ مخلوق ختم ہو جائے گی۔

اصل حیثیت روح کی ہے۔ روح کے بغیر مادی جسم کی کوئی حیثیت نہیں۔ روح کے بغیر مادی جسم کی حیثیت لاش جیسی ہے۔ جب تک روح مادی جسم کو سنبھالے رکھتی ہے آدمی زندہ رہتا ہے اور جب روح مادی جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمہ صفت پیدا فرمایا ہے۔

حسن یوسفؑ ، دم عیسیٰ ؑ ، ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ داری، تو تنہا داری

یعنی حضرت یوسفؑ کا حسن، حضرت عیسیٰ ؑ کا دم یا روح جس سے وہ مردے زندہ کر دیتے تھے اور حضرت موسیٰ ؑ کا معجزہ یدبیضا جس کے ذریعے وہ اپنا بغل میں رکھتے اور باہر نکالتے تو سورج کی طرح روشن ہوتا تھا۔ جتنے بھی پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں تشریف لائے ان سب کی تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عطا فرمائی ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے

* آج کے دن دین کی تکمیل ہو گئی اور

اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر اپنی تمام نعمتوں کو مکمل کر دیا

جب ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات سے نوع انسانی کا شعور آشنا ہو گیا اور اس شعور میں اتنی سکت پیدا ہو گئی کہ وہ دین کی تکمیل کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران کرام کے اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو اس دنیا میں بھیج دیا تا کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان جو واسطہ (میڈیم) عالم ارواح میں تھا وہ عالم شہود میں ظاہر ہو جائے۔

میرے دوستو!

o ہم اگر اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں

o اللہ کی آواز سننا چاہتے ہیں

o اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنا چاہتے ہیں

تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہو جائیں۔

جو انسان اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے اس کا اللہ تعالیٰ اور سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قلبی و روحانی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ 

کلمہ پڑھ کر رسول اللہﷺ کی امت میں داخل ہونا ابتدائی عمل ہے اب ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اس مادی و زبانی تعلق کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ سے ہمارا روحانی تعلق بھی قائم ہو جائے اور اس کا طریقہ تفکر یا مراقبہ ہے۔ جس آن یا جس گھڑی روحانی تعلق قائم ہو جاتا ہے رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضری ممکن ہو جاتی ہے اور ایسے لوگ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منظور نظر ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر صلوٰۃ والسلام عرض کر سکتے ہیں۔


الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ!

صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ کے عملی پہلو پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

السلام علیکم و رحمتہ اللہ!


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔