Topics

غزوہ احد

بدر میں شکست کے بعد کفار کے سردار اس وقت کے متولی ابو سفیان نے انتقام کا عہد کیا۔ مکہ کے ایک دولت مند شخص صفوان نے رسول اللہﷺ کو مدینہ منورہ میں قتل کرنے کی خفیہ سازش کی اور عمیر بن وہب کو مال و زر کا لالچ دے کر اس کام پر آمادہ کیا۔ 

مسجد نبویﷺ کے دروازے پر حضرت عمرؓ نے اس کو پہچان کر پکڑ لیا اور آنحضرتﷺ کے حضّور پیش کر کے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! اس کی نیت صحیح معلوم نہیں ہوتی۔

آپﷺ نے عمیر سے مدینہ آنے کی وجہ پوچھی اس نے کہا! بدر میں میرا بیٹا قید ہو گیا تھا، میں اس کی رہائی کیلئے حاضر ہوا ہوں۔

آپﷺ نے پوچھا!

تو نے تلوار کیوں حائل کی ہے؟

عمیر نے جواب دیا! بدر میں تلوار نے ہمارا کیا ساتھ دیا ہے جواب دے گی۔

آپﷺ نے فرمایا!

کیا صفوان نے تیرے قرض کی ادائیگی اور مال و زر کا لالچ دے کر تجھے میرے قتل کے لئے نہیں بھیجا؟

یہ سن کر عمیر پر بجلی گر گئی۔ اس نے بدحواس ہو کر کہا! بخدا میرے اور صفوان کے علاوہ کسی کو اس معاملے کی خبر نہ تھی۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

قریش نے جب عمیرؓ کے مسلمان ہونے کی خبر سنی تو ان کی آتش انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ مسلمانوں پر حملے کا حتمی فیصلہ ہوا۔ کفار مکہ کا لشکر رخت سفر باندھ رہا تھا تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباسؓ نے ایک قاصد کے ذریعے کفار کے لشکر کی تعداد اور کیفیت سے رسول اللہﷺ کو آگاہ کیا۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حبابؓ بن منذر کو لشکر کفار کی تعداد اور کیفیت حاصل کرنے کے لئے بھیجا تو انہوں نے حضرت عباسؓ کی خبر کی تائید فرمائی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا!

* اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے

اے اللہ! میں تجھ ہی سے طاقت مانگتا ہوں

اور میں تجھ ہی سے رعب و دبدبہ مانگتا ہوں

دشمن سے مقابلہ کیلئے مشاورت کے دوران مسلمانوں کی رائے میں اختلاف واقع ہوا۔ صائب رائے یہ تھی کہ مدینہ طیبہ سے باہر نہ نکلا جائے بلکہ شہر میں رہ کر مقابلہ کیا جائے، عورتوں اور بچوں کو محفوظ جگہ پر بھیج دیا جائے لیکن حضرت حمزہؓ، حضرت سعدؓ، مہاجرین کی ایک جماعت اور اوس و خزرج کے قبائل نے رائے دی کہ مقابلہ مدینہ سے باہر کیا جائے۔ اللہ نے بدر میں ہمیں نصرت دی ہے اور اب تو بدر سے زیادہ قوی لشکر ہمارے پاس ہے۔

اس مشاورت کے بعد آپﷺ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔

* اگر تم نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے تو تمہیں فتح ہو گی۔

لشکر ترتیب دیا گیا۔ نماز عصر قائم فرمانے کے بعد آپ حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے اور زرہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے۔ 

اب صحابہ کرام کو ندامت محسوس ہوئی کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی واضح رائے کے خلاف مشورہ پیش کر کے اچھا نہیں کیا تو

رسول اللہﷺ نے فرمایا!

* صحیح نہیں ہے کہ اللہ کا نبی زرہ پہن کر جہاد کے بغیر زرہ اتار دے، 

اب جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں اسے سنو اور عمل کرو!

صبر و استقامت پر قائم رہو، نصرت تمہاری ہو گی۔

لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جس میں صرف ایک سو زرہ پوش تھے مقام شیخین سے عبداللہ بن ابی کے ساتھ تین سو منافق یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ ہمارے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد سات سورہ گئی۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اطلاع ہوئی تو آپ نے مجاہدین سے فرمایا

* اللہ نے دشمنوں کو تم سے دور کر دیا ہے۔

وہ تمہیں ان سے بے نیاز رکھے گا۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب دوسری صبح وادئ احد پہنچے تو نماز فجر کا وقت تھا۔ حضرت بلالؓ نے اذان اور اقامت کہی۔ صفیں درست ہوئیں اور آپﷺ نے نماز فجر قائم فرمائی۔ احد کا پہاڑ مدینہ کے شمال میں نیم دائرہ کی شکل میں ہے۔ اس کا طول چھ یا سات میل ہے۔ احد کی نیم دائرہ کی قوس میں اسلامی لشکر نے پڑاؤ کیا۔ جبل احد کیلئے رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلامی لشکر کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ پشت پر جبل احد اور سامنے مدینہ تھا۔ جبل عینین کی ایک گھاٹی یادرہ سے پشت پر حملہ کا خطرہ تھا۔ حضورﷺ نے عبداللہ بن جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اس کی حفاظت پر مامور فرمایا اورآپﷺ نے حکم دیا کہ 

* مسلمان غالب ہوں یا مغلوب تم کسی حال میں اپنی جگہ سے نہ ہلنا۔

دوبارہ فرمایا

* اگر تم یہ دیکھو کہ ہمیں پرندے اٹھا کر لے جا رہے ہیں تب بھی اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا۔ جب تک کہ میں تمہیں بلانے کیلئے کسی کو نہ بھیجوں۔

* اگر تم دیکھو کہ ہم نے لشکر کفار کو شکست دے دی ہے اس وقت بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔

* اور اگر وہ ہم سب کو قتل کر دیں تب بھی مقررہ مقام تبدیل نہ کرنا۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت مصعبؓ کو فوج کا جھنڈا دیا۔ حضرت زبیرؓ بن عوام کو رسالہ کا امیر بنایا اور حضرت حمزہؓ کو اس فوج کی کمان دی جو زرہ پوش نہیں تھی۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شمشیر حضرت ابو دجانہؓ کو دی اور فرمایا۔

اس کا حق یہ ہے کہ اس کو دشمنوں پر اتنا چلایا جائے کہ گھس کر خم کھا جائے۔

ابو دجانہؓ نے عرض کیا۔

یا رسول اللہﷺ! میں اسے اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔

لڑائی کے آغاز میں مکہ کے لشکر سے ابو عامر راہب میدان میں آیا اور پکارا۔ میں ابو عامر ہوں۔

یہ فاسق ایک راہب تھا جو نبوت سے قبل حضّور اکرمﷺ کے ظہور کی خبریں دیا کرتا تھا لیکن اعلان رسالت کے بعد اس نے انکار کر دیا۔ ابو عامر کے ساتھ پچاس تیر اندازوں نے تیر پھینکے۔ مسلمانوں نے بھی اس پر تیر برسائے یہاں تک کہ ابو عامر میدان سے بھاگ گیا۔

اس کے بعد کفار کا علمبردار طلحہ آگے بڑھا اور طنزیہ کہا۔

کون ہے جو مجھے جہنم بھیج دے یا میں اسے جنت میں پہنچا دوں۔

حضرت علیؓ نے بڑھ کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد طلحہ کا بھائی عثمان رجز پڑھتا ہوا بڑھا تو حضرت حمزہؓ سامنے آ گئے اور عام جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت ابو دجانہؓ نے بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ دشمنوں کی لاشیں خاک نشیں ہو گئیں۔

حضرت ابو دجانہؓ نے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شمشیر کے ساتھ فخر سے اکڑتے ہوئے میدان کا رخ کیا تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگرچہ اللہ تعالیٰ اس چال سے ناراض ہوتا ہے لیکن اس موقع پر نہیں! آپؓ نے کئی کافروں کو قتل کیا آخر میں رجز گاتی ہوئی ابو سفیان کی بیوی ہندہ سامنے آ گئی لیکن آپ نے اس کے سر پر تلوار روک لی تا کہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تلوار ایک عورت کے خون سے آلود نہ ہو۔

ایک حبشی غلام نے تاک کر نیزہ پھینکا جو حضرت حمزہؓ کی ناف میں لگا اور آر پار ہو گیا۔ حضرت امیر حمزہؓ شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد وحشی غلام نے حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کر کے ان کا جگر نکالا اور ہندہ بنت عتبہ کو لا کر دیا۔ ہندہ نے خون بہتا جگر چبا کر تھوک دیا۔ 

کلیجہ چبانے پر بھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو ہندہ بنت عتبہ نے حضرت حمزہؓ کے کان، ناک اور ہاتھ پاؤں کاٹ لئے۔ آسمان اور زمین نے وحشت اور بربریت کی ایسی ہولناک تصویر کبھی نہیں دیکھی تھی۔ جب یہ واقعہ ہوا تو درندگی نے بھی شرما کر اپنا منہ پھیر لیا۔

خالد بن ولید نے جبل احد کے پیچھے سے کئی مرتبہ حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقرر کردہ تیر اندازوں نے تیروں کی بارش کر کے خالد بن ولید کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

مسلمان لشکر کفار پر غالب آ گئے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔ جب تیر اندازوں نے دیکھا کہ کفار بھاگ رہے ہیں اور مسلمان مال غنیمت جمع کر رہے ہیں تو وہ امیر کے منع کرنے کے باوجود سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی واضح اور مکمل ہدایات نظر انداز کر کے پہاڑ سے نیچے اتر آئے اور میدان سے مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا۔

خالد بن ولید دوبارہ جبل احد کے پیچھے سے حضرت عبداللہ بن جبیر پر حملہ آور ہوا اور گنتی کے چند افراد کو شہید کر کے مسلمانوں پر پشت سے حملہ کر دیا۔ لشکر اسلام تتر بتر ہو گیا۔ ایک دوسرے کی شناخت نہ رہی۔ رسول اللہﷺ کی نافرمانی کی بہت بڑی سزا ملی۔ 

دنیاوی مال و اسباب کی محبت نے مسلمانوں کو شکست کے قریب پہنچا دیا لیکن رسول اللہﷺ نے میدان نہیں چھوڑا۔ ان کے ساتھ چند صحابہ حوصلہ و ہمت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ کچھ لوگ جہاد میں مصروف رہے اور کچھ حوصلہ ہار گئے۔ اسی دوران مشرکین نے افواہ اڑا دی کہ نبی مکرمﷺ وفات پا گئے ہیں۔

رسول اللہﷺ کے پاس صرف بارہ صحابی موجود تھے کہ کعب بن مالک نے بآواز بلند کہا: ’’رسول اللہﷺ زندہ ہیں۔‘‘ جس نے بھی یہ آواز سنی وہ رسول اللہﷺ کے ارد گرد جمع ہو گیا۔ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہوتے دیکھ کر دشمن نے اپنی ساری طاقت اسی طرف لگا دی۔۔۔۔۔۔یہ بڑا ہی کٹھن وقت تھا۔۔۔۔۔۔مسلمان اپنے نبی کے گرد جمع تھے انہیں رسول اللہﷺ کو حرمت و عافیت کے ساتھ دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔اور سر پر دشمن کی بے نیام تلواریں تھیں۔ آپﷺ جانثار صحابہ کرام کے ساتھ دشمن کے گھیرے میں تھے۔۔۔۔۔۔رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کا حوصلہ بڑھایا اور دشمن سے برسر پیکار ہونے کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپﷺ پر اپنی جان نثار کر رہے تھے۔

عبداللہ بن قمیہ رسول اللہﷺ تک پہنچ گیا۔ اس کی تلوار بلند ہوئی اور رسول اللہﷺ کے خود کی دو کڑیاں چہرہ انور میں چبھ گئیں۔ ابی وقاص کے بیٹے عتبہ کے پتھر سے آپﷺ کا ہونٹ زخمی ہو گیا۔ دانت مبارک ٹوٹ گئے، جانثار رسول اللہﷺ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ ابو دجانہؓ نے جھک کر ہر تیر کو اپنی پیٹھ پر روکا۔ حضرت طلحہؓ نے تلوار کے وار اپنے ہاتھ پر روکے ان کا ہاتھ جسم سے الگ ہو گیا۔ ابو طلحہ نے سپر سے آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کو ڈھانپ لیا تا کہ آپﷺ پر کوئی وار کارگر نہ ہو۔ 

حضرت ام عمارہؓ صحابیہ پانی لے آئیں اور اس کوشش میں زخمی ہو گئیں۔خون سے لبریز حالت میں بھی آپﷺ فرما رہے تھے

* یا اللہ میری قوم کو بخش دے۔یہ مجھے جانتی اور پہچانتی نہیں۔ وہ جانتے نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔

مشرکین کے حملے میں شدت کم ہوئی تو آپﷺ چند جانثاروں کے ساتھ غار میں داخل ہوئے۔ رسول اللہﷺ کی شہادت کی افواہیں جیسے ہی مدینہ پہنچیں۔ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ بھی آ گئیں۔ حضرت علیؓ خود میں پانی لائے۔ حضرت فاطمہؓ نے خون دھویا۔ خون رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ چٹائی جلا کر اس کی راکھ زخموں پر رکھی اور پٹی باندھ دی گئی۔غزوہء  احد میں مسلمانوں نے اللہ کی بجائے کثرت تعداد اور اسباب کے بھروسہ میں رسول اللہﷺ کی واضح رائے کے برعکس مشورہ کیا اور مال غنیمت کی محبت میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واضح فرمان کی حکم عدولی کر کے فتح کو شکست میں بدل دیا۔یہ لمحہ فکر و عمل ہے۔


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔