Topics
غزوہ بدر اور غزوہ احد کے بعد کفار کی اسلام دشمنی میں مزید شدت پیدا ہوتی چلی گئی بلکہ غزوہ احد میں مسلمانوں کے شدید نقصان پر ان کی آتشِ انتقام اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے یکسر مٹانے پر تل گئے تھے۔
اس پس منظر میں کفار مکہ نے عرب کے مختلف قبائل سے اتحاد کیا اور دوسری جانب مدینہ سے جلا وطن یہودیوں نے مکہ مکرمہ میں غلاف کعبہ پکڑ کر مکہ کے سردار ابو سفیان سے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عداوت میں عہد و پیمان کیا۔ اس طرح قریش مکہ، عرب قبائل اور یہود پر مشتمل دس ہزار افراد کا ایک ٹڈی دل لشکر سلطنت اسلام کو ختم کرنے کے ناپاک ارادہ سے جمع ہوا۔ ابو سفیان اس لشکر کا سردار تھا جس میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ شامل تھے۔
سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب دشمنان اسلام کی روانگی اور حملہ کی اطلاعات ملیں تو آپﷺ نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ اس موقع پر حضرتسلمان فارسیؓ نے ایران میں رائج طریقہء جنگ پر خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور میدان جنگ کی مناسبت سے خندق کا نقشہ ترتیب دیا۔
مدینہ منورہ تین اطراف میں دشوار گزار پہاڑیوں، عمارات اور باغات سے گھرا ہوا تھا اور صرف شمالی جانب سے کھلا تھا۔ چنانچہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس رخ پر مشرق سے مغرب تک نیم دائرہ کی شکل میں خندق کے لئے نشان لگایا۔ یہ خندق پندرہ فٹ گہری اور پندرہ فٹ چوڑی اور تقریباً ساڑھے تین میل لمبی تھی۔
ان دنوں شدید سردی کا موسم تھا۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھوک اور فاقے کی حالت میں صحابہ کرام کے ساتھ بنفس نفیس اس کھدائی میں حصہ لیا۔ صحابہ کرام خندق سے مٹی کندھوں پر رکھ کر باہر نکالتے۔ سنگلاخ زمین اور سردی کے موسم میں بھوک اور محنت و مشقت کے اس مظاہرہ پر سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رجزیہ اشعار پڑھ کر صحابہ کرام کو حوصلہ دیا اور ان کے جذبہ کی ستائش فرمائی۔
خندق کی کھدائی میں ایک بہت بڑی اور مضبوط چٹان نکل آئی جو کسی حالت میں نہ ٹوٹتی تھی۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام حضّور اکرمﷺ کے پاس پہنچے اور صورتحال بیان فرمائی تو رسول اللہﷺ نے اس چٹان پر بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ریت کی مانند ریزہ ریزہ ہو گئی۔
آپﷺ نے فرمایا
* ’’اللہ اکبر! مجھے شام کی کنجیاں عطا فرمائی گئیں
خدا کی قسم! میں نے بلاشبہ شام کے سرخ محلات کو اس ضرب میں دیکھا۔‘‘
اس کے بعد دوسری ضرب لگائی تو چٹان کا مزید ایک تہائی حصہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
آپﷺ نے فرمایا!
* ’’اللہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں عطا فرمائی گئیں۔
خدا کی قسم! میں نے اس گھڑی مدائن کے سفید کنگرے دیکھے ہیں۔‘‘
اس کے بعد تیسری ضرب لگائی تو بقیہ تہائی چٹان بھی ریزہ ریزہ ہو گئی۔
آپﷺ نے فرمایا
* ’’اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں مرحمت فرمائی گئیں۔
خدا کی قسم! میں جہاں اس وقت کھڑا ہوں یہاں سے صنعا کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
خندق کی کھدائی 20روز میں مکمل ہوئی۔ آپﷺ کے لئے سرخ رنگ کا خیمہ لگایا گیا۔ پہاڑی اطراف میں حفاظتی چوکیاں بنائی گئیں۔ عورتوں اور بچوں کو محفوظ حویلیوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اسلامی لشکر تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا اور ان کے ساتھ صرف 36گھوڑے تھے۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجاہدین کو دستوں میں تقسیم فرما کر، خندق کے ساتھ ساتھ فاصلے پر متعین فرمایا۔ خندق کے اندرونی کنارے پر پتھر جمع کر لئے گئے تا کہ بوقت ضرورت دشمنوں پر مارے جا سکیں۔
ابو سفیان کی قیادت میں کفار مکہ کا لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو عرب کے دیگر وحشی اور درندہ صفت قبائل اور حلیف یہودی بھی اس جم غفیر میں شامل ہو چکے تھے۔ انہوں نے جب مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے باہر مقابلہ کے لئے نہ پایا تو غیض و غضب میں بپھر گئے اور جب ٹڈی دل لشکر نے اپنے اور مسلمانوں کے درمیان حائل وسیع و عریض خندق اور حفاظتی انتظامات دیکھے تو شش و پنج اور حزن و ملال میں گرفتار ہو گئے اور ان کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
دو ہفتہ تک مشرکین جوش جذبہ کے ساتھ خندق عبور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اکثر نڈر اور جانباز گھوڑ سوار خندق ٹاپنے کی جسارت میں خندق میں گر کر ہلاک ہو گئے اور اگر کوئی خندق عبور کر گیا تو مجاہدین نے اس کا کام تمام کر دیا۔ مسلمان تیر اندازوں نے انہیں خندق سے دور رکھا۔ کفار مکہ کے مشہور جرنیلوں نے اپنی اپنی مقررہ باری پر حتی المقدور کوشش کے باوجود خندق عبور کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔ اس طرح سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حکمت اور بصیرت نے مخالفین کی قوت اور جوش و جذبہ کو خاک میں ملا دیا۔
ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی وہاں سے مشہور اور بہادر عرب پہلوان عمرو چند نوجوانوں کے ساتھ خندق عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کو مقابلے کیلئے للکارا۔ عمر تنہا ایک ہزار سوار کے برابر بہادر اور شجاع سمجھا جاتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا نے ایک وار میں اس کے دو ٹکڑے کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا تو عمرو کے ساتھی بھی فرار ہو گئے۔ اس روز تمام دن یہ سلسلہ جاری رہا اور مسلمان ہر جانب سے مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس دوران نماز ظہر، عصر اور مغرب بھی قضا ہوئیں جنہیں بعد میں ادا کیا گیا۔
مدینہ منورہ کے اندرونی دفاع میں یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی غداری سے خطرہ ہوا تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو تین سو افراد کے ہمراہ مدینہ کے مکانات اور گھروں کے دفاع کیلئے روانہ فرمایا جہاں خواتین اور بچے قیام پذیر تھے۔اگرچہ محاصرے کی طوالت سے مسلمان بھی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے لیکن کفار ہمت و حوصلہ ہارتے چلے جا رہے تھے۔ اسی دوران کفار میں موجود ایک نومسلم نے خاموشی سے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کفار میں پھوٹ ڈالنے کی اجازت طلب کی۔ یہ مجاہد نعیمؓ بن مسعود تھے جن کے ایمان سے ابھی تک کفار آگاہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے یہود کے باغی قبیلے بنو قریظہ اور قریش مکہ کے لشکر میں موجود بنو غطفان میں ایسی پھوٹ ڈالی کہ وہ ایک دوسرے کے متنفر اور بیزار ہو گئے۔
کفار کا لشکر حوصلہ ہار رہا تھا۔ ان کی رسد ختم ہو رہی تھی کہ قریش مکہ کو حج کے انتظامات کی فکر لاحق ہو گئی۔ موسم کی شدت میں اضافہ سے سردی بڑھ گئی۔ سپاہی بیمار و ہلاک ہو رہے تھے اور غذا و چارہ کی قلت بڑھ رہی تھی اب یہ سب بہانے سوچنے لگے کہ کس طرح واپس ہوا جائے۔
آخری دن سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہر و عصر کے دوران مسلسل دعا میں مصروف رہے۔
* یا اللہ! تو قرآن کا نازل فرمانے والا ہے
اور جلد حساب کرنے والا ہے۔ ان قبیلوں کو شکست دے
اے اللہ! ان کو شکست دے اور ان کو لڑکھڑا دے
اور ان پر ہماری مدد فرما۔
رات کو اس قدر تیز آندھی آئی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے۔ ان کے خیمے گر پڑے۔ دیگیں اور بڑے برتن الٹ گئے۔ بارش، طوفان اور بادلوں کی گرج میں کفار کی مایوس فوج خوف و ہراس کا شکار ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آندھی، بارش اور فرشتوں کی جماعت سے مجاہدین کی مدد فرمائی۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے!
* اے ایمان والو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہوئی
جب تمہارے پاس لشکر آیا تو اللہ نے ان پر آندھی بھیجی
اور ایسا لشکر بھیجا جو تمہیں نظر نہیں آتا تھا اور
اللہ دیکھ رہا تھا جو تم کر رہے تھے اور
جنگ میں مسلمانوں کو اللہ کافی ہے اور اللہ قوی اور غالب ہے۔
حضرت حذیفہؓ جب رسول اللہﷺ کے حکم سے کفار کے لشکر میں حالات معلوم کرنے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے، دیگیں الٹ دیں، آگ کے بگولے اٹھ رہے تھے، گھوڑے بدمست دوڑ رہے تھے اور سنگریزوں کی آوازیں آ رہی تھیں جو ان پر پڑ رہے تھے۔ صحابی رسولﷺ فرماتے ہیں کہ جب میں واپس آ رہا تھا تو راستہ میں سفید عمامہ باندھے بیس سوار ملے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تم اپنے آقا کو خبر دے دو کہ حق تعالیٰ نے کفار کے لشکر سے آپﷺ کو نجات دی۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے بھی نماز مکمل کر کے تبسم فرمایا اور مجھے بشارت دی۔
جب آندھی، آگ اور بارش کا یہ طوفان بجلی کی چمک اور کڑک میں عروج پر پہنچا اور لشکر تباہ و برباد ہوتا نظر آیا تو ابو سفیان نے عجلت میں جلسہ کیا، حالات بیان کر کے خود ہی جلدی میں فیصلہ سنایا کہ میں تو گھر جا رہا ہوں تم بھی سفرکرواور سیدھا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور بدحواسی میں اسے مارنا شروع کر دیا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ حالانکہ اس کے پیر بندھے ہوئے تھے اور اٹھ نہ سکتا تھا۔ ایک دوسرے آدمی نے اونٹ کے پیر کھولے تو وہ اٹھنے کے قابل ہوا۔ اس طرح قریش اور حلیف قبائل ناکام واپس لوٹ گئے۔ جب صبح صادق نے رات کا پردہ چاک کیا تو مجاہدین نے دیکھا کہ مدینہ سے دشمنوں کا ناپاک وجود صاف ہو چکا ہے۔
مسلمان مدینہ منورہ لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس موقعہ پر فرمایا!
’’اب قریش کی لڑائیاں ختم ہو گئیں آئندہ ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔‘‘
کفار کے لوٹ جانے کے بعد حضرت جبرائیلؑ ، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غزوہ خندق کے دوران مدینہ منورہ میں موجود یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی وعدہ خلافی اور بغاوت کی بنا پر اللہ کا حکم سنایا اور کہا!
* آپﷺ نے تو ہتھیار اتار دیئے مگر ہم نے ابھی تک نہیں اتارے چلیئے اللہ تعالیٰ آپﷺ کو حکم فرماتا ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلیں۔
اس کے بعد حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ مدینہ میں اعلان کر دیں اور کہہ دیں کہ اے خدا کے شہسوارو!
سوار ہو جاؤ اور ان کو بتا دو کہ جو خدا کے حکم کا فرمانبردار اور جاننے والا ہے۔ اسے چاہئے کہ نماز عصر بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نہ پڑھے۔
آپﷺ نے حضرت علیؓ کو جھنڈا دیا۔ آپؓ کے دائیں طرف حضرت ابو بکر صدیقؓ اور بائیں طرف حضرت عمر فاروقؓ تھے۔
انصار و مہاجرین پر مشتمل یہ لشکر شام تک بنی قریظہ پہنچا اور روایت ہے کہ پندرہ یا پیچس روز محاصرہ رہا۔ بالآخر بنو قریظہ نے مجبوراً ہتھیار ڈال دیئے اور حضرت سعد بن معاذؓ نے طرفین سے عہد و پیمان کے بعد یہود کی اپنی کتاب توریت کی رو سےیہ فیصلہ سنایا۔
⦁ بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل کر دیئے جائیں
⦁ زن و بچے گرفتار کرلئے جائیں
⦁ تمام مال ضبط کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے
سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سعدؓ سے فرمایا کہ تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ توریت کے عین مطابق تھا اس لئے یہودیوں کو قبول کرنا پڑا چند یہودیوں نے ایمان قبول کیا اور انہیں امان دی گئی اگرچہ سردار قریظہ کعب بن اسد نے اپنی قوم سے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ:
’’اے گروہ یہود! محمدﷺ پر ایمان لاؤ کیونکہ یہ خدا کے وہی رسول ہیں جن کے اوصاف توریت میں بتائے گئے ہیں اور تم بھی جانتے ہو کہ یہ وہی نبی آخر زمان ہیں۔ ہم نے ان کی تکذیب اور ان کا انکار حسد و عناد کی بناء پر کیا ہے (کہ یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں) اگر تم ایمان لے آؤ تو تمہارے اموال اور جان سب پر سلامتی رہے گی۔‘‘
آج اس موقع پر جب بنو قریظہ کے افراد مارے جا رہے تھے تو رسولﷺ نے کعب سے فرمایا:
’’اے کعب! ایمان لے آ۔ تُوتو خوب جانتا ہے کہ میں رسول برحق ہوں۔‘‘
کعب نے کہا! میں آپ کی تصدیق تو کرتا اور آپ کی اطاعت کرتا لیکن اس شرم سے کہ لوگ کہیں گے کہ جان کے خوف سے عاجز ہو کر ایمان لے آیا۔ میں دین یہود پر مرتا ہوں۔
اس پر اسے بھی قتل کر دیا گیا۔اس طرح غزوہء احزاب کے بعد مسلمانوں نے نہ صرف قریش مکہ اور عرب قبائل کے خطرے سے نجات حاصل کی بلکہ مدینہ کی حدود میں واقع آخری یہود قبیلہ بنو قریظہ کو بھی ختم کردیا۔
*
تمام خواتین و حضرات جن پر رسولﷺ کی روحانی تعلیمات عام کرنے کی ذمہ داری ہے اور وہ خواتین و حضرات جنہیں حضّور پاکﷺ سے محبت کا دعویٰ ہے اور تمام مسلمان خواتین اور مسلمان مرد جو حضّور پاکﷺ کے امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں سب بلاشبہ خوش بخت اور سعید ہیں لیکن اس خوش بختی، سعادت اور دنیا و آخرت کی خوشیاں حاصل کرنے کے لئے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات اور اخلاق حسنہ پر عمل کر کے پہلے خود اپنی اصلاح کریں پھر اپنے بہن بھائیوں میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پھیلائیں یہاں تک کہ ہم کامیاب ہو جائیں۔
دنیائے اسلام میں جس محبت، ایثار اور عشق کے ساتھ رسول اللہﷺ کے مسعود و مبارک میلاد کو منایا جاتا ہے بلاشبہ وہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم دنیاوی اور سائنسی علوم سیکھنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کے براہ راست عطا کردہ علوم بھی سیکھیں۔
* یہ وہ علوم ہیں جو حضّور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو غار حرا میں مراقبہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کئے گئے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ مادی وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جس فرد پر موت وارد ہو جاتی ہے وہ مادی وجود اور جسمانی نظام کے موجود ہوتے ہوئے بھی کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حضّور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اس حقیقت کا ادراک اور مشاہدہ کر لیں کہ انسانی زندگی کا دارومدار جسمانی نظام پر نہیں بلکہ جسمانی نظام کو متحرک رکھنے والی روح پر ہے۔ اس بات کو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح فرمایا ہے۔
جس نے اپنی روح کو پہچان لیا
اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
اور جس نے اپنے رب کو پہچان لیا
اس نے غیب کی دنیا کا ادراک کر لیا
خواجہ شمس الدین عظیمی
کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔