Topics

نور و بشرﷺ

قرآن پاک میں ارشاد ہے

اللّٰہ نور السمٰوات والارض

* اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور  ہے۔۔۔۔۔۔آسمان اور زمین نُور  پر قائم ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق آسمانوں اور زمین کے اندر جو کچھ ہے وہ نُور  ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات نُور  ہے اور جس بیلٹ پر کائنات سفر کر رہی ہے وہ بھی نُور  ہے۔

ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ خالصتاً نُور  پر قائم ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے یہ نُور  دکھا بھی دیتا ہے۔ ہر بندہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرتا ہے اس نُور  کو دیکھ لیتا ہے۔ جس نُور  پر کائنات سفر کر رہی ہے اس نُور  کا مشاہدہ کرنے کے لئے قیام صلوٰۃ اور مراقبہ بہترین عمل ہے۔

حضرت سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

اوّل ما خلق اللّٰہ نوری

* اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نُور  تخلیق کیا۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کائنات کی تخلیق کے پہلے فرد ہیں یعنی کائنات کا نُور   ہیں۔ اسی نُور   سے ساری تخلیقات تخلیق ہوئیں۔ 

زمین پر ایک طرف حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام بشر ہیں اور دوسری طرف باطن میں نُور   ہیں۔ لوگ اس بات پر الجھتے رہتے ہیں کہ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم غیب ہے یا نہیں۔

ایک گروہ حضورﷺ کی حیات مبارکہ کو مدینہ منورہ تک محدود کرتا ہے دوسرا گروہ حیات نبیﷺ کا سارے عالمین میں قائل ہے۔ اس عاجز فقیر نے اس مسئلے پر بہت سوچ و بچار کی۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ اللہ کے ارشاد کے مطابق شہید کے اوپر موت وارد نہیں ہوتی جبکہ شہادت کا واقع ہونا اس بات کے تابع ہے کہ شہید نبی مکرمﷺ پر ایمان رکھتا ہو اور نبی مکرم کی تعلیمات کو پھیلانے میں شہید ہوا ہو۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دیگر مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ شہداء اپنی قبروں سے شہروں میں آتے ہیں۔ بال بنواتے ہیں، ناخن ترشواتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جب شہداء زندہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے شہید ہیں تو حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کے بارے میں شک کی کہاں گنجائش باقی ہے حضّور پاکﷺ کے تمام امتی روضہ ءمقدس و مطہر پر جا کر الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں اس بارے میں عرض کرتا ہوں کہ اگر ایک آدمی پاکستان میں زندہ ہے تو وہ امریکہ میں کیوں زندہ نہیں ہے جو فرد زندہ ہے وہ ہر جگہ زندہ ہے۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ پر اسلام کے تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔۔۔۔۔۔

صحابہ کرام، امت کے علماء، صلحاء اور اولیاء اللہ نے رسول اللہﷺ کی زیارت کی ہے۔ نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پردہ فرمانے کے بعد امت کی دستگیری کے واقعات عوام و خواص اور اولیاء اللہ سے تواتر کے ساتھ کتابوں میں موجود ہیں۔ 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ منبر پر وعظ فرما رہے تھے۔ عین دوران وعظم منبر سے اتر آئے اور با ادب سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ ایک شخص نے وجہ دریافت کی تو آپؒ نے فرمایا حضّور سید کون و مکانﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ 

آپﷺ منبر پر تشریف لائے اور جلوہ افروز ہو گئے۔ میری کیا مجال تھی کہ حضرت ساقی کوثرﷺ کے برابر بیٹھتا یا آپﷺ کی جانب پشت کرتا، میں اتر آیا اور خاموش ہو گیا۔

جب حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءؒ نے اپنے مرشد گرامی حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا مزار مبارک تعمیر کرانا شروع کیا تو جہاں بہشتی دروازہ ہے وہاں آپؒ کو حضرت رسول اللہﷺ کی زیارت حالت بیداری میں ہوئی۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ کے والد محترم نے آپؒ کی پیدائش کے وقت رحمت مجسم حضرت رسول اللہﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا دیدار کیا کہ آپﷺ نے تشریف لا کر بچہ کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ جب میں مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوا تو میں نے روح مبارکﷺ کو ظاہراً و عیاناً دیکھا، نہ صرف عالم ارواح میں بلکہ عالم مثال میں زیارت کی۔

حضرت شیخ فرید الدینؒ ہر شب جمعہ حضرت رسول اللہﷺ کی نیاز پکا کر درویشوں کو کھلاتے تھے۔ ایک دن منتظم نے نادانستگی میں کمہاروں کے گھر سے بغیر اجازت برتن لا کر طعام کے لئے استعمال کئے۔ جب رات گزر گئی تو شیخ فرید الدینؒ حجرہ سے باہر آئے۔ 

منتظم نے وجہ دریافت کی تو فرمایا، ’’آج رات میں نے حضّور سرور عالم،نُور  مجسم، نبی مکرمﷺ کو خلاف معمول حجرے سے باہر قیام فرما دیکھا میں نے بڑھ کر با ادب سلام کے بعد عرض کیا کہ میری بدقسمتی ہے کہ آج آپﷺ نے میرے حجرہ تاریک کو منور نہیں فرمایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے فرزند فرید تمہارے گھر میں مشتبہ برتن پڑا ہے جو میرے اندر آنے میں رکاوٹ ہے۔ شیخ فریدؒ نے فوراً وہ برتن باہر نکلوا دیا اور دوسری شب جمعہ سے دگنا کھانا پکا کر سرکار دو عالمﷺ کی روح پر فتوح پر ایثار کیا۔

مخدو جہانیاں جہاں گشتؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز مدینہ منورہ میں بحضور روضہﷺ بعد نماز تہجد مراقبہ میں تھا کہ ایک صاحب عظمت بزرگ کو دیکھا جو حضورﷺ کے حجرہ شریف کے دروازہ پر آئے۔ ان کے لئے دروازہ کھل گیا۔ وہ اندر داخل ہوئے اور پھر دروازہ بند ہو گیا۔ دوسری اور تیسری شب بھی ویسا ہی ہوا۔ میں نے چاہا کہ میں بھی انہی کے پیچھے پیچھے داخل ہو جاؤں مگر دروازہ بند ہو گیا اور میں کامیاب نہ ہو سکا۔ حاضرین سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا خاموش رہو اندر رسول اللہﷺ جلوہ افروز ہیں اور تم باتیں کرتے ہو۔ صبح اپنے مرشد کریم شیخ عبداللہ یافعیؒ سے یہ حال بیان کیا کہ کبھی کبھی حضرت سرور عالمﷺ کا دیدار ہوتا ہے مگر ہمکلامی کی سرفرازی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر آپ کی توجہ سے یہ نعمت حاصل ہو جائے تو اپنے آپ کو بہت خوش بخت سمجھوں گا۔ شیخ نے فرمایا کہ میں تمہیں اپنے پیرومرشد کے پاس لے جاؤں گا۔ اس کے بعد آپ مدینہ شریف سے باہر تشریف لے آئے، میں بھی ساتھ تھا۔ جب ایک جنگل میں پہنچے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب نہایت شان و شوکت سے ایک تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ دربار پُرنور ہستیوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہاں رقعہ جات اور عرضیاں لکھی جا رہی ہیں۔ جب میں نزدیک گیا اور دیکھا تو یہ وہی بزرگ تھے جو نیم شب روضہ اطہر میں داخل ہوتے نظر آئے تھے۔ شیخ عبداللہ یافعیؒ نے آپ کے نزدیک جا کر عرض کیا کہ یا غوث الاعظم! یہ سید زادہ نہایت شائستہ اور آرزو مند ہے کہ حضّور انورﷺ کی مجلس میں داخل ہو کر دولت ابدی سے سرخرو ہو۔ پس ایک پروانہ اس کو بھی عنایت فرما دیجئے آپ نے میری جانب التفات سے دیکھا اور فرمایا کہ اس کے لئے چٹھی کی ضرورت نہیں اس کو میں اپنے ہمراہ لے جاؤں گا۔ جب دربار برخاست ہوا، آپؒ اٹھے اور مجھے اپنے ہمراہ لے کر چلے اور مجلس عالیہ میں داخل کیا۔ دولت کاملہ و سعادت مشاہدہ حضّور نبی کریمﷺ مجھے حاصل ہوئی۔

رمضان المبارک میں حضرت سید احمد شہیدؒ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ لیلۃ القدر کب آئے گی؟ شاہ صاحبؒ نے فرمایا ’’فرزند عزیز! شب بیداری کا معمول جاری رکھو۔ یہ بھی واضح رہے کہ محض جاگتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ پاسبان ساری رات آنکھوں میں گزار دیتے ہیں مگر انہیں فیض آسمانی کب نصیب ہوتا ہے۔ 

خدائے برتر کا فضل شامل حال ہونا چاہئے۔ نصیب یاوری کرے تو انسان کو سوتے سے جگا کر دامن طلب برکات کے موتیوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ سید صاحبؒ قیام گاہ پر چلے گئے اور شب بیداری کا معمول جاری رکھا۔ 27رمضان المبارک کو عشاء کے بعد بے اختیار نیند آ گئی۔ رات کا ایک حصہ باقی تھا کہ اچانک کسی نے جگا دیا۔ اٹھے تو دیکھا دائیں بائیں حضرت رسول اللہﷺ اور حضرت صدیق اکبرؓ تشریف فرما ہیں اور زبان مبارک پر کلمات جاری ہیں ’’احمد اٹھو اور غسل کرو آج شب قدر ہے۔ خدا تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہو اور قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعا و مناجات کرو۔‘‘ اس کے بعد یہ دونوں بزرگ تشریف لے گئے۔ سید صاحبؒ دوڑ کر حوض کی طرف گئے اور باوجود یہ کہ سردی سے حوض کا پانی برف ہو رہا تھا اس سے غسل کیا اور کپڑے بدل کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ سید صاحبؒ فرماتے ہیں اس رات مجھ پر فضل الٰہی کی بارش ہوئی اور حیرت انگیز واردات و کیفیات مجھ پر وارد ہوئیں۔ میری بصیرت اس طرح روشن ہو گئی کہ میں نے دیکھا تمام درخت، پتھر اور دنیا کی ہر چیز سجدہ میں ہے اور تسبیح و تہلیل میں مشغول ہے مگر ظاہری آنکھوں سے اپنی اپنی جگہ کھڑی معلوم ہوتی تھیں صبح اذان تک یہی کیفیت رہی۔

عاشق رسولﷺ حضرت مولانا احمد رضا خانؒ نے جب مدینہ طیبہ میں حاضری دی تو دیدار شوق میں درود شریف پڑھتے رہے یقین تھا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام ضرورعزت افزائی فرمائیں گے لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا تو آپؒ نے ایک نعت کہی۔ نعت عرض کرنے کے بعد انتظار میں مودب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور آقا و مولیٰﷺ کی بیداری میں زیارت نصیب ہوئی۔

عارف کامل حضرت مخدوم اسماعیل سومرو سندھ کے عارفین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سے ہزار ہا افراد نے فیض پایا۔ ان کی حضّور پرنُور  سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح پاک سے حظیرۃ القدس میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے ایک رات خواب میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اشارہ پر اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح مٹیاری کے ایک نوجوان سید سے کر دیا۔ جن کی اولاد آج تک مٹیاری میں موجود ہے۔ آپ کی دوسری بیٹی ایک عارفہ، کاملہ، ولیہ اور معارفت الٰہی کے مقامات سے آگاہ تھیں۔ آپ ہی سے فیض یافتہ اور آپ کی خلیفہ تھیں۔ اس خاتون کو بھی سیدوں کی ایک بچی کا ادب کرنے پر مخدوم صاحؓب کو حضّور اکرمﷺ کی طرف سے روحانیت کی بشارت ملی اور اس کے بعد ہی اس خاتون کو یہ کمالات حاصل ہوئے۔ حضرت مخدوم اسماعیل سومرو شب و روز خدمت خلق کرتے تھے۔

درخان، بلوچستان کے بزرگ حضرت مولانا محمد عبداللہ در خانی نقشبندی مجددیؒ کی والدہ محترمہ نے آپ کی پیدائش سے پیشتر ایک خواب دیکھا کہ ’’ میں ایک ایسے مکان میں ہوں جونُور  سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ وہاں ایک خاتون تشریف لائیں۔ وہ صورت و لباس سے بہت حسین و جمیل تھیں۔ ہر طرف دلآویز خوشبو بکھر گئی۔ انہوں نے عربی زبان میں ارشاد فرمایا کہ ’میں فاطمہ ہوں اور وہ میرے والد بزرگوارصلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ جنہوں نے مجھے بھیجا ہے‘جب میں نے دیکھا تو تھوڑی دور حضرت خواجہ عالم صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم تشریف فرما تھے۔ بہت ہی حسین اور بے نظیر لباس پہنے ہوئے تھے۔ پھر حضرت بی بی فاطمہؓ نے چراغ میں بتی اور تیل ڈال کر اسے جلایا اور مجھے دے کر فرمایا تیرا یہ چراغ نہیں بجھے گا۔‘‘

پیر صاحب گولڑہ شریف حضرت مہر علی شاہ قدس سرہؒ ایک مرتبہ حج بیت اللہ تشریف لے گئے۔ اس زمانہ میں سواری کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ جب وادئ حمرا پہنچے تو تمام حاجی تھک کر چُور تھے۔ جاتے ہی لیٹ گئے۔ کسی نے نماز پڑھی کسی نے نہیں پڑھی۔ پیر صاحبؒ نے عشاء کی نماز کے صرف فرض پڑھے اور سونے کا ارادہ کیا۔ دیکھا کہ حبیب خالق اکبر، ساقئ کوثر صلی اللہ علیہ و سلم پاس سے گزر رہے ہیں۔ جب بالکل قریب پہنچے تو میری طرف سے پردہ کر لیا۔ میں دوڑ کر آگے بڑھا اور عرض کیا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے کیا غلطی ہوئی جو التفات نہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب آپ ہماری سنتیں چھوڑیں گے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا۔ یہ سن کر پیر صاحبؒ پر گریہ طاری ہو گیا۔ دوبارہ عشاء کی پوری نماز پڑھی اور مشہور نعت کہی جس کے چند اشعار درج ہیں۔

اَج سِک متراندی ودھیری اے

کیوں دلری اداس گھنیری اے

آج محبوب کی محبت کی کسک زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔ معلوم نہیں آج یہ ننھا سا دل کیوں اتنا اداس ہے۔

لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

اج نیناں لایاں کیوں جھڑیاں

میرے روئیں روئیں میں شوق محبت موجزن ہے۔ آج آنکھوں نے کیوں برسات کی جھڑیاں لگا دی ہیں۔

حضرت سید علی ہجویری (حضرت داتا گنج بخشؒ ) کو امام اعظم حضرت ابو حنیفہؒ سے خاص عقیدت تھی اور تعمیل دستور شریعت میں ان کے اتباع کو مستند سمجھتے تھے۔ اس عقیدت کے ضمن میں اپنی مشہور تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں ملک شام میں تھا۔ ایک مرتبہ موذنِ اوّل حضرت بلالؓ کے مزار مبارک کے سرہانے سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں اور حضرت رسول اللہﷺ باب بنی شیبہ سے اندر داخل ہو رہے ہیں اور جس طرح کوئی کسی بچہ کو گود میں لئے ہوئے ہو اس طرح ایک عمر رسیدہ شخص کو گود میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں دوڑ کر آپﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچا اور پائے مبارک کو بوسہ دیا اور دل میں سوچنے لگا کہ یہ عمر رسیدہ شخص کون ہو سکتا ہے۔ اتنے میں میرا خطرہ قلب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر منکشف ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص تیری قوم کا امام ہے یعنی ابو حنیفہؒ ۔ اس خواب سے مجھے اپنے اور اپنی قوم کے حق ہونے پر روح پرور امیدیں بندھ گئیں اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ حضرت امام اعظمؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی صفات ذاتی سے فانی ہو چکے ہیں اور احکام شرح کے لئے باقی ہیں اس لئے کہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و شرع کے حامل تھے۔ اگر میں انہیں بذات خود چلتے ہوئے دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ وہ باقی الصفت ہیں اور باقی الصفت کے لئے خطا اور ثواب دونوں کا امکان ہے لیکن چونکہ انہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں دیکھا لہٰذا معلوم ہوا کہ ان کا وجود ذاتی فنا ہو چکا ہے اور اب ان کا جو وجود قائم ہے وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود سے قائم ہے اور چونکہ آپﷺ کی ذات گرامی کے لئے کسی طرح کی خطا کا امکان نہیں ہے اس لئے جس شخص کا وجود آپﷺ کی ذات اقدس میں فنا ہو چکا ہو وہ بھی امکان خطا سے پاک ہے۔

حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ جب اپنے باکمال مرشد شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کی خدمت میں بازیاب ہوئے تو یہ انتظار رہا کہ حضرت شیخ الشیوخؒ خرقہ پہنائیں گے۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار و تجلیات سے جگمگا رہا ہے۔ درمیان میں ایک مرصع تخت پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جلوہ افروز ہیں۔ دائیں جانب حضرت شیخ الشیوخؒ دست بستہ کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے لٹکے ہوئے ہیں۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے طلب فرمایا اور حضرت شیخ الشیوخؒ نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر آپﷺ کے قدموں میں ڈال دیا کہ میں قدم بوسی حاصل کروں۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لٹکے ہوئے خرقوں میں سے ایک خرقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خرقہ بہاء الدین کو پہناؤ۔ حضرت شیخ الشیوخؒ نے ارشاد کی تکمیل کی۔ پھر علی الصبح مجھے طلب کیا۔ جب میں حاضر خدمت ہوا تو دیکھا کہ وہی مکان ہے اور اسی طرح خرقےلٹکے ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ الشیوخؒ نے وہی خرقہ جس کی جانب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اتار کر مجھے پہنا دیا اور فرمایا ’’اے بہاء الدین یہ خرقہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بخشش ہے اور میں درمیان میں صرف ایک واسطہ کی حیثیت رکھتا ہوں۔ کسی کو بغیر اجازت نہیں دے سکتا۔ پھر حکم دیا کہ اب تم ملتان جا کر ہدایت خلق میں مصروف ہو جاؤ۔‘‘

ایک نوجوان زمیندار 12برس سے درود شریف پڑھ رہے تھے مگر حضّور اقدسﷺ کی زیارت نہ ہوئی تھی۔ حالانکہ دل میں آپﷺ کے لئے بے پناہ محبت تھی بہت جتن کئے مگر گوہر مراد ہاتھ نہ آیا کہ حضّور اقدسﷺ مجھ سے ناراض ہیں لہٰذا ایسی زندگی سے کیا حاصل اور خود کشی کے لئے ایک درخت پر چڑھ گئے رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور دوسرا درخت کی ٹہنی سے باندھ کر کود پڑے۔ درخت سے لٹکے ابھی تڑپ ہی رہے تھے کہ محبوب رب العالمینﷺ تشریف لائے اور انہیں کمر سے پکڑ لیا۔ رسی ٹوٹ گئی اور خواب میں دیدار کے خوش بخت تمنائی کو حالت بیداری میں ظاہری آنکھوں سے شرف زیارت حاصل ہو گیا مگر تاب دیدار نہ لاتے ہوئے گر کر بے ہوش ہو گئے۔

*****

شہید نبی کے تابع ہوتا ہے نبی شہید کے تابع نہیں ہوتے۔ جب شہدا زندہ ہیں تو قرآن پاک کے بیان کردہ اس قانون کے مطابق انبیاء بھی زندہ ہیں اور حضّور پاکﷺ جو تمام انبیاء کے سردار اور امام ہیں وہ بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح اپنی حیات مبارکہ میں اس دنیا میں موجود تھے اور اب بھی اسی طرح موجود ہیں۔ درود شریف کے فضائل میں ہے کہ جب کوئی بندہ حضّور پاکﷺ پر درود بھیجتا ہے تو سارے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ بندہ براہ راست سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک کے سامنے آ جاتا ہے۔

حضور پاکﷺنُور  تھے یا بشر اور آپﷺ کو غیب کا علم تھا یا نہیں؟ اس سلسلے میں حضّور پاکﷺ کی امت میں دو گروہ کام کر رہے ہیں ایک گروہ حضّور پاکﷺ کے بارے میں دماغی سوچ و بچار سے کام لیتا ہے۔ یہ لوگ جب دماغ کو استعمال کرتے ہیں تو اس قسم کے سوالات ان کے دماغ میں ابھرتے ہیں کہ حضورنُور  تھے یا بشر اور آپﷺ کو غیب کا علم تھا یا نہیں اور ایسی گستاخی بھی سامنے آتی ہے جب کچھ لوگ آپﷺ کو بڑے بھائی کا درجے دے دیتے ہیں جس سے اسلام کی عمارت ہی ڈھیر ہو جاتی ہے۔ کیونکہ بڑے بھائی سے اختلاف اور لڑائی بھی ہو سکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضّور پاکﷺ سے اونچی آواز میں بات کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور آپﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔

ارشاد مبارکہ ہے کہ:

* جو میرے محبوب سے محبت کرتا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

دوسرا طبقہ حضّور پاکﷺ سے دلی و قلبی تعلق رکھتا ہے۔ قلب اس لئے صحیح فیصلہ کرتا ہے کہ وہ دماغ کے مقابلے میں عقل کی بجائےنُور  کا وجدان رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مومن کے دل میں رہتا ہوں یہ نہیں فرمایا کہ میں مومن کے دماغ میں رہتا ہوں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ رسول پاکﷺ بشر بھی ہیں اور بحیثیت خاتم  النبیین ، رحمت اللعالمین اور اللہ کے محبوب!۔۔۔۔۔۔نور ہیں۔ اب اگر حضّور پاکﷺ بشر نہ ہوتے تو آپﷺ اپنی امت کی بشری کمزوریوں کے لئے کس طرح رہنمائی فرماتے؟

حضور پاکﷺ بازارتشریف لے جاتے تھے، کاروبار کرتے، کھانا کھاتے تھے، آپﷺ نے شادی کی، نبی کریمﷺ کے بچے بھی تھے، انہوں نے جہاد بھی فرمایا اس لئے کہ ان کے اندر بشری تقاضا موجود تھا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہمارے جیسے بشر تھے۔ بشری تقاضے موجود ہونا ایک الگ بات ہے اور ان کا استعمال کرنا الگ بات ہے۔ مثلاً ایک عام آدمی جب کسی بشری تقاضا کو استعمال کرتا ہے تو اس کے سامنے اس کی اپنی ذات، اولاد، بیوی یا ماں باپ ہوتے ہیں لیکن جب آپ رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں گے تو وہاں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے بشری تقاضوں کی تکمیل بھی صرف اللہ کیلئے کی ہے۔

رسول اللہﷺ نے جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تو نہ صرف لوگوں نے آپﷺ کو بے پناہ تکالیف دیں بلکہ انہیں طرح طرح کی پیش کش کیں کہ بادشاہ بن جائیں، مال و زر قبول فرما لیں یا خوبصورت ترین لڑکی سے شادی کر لیں ۔لیکن رسول پاکﷺ نے کسی بات کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ اللہ ایک ہے۔ یہ جو تم نے 360بت بنا رکھے ہیں۔ یہ بیکار ہیں۔ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے۔ حضّور پاکﷺ کی پوری زندگی کے مطالعے سے ہم ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ حضّور پاکﷺ نے اپنی زندگی کے جس بشری تقاضے کو بھی پورا کیا اس میں ان کی اپنی ذات کے بجائے اللہ کی ذات شامل تھی۔ جبکہ ہمارے سامنے اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

حضور پاکﷺ میں بشری تقاضے یعنی بھوک، پیاس یا نیند نہ ہوتی تو نوع انسانی اس بات سے انکار نہیں کر سکتی تھی کہ یہ ہم میں سے نہیں یہ تو ماورائی مخلوق ہیں اور ہم ان کی پیروی کس طرح کریں۔ جیسے ہم فرشتوں کی تقلید نہیں کر سکتے کیونکہ ان میں بھوک پیاس اور جنس کا جذبہ نہیں ہے۔ فرشتے الگ مخلوق ہیں اور انسان الگ مخلوق ہے انسان ان کی تقلید نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے انہیں بشری تقاضوں کے ساتھ ایک عام انسان کی طرح دنیا میں پیدا کیا۔ اسی نظام کے تحت ان کی پرورش ہوئی اور ان تمام جذبات کے ساتھ انہوں نے زندگی گزاری جو انسان کے اندر ہوتے ہیں۔ حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ایک ایک عمل اور ہر ہر لمحہ اللہ کے لئے وقف تھا۔ آپﷺ نے دیگر انبیاء کی طرح ان تمام بشری تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کو توحید کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔

پیغمبر بحیثیت بشر، یہ مشاہدہ رکھتا ہے کہ ہر چیز کا خالق اور رازق اللہ ہے جو ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے پیغمبران علیہم السلام اپنی زندگی کے تمام تقاضے خالق کے ساتھ وابستہ رکھتے ہیں۔ جبکہ ایک عام بندہ کی زندگی کے تقاضے اس کی اپنی ذات برادری یا قوم تک محدود ہوتے ہیں۔ عام انسان یہ تقاضے وسائل سے منسلک کرتا ہے۔

یہ کہنا کہ حضّور پاکﷺ ہمارے جیسے بشر ہیں بے ادبی اور گستاخی ہے۔ بشر تو ہیں لیکن ہمارے جیسے نہیں۔ حضّور پاکﷺ باعث تخلیق کائنات اورنُور  اول ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے میں نے ایک مرتبہ سوال کیا تھا کہ حضّور پاکﷺ کی بشریت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن حضّور پاکﷺ کا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے میرانُور  بنا اور اسنُور  سے کائنات بنی کا کیا مطلب ہے؟

آپؒ نے فرمایا کہ!

صورت یہ ہے کہ ایک اللہ ہے جو سارانُور  ہے۔ اللہ نے اپنے اندر سے تھوڑا سانُور  نکالا اور اس سے ساری کائنات بنائی۔ جسنُور  سے کائنات بنی ہے اسنُور  کی اپنی کوئی بساط یا بنیاد تو ہونی چاہئے۔ تو پہلانُور  جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سے جدا کیا وہ حضّور پاکﷺ کانُور  ہے اور کائنات حضّور پاکﷺ کےنُور  سے بنی۔

اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ تجلیات کے نزول کا پہلا قدم حضّور پاکﷺ ہیں اور حضّور پاکﷺ کو اللہ تعالیٰ نے منبع انوار بنا دیا ہے، حضّور پاکﷺ پر تجلیات و انوار، روشنی اور طاقت کا نزول ہوتا ہے اور ایک جنریٹر کی طرح آپﷺ اسنُور  کو ساری کائنات میں تقسیم کر رہے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے ارشاد فرمایا ہے۔

الحمد للّٰہ رب العالمین

* سب تعریفیں اُس اللہ کے لئے جو عالمین کا رب ہے۔

یعنی اللہ عالمین کو تخلیق کر رہا ہے، عالمین کے لئے وسائل فراہم کر رہا ہے اور عالمین کو زندگی عطا فرما رہا ہے۔

اور حضّور پاکﷺ کے لئے قرآن پاک میں ارشاد ہے

وماأرسلناكإلارحمةللعالمين

* اے محمدﷺ! ہم نے آپ کو عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

عالمین کا رب اللہ ہے۔ ایک مکمل طاقت، توانائی،نُور  علیٰ نُور  ہے۔نُور  ایسی روشنی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کی تجلی کے حامل رسول اللہﷺ ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود منتخب فرمایا اور منتخب کر کے سارے انوار اور روشنیاں حضّور پاکﷺ کے اندر منتقل کیں اور حضّور پاکﷺ سے ساری کائنات کو تقسیم کرائیں کیونکہ حضّور پاکﷺ رحمت للعالمین ہیں۔۔۔۔۔۔

میں عالمین کا رب ہوں۔ میں نے آپﷺ کو سارے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ کے ذریعے حیات، وسائل، علم، صلاحیت یا کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ تقسیم کرتا ہوں۔کائنات ایک دنیا کا نام نہیں ہے بلکہ ہماری دنیا کی طرح اربوں دنیائیں ہیں۔میں نے کتاب قلندر شعور میں لکھا ہے:

* ایک کتاب المبین ہے۔

قرآن پاک میں کتاب المبین کا تذکرہ اس طرح ہے:

الرٰ۔ تلک آیت الکتاب المبین

* پھر لوح محفوظ ہے۔

بل ھو قرآن مجیدoفی لوح محفوظ

اس طرح ان کا الگ الگ تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے۔

علم لدنی کے حامل، سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے وارث، اہل بیت اور اولیاء اللہ روحانی علوم کی تشریح میں فرماتے ہیں:

* ایک کتاب المبین میں۔۔۔۔۔۔تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔

* ہر لوح محفوظ میں 80ہزار حضیرے ہیں۔

* ہر حضیرے میں ایک کھرب مستقل آباد نظام شمسی ہیں۔

* ہر نظام شمسی میں سات، نو، گیارہ یا تیرہ سیارے اور ستارے ہیں۔

کمپیوٹر سے بھی حساب نہیں لگایا جا سکتا کہ ایک کتاب المبین میں کل کتنی زمینیں، کہکشانی نظام چاند اور سورج کی زندگیاں ریکارڈ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس نظام میں انوار تقسیم کرنے کیلئے جس ذات کا انتخاب فرمایا وہ رسول اللہﷺ ہیں یہاں غور و فکر کی ضرورت ہے کہ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین فرمایا، رحمت الدنیا نہیں کہا۔۔۔۔۔۔

* اے محمدﷺ ہم نے آپﷺ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ان عالمین میں انسانوں جیسی مخلوق بھی ہے اور دیگر مخلوقات بھی آباد ہیں۔ کہیں مخلوق ٹرانسپیرنٹ ہے۔ کہیں سیاہ ہے اور کہیںنُور انی ہے۔ ان تمام عالمین میں جہاں کہیں بھی یہ بے شمار مخلوقات آباد ہیں وہاں حضّور پاکﷺ رحمت للعالمین ہیں۔

آپﷺ اس مادی دنیا میں بشر ہیں اور اس دنیا میں جہاں روشنی کی مخلوق آباد ہے بحیثیت روشنی حضورﷺ بشر ہیں۔ فرشتوں کی دنیا میں جہاںنُور انی مخلوق آباد ہے حضورﷺ بحیثیتنُور  بشر ہیں۔ یعنی حضّور پاکﷺ جس عالم میں ہیں چاہے وہ مادی عالم ہو، روشنی کا عالم ہو یا ٹرانسپیرنٹ عالم ہو، بحیثیت بشر کے موجود ہیں اور ان عالمین میں اللہ کی تجلیات و انوار مہیا کرنے کی حیثیت سے نُور  بھی ہیں۔الفاظ میں حضّور پاکﷺ کی تعریف بیان نہیں ہو سکتی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

* اگر تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں

اور سارے درخت قلم بن جائیں

تو اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں

بے شک ہم ویسا ہی سمندر اور بھی لے آئیں

اللہ تعالیٰ، رب العالمین اور حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام رحمت للعالمین ہیں۔ رب العالمین کے کلمات اور رحمت کی باتیں بھی ختم نہیں ہوتیں اور اگر رحمت للعالمین کی رحمت کو تلاش کیا جائے تو سارے الفاظ ختم ہو جائیں گے لیکن حضّور پاکﷺ کی تعریف باقی رہے گی۔ شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ!

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نُور  القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اللہ کے بعد بزرگ ترین مقام رسول اللہﷺ کا ہے۔ حضّور پاکﷺ سے عقیدت کس طرح ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ اللہ کی محبت حضورﷺ کی محبت ہے اور رسول اللہﷺ کی محبت اللہ کی محبت ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ حضّور پاکﷺ نے اللہ کی راہ میں مال دینے کی دعوت دی جس میں تمام صحابہ کرامؓ نے حصہ لیا اور مسجد نبوی میں سامان کا ڈھیر لگ گیا۔ آپﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کیا لائے ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! گھر کا آدھا سامان خورد و نوش کے لئے چھوڑ کر سب لے آیا ہوں۔ پھر حضورﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کیا لائے ہو انہوں نے کہا! کہ میں تو گھر کا سارا ہی سامان لے آیا ہوں اور اہل خانہ کے لئے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی محبت چھوڑ آیا ہوں۔ یہ ہمارے لئے محبت و عقیدت کی ایک بے مثال۔۔۔۔۔۔مثال ہے۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جتنی بھی محبت ہو سکے وہ کم ہے۔ ہم آپﷺ کے عشق میں ڈوب جائیں اور عقیدت کو پالیں تو کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اگر حضّور پاکﷺ سے عشق و محبت کا تعلق نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ حضّور پاکﷺ سے اپنی محبت اور تعلق کو قرآن پاک میں اس طرح بیان فرماتے ہیں۔

اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ

 اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا 

* اللہ اور اس کے فرشتے نبی اکرمﷺ پر درود بھیجتے ہیں

اے ایمان والو! تم بھی محمد رسول اللہﷺ پر درود و سلام بھیجو

صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد و سلم

حضور پاکﷺ ایسی برگزیدہ ہستی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے بھی آپﷺ پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں اور مومنین سے بھی آپﷺ پر درود و سلام بھیجنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ اللہ بہت مہربان اور محبت کرنے والی شفیق ہستی ہے اور وہ رحیم و کریم ذات اپنے محبوب حضّور پاکﷺ سے محبت و عقیدت رکھنے والےامتی کی ضروربخشش فرمائے گی۔ ہمیں اس نسبت سے حضّور پاکﷺ کی محبت و عقیدت کو اپنے اتحاد اور اتفاق کے لئے بنیاد بنانا چاہئے نہ کہ امت مسلمہ اس مسئلہ میں تفرقہ کا شکار ہو۔

اگر حضّور پاکﷺ کا حقیقی تعلق نصیب ہو جائے تو پھر اس قسم کے خیالات ذہن میں نہیں آتے کہ حضّور پاکﷺ نُور  تھے یا بشر یا یہ کہ انہیں غیب کا علم تھا یا نہیں۔ وہاں تو صرف ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ حضّور پاکﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے کہ ہم حضّور پاکﷺ کے امتی ہیں۔ وہ ہمارے آقا ہیں اور ہم ان کے غلام ہیں۔ ہمیں اس طرح حضورﷺ سے محبت رکھنی چاہئے کہ وہ عشق کا رنگ لئے ہو اور عقیدت میں داخل ہو جائے۔ ہمارے لئے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ ہمیں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت حاصل ہے۔ہمیں نسبت محمدیﷺ سے اپنے دل و دماغ اور ظاہر و باطن کو یکساں طور پر رنگین کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئے۔


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔