Topics

معراج النبیﷺ

اس دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے ان سب نے ایک ہی بات کہی کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ خالق ہے اور بندے مخلوق ہیں۔ اللہ ایک ایسی ہستی ہے جو مخلوق کو محبت سے پیدا کرتی ہے اور اتنی شفیق اور مہربان ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کی زندگی قائم رکھنے کیلئے تمام ضروریات اور زندگی کے لئے وسائل فراہم کرتی ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل و شعور دیا ہے اور نیک اعمال کی جزاء میں راحت و آرام کا مقام جنت بنائی ہے۔

تمام پیغمبر اور حضّور پاکﷺ ایک ہی بات کہتے رہے اور اس دعوت کا پرچار کرتے رہے کہ اللہ سے رشتہ جوڑو، اللہ کا شریک نہ بناؤ، بت پرستی نہ کرو، اللہ نے محبت کے ساتھ تمہاری تخلیق کی ہے اس لئے اللہ سے محبت کرو۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام توحید کی دعوت کے ساتھ ساتھ رسولِ پاکﷺ کے بارے میں پیش گوئی کرتے رہے کہ سب سے آخر میں اللہ کے محبوب تشریف لائیں گے اور اللہ نے اپنے محبوب کے لئے جو انعام و اکرام رکھے ہیں ہم سب تو اس کا ضمیمہ ہیں ہمارے بعد سب سے آخر میں ایک بندہ پر اللہ کے انعامات و اکرامات کی تکمیل ہو گی جو دراصل اللہ کی پیش کردہ امانت کی تکمیل ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

* ہم نے اپنی امانت سماوات، زمین اور پہاڑوں کو پیش کی تو ان سب نے کہا کہ ہم اس امانت کو اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اگر آپ نے یہ بار ہمارے کندھوں پر ڈال دیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور اس امانت کو انسان نے اٹھا لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

اللہ نے آسمان اور زمین کے اندر کتنی زبردست چیزیں بنا رکھی ہیں جن میں بے پناہ قوت اور صلاحیتیں پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح پہاڑ کتنی قوت رکھتے ہیں لیکن زمین، آسمان اور پہاڑوں نے کہا کہ ہماری صلاحیت نہیں ہے اور پہاڑ نے کہا کہ ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ 

آسمانوں میں فرشتے بھی ہیں جن میں گروہ میکائیل اور گروہ جبرائیل بھی شامل ہیں۔ ان سب کو اللہ نے اپنی امانت پیش کی، ان میں سے انسان نے یہ امانت اپنے کندھوں پر اٹھا لی بے شک انسان نے جلد بازی اور جہالت میں اپنے اوپر ظلم کیا۔

جب اللہ نے اپنی امانت پیش کی اور انسان نے اسے اٹھا لیا تو پھر یہ اللہ کی مشیئت بن گئی کہ

اس امانت کی تکمیل ہو اور شعور انسانی اتنا طاقتور ہو جائے کہ یہ امانت پوری کی پوری اس کے اندر منتقل ہو سکے۔

شعور انسانی کے اندر سکت پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے تا کہ آدم کی اولاد میں شعوری وسعت پیدا ہو سکے۔ آدم کے بعد دوسرے پیغمبر آتے رہے اور شعوری سکت جمع در جمع بڑھتی گئی۔ جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے شعور ایک جگہ جمع ہو گئے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار شعور کی مجموعی صلاحیت سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو منتقل ہو گئی تو اللہ نے ان کے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کر دی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

* آج کے دن میں نے دین کی تکمیل کر دی

اور اپنی تمام نعمتیں آپﷺ پر پوری کر دیں

اور دین اسلام کو پسند کیا۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنی نعمت پوری کر دی۔

نعمت پوری ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ صلاحیتوں کی تکمیل ہو گئی اور شعور اتنا طاقتور ہو گیا کہ حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام امانت کے امین بن گئے۔اس کا عملی مظاہرہ واقعہ معراج ہے۔ شعور انسانی کی بلوغت اور وسعت کا یہ واقعہ بے مثال ہے۔ حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معراج اس لئے حاصل ہوئی کہ ان کی سکت و ہمت ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی مجموعی سکت سے زیادہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

* تارے کی قسم! جب وہ اترے

تمہارے رفیق نہ راہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں

اور نہ خواہش نفس سے کوئی بات کرتے ہیں

مگر وہی جو انہیں وحی کی جاتی ہے

انہیں نہایت قوت والے، طاقتور نے سکھایا

پھر اس نے اپنا جلوہ فرمایا

جب وہ آسمان بریں کے بلند تر کنارے پر تھے

پھر وہ قریب ہوئے

اور آگے بڑھے، دو کمانوں کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم

پھر اپنے بندے پر وحی فرمائی جو بھی فرمائی

دل نے جو دیکھا، جھوٹ نہ دیکھا

کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو

اور انہوں نے تو اس کو ایک بار اور بھی جلوہ فرما دیکھا

سدرۃ المنتہیٰ کے پاس

اس کے نزدیک جنت الماوٰی ہے

جب سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا

ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی

بے شک انہوں نے اپنے رب کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج سے اپنی امت کیلئے الصلوٰۃ معراج المومنین کا تحفہ لے کر آئے۔

قرآن پاک میں ہے

* بے شک نماز فواحشات، منکرات اور برائیوں سے روکتی ہے۔

نماز قائم کر کے مومن کو مرتبہ احسان حاصل ہو جاتا ہے اور فواحشات و منکرات سے بچ جاتا ہے۔ آج بے شمار لوگ نماز پڑھتے ہیں کیا وہ منکرات اور فواحشات سے بچے ہوئے ہیں؟ سمجھا یہ جاتا ہے کہ نماز اپنی جگہ اور بے ایمانی، دغا بازی، جھوٹ اپنی جگہ، نماز الگ کام ہے اور برائیاں الگ کام ہیں جبکہ ایک آدمی اگر نماز پڑھ کر فواحشات و منکرات سے نہیں بچا تو کسی بھی صورت اس نے نماز قائم نہیں کی۔ نماز کا مطلب اور پیمانہ ہی یہ ہے کہ انسان فواحشات اور منکرات سے بچ جائے۔

رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی معراج کے ساتھ ساتھ مومنین کی معراج کا بھی ذکر فرمایا ہے۔

* نماز مومنین کی معراج ہے۔

نماز کے سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 50نمازوں سے 5نمازوں کیلئے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام 9مقامات نیچے آ کر چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس آتے جاتے رہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام مقام محمود پر فائز ہیں جو چھٹے آسمان سے 9مقامات بلند ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں ہے۔

اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقام یا درجہ کم کرنا مقصود نہیں لیکن غور کرنے کا مقام ہے۔۔۔۔۔۔کہ چھٹے آسمان اور مقام محمود میں واضح فرق ہے۔

رسول اللہﷺ کی کوئی بات نعوذ باللہ عبث نہیں بلکہ حضّور پاکﷺ کا ہر عمل اور ہر قول اللہ کی طرف سے ہے اور آپﷺ کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں، تو الصلوٰۃ معراج المومنین کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی انسان نماز کو پورے حقوق و آداب کے ساتھ قائم کرے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا منکشف اور روشن ہو جاتی ہے۔

حضور پاکﷺ نے فرمایا! کہ مومن کو مرتبہ احسان حاصل ہوتا ہے۔ مرتبہ احسان کیلئے حضّور پاکﷺ نے فرمایا کہ احسان کے ایک درجہ میں مومن یہ دیکھتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور اعلیٰ درجہ میں مومن یہ دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ مومن کو صلوٰۃ یا نماز کے ذریعے غیبی دنیا کا انکشاف ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے جب وہ اللہ کو دیکھتا ہے تو اللہ سے زیادہ اور بڑا تو کوئی غیب نہیں یہ تو سب جانتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن مرتبہ احسان کے پہلے درجہ میں یہ بات مشاہدہ میں آ جاتی ہے۔

الصلوٰۃ معراج المومنین کا مطلب یہ ہے کہ مومن صحیح معنوں میں پورے آداب کے ساتھ نماز قائم کرے تو وہ مرتبہ احسان میں داخل ہو جائے گا۔ آداب سے مراد یہ ہے کہ پاک صاف ہو، جگہ پاک ہو اور کپڑے بھی صاف ستھرے ہوں، قبلہ رو ہو یہ نماز کے ظاہرہ یا جسمانی آداب ہیں۔ لیکن نماز کے روحانی آداب بھی ہیں وہ یہ کہ نماز میں مکمل یکسوئی ہو اور آپ کے اندر یہ کیفیات مرتب ہوں اور آپ یہ محسوس کریں کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں اور میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔

الصلوٰۃ معراج المومنین ان بندوں یا مومنین کو حاصل ہوتی ہے جو نماز کے ذریعے اپنا تعلق اللہ سے قائم کر لیتے ہیں۔ حضّور پاکﷺ کی معراج یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ اس طرح قائم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے راز و نیاز کی باتیں کی۔ مومن کی معراج اور حضّور پاکﷺ کی معراج میں فرق ہے۔

حضور پاکﷺ کو اللہ تعالیٰ تک جو قربت حاصل ہوئی وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو نہیں ملی۔ مسلمان بھی اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر رسول اللہﷺ مقام محمود میں اللہ تعالیٰ کے سامنے بیٹھ کر راز و نیاز کی باتیں کر سکتے ہیں تو رسول اللہﷺ کا امتی اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ آپ ایک آدمی کے نام سے واقف ہیں اور دوسرے آدمی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں بہت فرق ہے۔ جیسے آپ ایک ادیب کی تحریر سے متاثر ہو کر اسے جانتے ہوں اور دعویٰ کریں کہ میں اسے جانتا ہوں جبکہ دوسرا فرد اس ادیب کے ساتھ شب و روز رہتا ہو اس کے روزمرہ کے معمولات اور دلچسپیوں سے واقف ہو اور اس کا ذاتی دوست ہو، اس دوسرے فرد کو زیادہ قربت ہو گی۔

واقعہ معراج میں جو سعادت اور قرب رسول اللہﷺ کو ملا وہ آپﷺ ہی کے لئے مخصوص ہے بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے صرف رسول اللہﷺ ہی کو یہ گوہر مقصود ملا۔ معراج میں آپﷺ اللہ تعالیٰ کی دوستی سے مشرف ہوئے اور صلوٰۃ کی صورت میں مومنین کے لئے معراج لے کر آئے۔

معراج النبیﷺ کے سلسلے میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ نماز مومنین کے لئے معراج ہے۔ صلوٰۃ کے ذریعے مومنین کو اللہ کی دوستی کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ اصل معراج تو بہت بڑا درجہ ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے صرف حضرت محمدﷺ کو حاصل ہوئی۔

رسول اللہﷺ کی طرز فکر بھی مومنین کے لئے معراج ہے۔

مراقبہء شبِ معراج


اس رات ادب و احترام سے تمام آداب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یا حی یا قیوم اور درود شریف پڑھنا چاہئے۔ پھر رسول پاکﷺ کے روضہ اقدس کا مراقبہ کریں یا رسول پاکﷺ کا تصور کر کے مراقبہ کریں اور جس طرح واقعہ معراج بیان کیا گیا ہے کہ آپﷺ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔ تمام انبیاء نے آپﷺ کی اقتداء میں صلوٰۃ قائم کی اور پھر آپﷺ آسمان پر تشریف لے گئے۔ جس طرح بھی سمجھ آئے آنکھیں بند کر کے اس واقعہ کو اپنے دماغ میں دہرائیں اور نوافل پڑھیں۔

مسلمان جتنے بھی گناہگار ہوں لیکن بہرحال حضّور پاکﷺ کے امتی ہیں اور اس سعادت سے انہیں حضّور پاکﷺ کی نسبت حاصل ہے۔ اس سعادت اور نسبت کو ذہن میں رکھتے ہوئے معراج کے واقعہ کا تصور کریں کہ رسول پاکﷺ مکمہ مکرمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے اور وہاں تمام انبیاء جمع ہیں۔ حضّور پاکﷺ نے امامت کرائی اور پھر آسمانوں سے گزر کر حق تعالیٰ کے پاس تشریف لے گئے۔ جنت و دوزخ ملاحظہ فرمائی اور پھر واپس تشریف لائے۔ فلم کی طرح اس واقعہ کو ذہن میں دھرانے سے دماغ یکسو ہو جاتا ہے اور اللہ کی تجلی کا دیدار ہو جاتا ہے۔

حضور پاکﷺ کو نوافل ادا کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپﷺ اتنی لمبی لمبی رکعت ادا کرتے تھے کہ پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔ شب معراج میں حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ نوافل قائم کریں۔ جب مومن پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو غیب اس کے مشاہدہ میں آ جاتا ہے۔

معراج میں اللہ تعالیٰ نے حضّور پاکﷺ کو بشری لباس میں اپنا دیدار کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں رسول اللہﷺ کے بشری تعارف کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور سب سے آخر میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں بشری صورت میں تشریف لائے۔ واقعہ معراج میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اسی صورت میں اپنا دیدار کرایا ہے۔

ہمیں حضّور پاکﷺ کی محبت اپنی زندگی میں داخل کرنی چاہئے۔ شب معراج بڑی بابرکت گھڑی ہے۔ اس ساعت اپنے گناہوں کی سیاہ بختی دور کر کے اس پردے کو ہٹانا چاہئے جو محدودیت اور شقاوت کا باعث بن گیا ہے۔ کلمہ گو مسلمان کی حیثیت سے ہر ایک نے رسول اللہﷺ کی رسالت کی شہادت دی ہوئی ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کا بہت بڑا اعجاز ہے کہ رسول اللہﷺ کی رحمت و کرم ہم پر محیط ہے۔

اس نسبت سے ہمارے اندر موجود نُور  نبوت میں حرکت پیدا ہو جائے تو ہماری روح نُور نبوت سے لبریز ہو کر معراج کے انوارات سے منور ہو جائے گی۔


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔