Topics

نسخہ کیمیا

نوع انسانی کو دیگر مخلوقات سے افضل اور مشرف کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے برگزیدہ بندے بھیجے۔ ان برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء کرام نے انسان کو اچھائی و برائی کا تصور عطا کیا۔ اس تصور کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کی تلقین بھی فرمائی کہ انسان کا بحیثیت مخلوق اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق ہے اور یہ خصوصی تعلق اس طرح قائم ہو سکتا ہے جب انسان دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اپنے لئے ایک الگ اور ممتاز حیثیت کا ادراک پیدا کر لے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت قربت اور راز و نیاز کا جو وصف انسان کو ملا ہے وہ کسی اور کو نہیں ملا چونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا یہ شرف انسان کے علاوہ کسی کو منتقل نہیں ہوا اس لئے انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرنے کے لئے انسان کو اچھائی اور برائی کا تصور منتقل کیا گیا ہے جبکہ زمین پر جتنی بھی دیگر مخلوقات ہیں ان میں اچھائی یا برائی کا تصور موجود نہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے بکری یا گائے کے اندر اچھائی یا برائی کا تصور قائم نہیں کیا اس لئے وہ نکاح سے مبرا ہیں۔ اسی طرح بھوک و پیاس کی تکمیل کیلئے ان پر کوئی معاشرتی قانون نافذ نہیں ہوتا۔

انسان دیگر مخلوقات سے ماوراء ہے۔ اس ماوراء انسان نے اپنی زندگی گزارنے، معاشرت قائم کرنے اور تمدن کو ممتاز و روشن رکھنے کیلئے کچھ اصول اور ضابطے بنائے ہیں۔ ان مذہبی، اخلاقی، معاشرتی قوانین کے تحت زندگی گزارنے سے انسان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس فضیلت کی بنیاد اچھائی یا برائی کا تصور ہے۔ ان قوانین اور اعمال میں انسان کا ذہن اپنی اضافی عقل استعمال کرتا ہے جو اسی کا وصف ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے انسان کو اس کی اضافی عقل اور وصف کی بنیاد پر حیوانات سے الگ کیا۔ انبیاء کی تعلیمات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی معاشرت اس طرح قائم کرے کہ آپس میں محبت، اخوت اور بھائی چارہ و برادری سسٹم قائم ہو۔ لوگ ایک گھرانے کی طرح زندگی بسر کریں۔ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر ایک اپنے حقوق حاصل کرے۔ اس طرح وہ خود بھی خوش و خرم زندگی گزارے اور اس کے دیگر بھائی بھی خوش و خرم رہیں۔ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے۔

انبیاء نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور کی آگاہی کے ساتھ ساتھ اس بات کی ترغیب بھی دی کہ برائی ایک ایسا عمل ہے جو انسانی برادری میں غصہ، تعصب ، نفرت اور حقارت کے جذبات پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے ناپسندیدہ ہے۔ اس کے برعکس اچھائی ایک ایسا عمل ہے جس سے نوع انسانی میں برادری سسٹم قائم ہوتا ہے۔ انسان خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اس عمل سے خوش ہوتا ہے۔

برائی کا مطلب تخریب ہے۔ تخریب یا ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر غور و فکر کیا جائے تو جتنی زیادہ ٹوٹ پھوٹ ہو گی اسی مناسبت سے خاندان، کنبے، محلے، شہر اور اقوام پریشانی اور ادبار میں مبتلا رہیں گی اور جتنی زیادہ اچھائی یا تعمیر ہو گی اسی حساب سے چھوٹی سی قوم سے لے کر پوری نوع انسانی خوش رہے گی۔

انبیاء نے انسان کو اچھائی یا برائی کا تصور دیا اس کا منشاء یہ ہے کہ نوع انسانی تخریب کو رد کر کے اس سے اپنا رشتہ توڑ لے اور تعمیر سے اپنا رشتہ جوڑ لے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو لاکھوں سال سے چل رہا ہے اور اس تعمیر و تخریب کو سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش سوا لاکھ پیغمبر اس دنیا میں بھیجے۔ 

انبیاء کرام تشریف لاتے اللہ کا پیغام پہنچاتے لیکن ان کے پردہ فرماتے ہی نوع انسانی انبیاء کی تعلیمات سے دور ہو کر گمراہی میں مبتلا ہو جاتی۔ انبیاء کرام کی تعلیمات میں ذاتی مفاد اور منفعت کے مطابق تحریف کر دی جاتی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مخصوص گروہوں نے اپنی ذاتی منفعت کے لئے انبیاء کی تعلیمات کے تعمیری پہلو میں تخریب شامل کر دی۔ جیسے جیسے تخریب بڑھتی گئی اس مناسبت سے نوع انسانی میں تفرقے فروغ پاتے چلے گئے اور نوع انسانی گروہوں میں بٹ گئی حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اقوام پر ایسے گروہوں کی حکمرانی قائم ہو گئی جنہوں نے نفرت، حقارت اور ظلم کے سوا کچھ نہیں دیا۔ انسان انسانیت کے مقام سے گر کر درندگی پر اتر آیا۔ 

اس نے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔اور بے حیائی کے اس مقام تک گر گیا جہاں حیا کا تصور بھی نہ رہا۔

زمین نے اپنے اوپر اس فساد کیلئے اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضّور عاجزی اور انکساری سے درخواست کی کہ یا اللہ جس آدمی کو تو نے میرے اندر سے پیدا کر کے میرے اوپر آباد کیا ہے اس نے تخریب اور بے شرمی کے وہ کام کرنے شروع کر دیئے ہیں جس سے مجھے شرم اور ندامت ہوتی ہے۔ اے اللہ! ہدایت فرما۔

اللہ تعالیٰ نے زمین کی یہ فریاد سن کر اپنے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا میں بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ کی تعلیمات گزشتہ تمام انبیاء کی تعلیمات کا تسلسل ہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ تخریب انسانی عمل نہیں ہے۔ تخریب ایک غیر فطری، غیر انسانی اور شیطانی عمل ہے۔ تخریب کو چھوڑ کر تعمیری پہلو اختیار کرو۔ تعمیری پہلو یہ ہے کہ انسان کے اندر نفرت و حقارت نہ ہو بلکہ آپس میں بھائی چارہ اور محبت ہو۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا مومن کی پہچان یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے چاہتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اصل چیز وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ 

اگر اس ساری کائنات اور زمین کے اوپر آباد تمام انواع و مخلوقات پر غور و فکر کیا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کائنات اللہ کا کنبہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کنبہ کا سربراہ ہے۔ ہر سربراہ یا باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد پیار و محبت اور خلوص سے مل جل کر رہے ایک دوسرے کے کام آئے اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرے۔

دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ انسان اور انسان کی زندگی کی ضروریات کے لئے تمام وسائل اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ سورج، چاند، زمین، پانی سب اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اتنے رحیم و کریم ہیں کہ اس نے مخلوقات کیلئے تمام وسائل مفت فراہم کر رکھے ہیں تا کہ ان کی حیات قائم و دائم رہے ۔ ایسے رحیم اور کریم اللہ سے دوری سوائے بدنصیبی اور بدبختی کے کچھ نہیں ہے۔


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔