Topics

تعارف

اقراء !

قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل علوم کی دستاویز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن تجلیات و انوارات پر کائنات تخلیق کی اور اس کا علم اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ ان تخلیقی قوانین اور فارمولوں میں تسخیر کائنات کا علم پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علم اور حکمت کو اپنی نعمت بتایا اور اس نعمت کی تکمیل سرور کائنات، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کی ہے۔ آپﷺ کتاب و حکمت کی یہ نعمت عالمین میں تقسیم فرما رہے ہیں۔

قرآن پاک کی ابتدائی آیات غار حرا میں نازل ہوئیں جہاں حضرت محمد مصطفٰے ﷺ فطرت کی نشانیوں اور حقیقت کی تلاش میں غور و فکر فرمایا کرتے تھے۔ آیات الٰہی پر تفکر انبیاء کرام علیہمالسلام کی سنت رہا ہے۔ جب تفکر کے مسلسل عمل سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذہن مبارک مکمل طور پر یکسو ہو گیا اور روحانی حواس غالب آ گئے تو قلب اطہر پر غیب روشن ہو گیا اور فرستادہ حق، حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لے آئے۔

حضرت جبرائیلؑ نے آپﷺ سے فرمایا۔ پڑھیئے! آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس پر حضرت جبرائیلؑ نے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سینہ سے لگایا اور دوبارہ کہا پڑھیئے! آپﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ 

اس طرح یہ مکالمہ اور عمل تین مرتبہ دہرایا گیا اور پھر سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابتدائی آیات پڑھیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک عربی میں نازل فرمایا جو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مادری زبان ہے۔ اگر قرآن پاک کی آیات کو محض دہرانا مقصود ہوتا تو آپﷺ اقراء دہرا دیتے لیکن آپ نے اقراء دہرانے کی بجائے اس کے معنی و مفہوم سمجھ کر فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

اللہ زمین اور آسمان کا نُور  ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نُور انی مخلوق ہیں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں افضل و مقرب ترین گروہ کے سردار ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ نے تین مرتبہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سینے سے لگا کر آپ کے سینہ مبارک میں نُور  اور علم منتقل کیا۔ آیات مبارکہ پر غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے متعلق آیات کا علم اللہ کے نُور  پر مشتمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو منتقل کیا گیا۔

اقرا باسم ربک الذی خلق

پڑھیئے!اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا

خلق الانسان من علق

انسان کو پیدا کیا کھنکھناتی مٹی سے

اقرا و ربک الاکرام

پڑھیئے! اپنے رب کے نام سے جو بڑا کرم والا ہے۔

الذی علم بالقلم

جس نے علم سکھایا قلم سے

علم الانسان مالم یعلم

انسان کو علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی ابتدائی آیات میں تخلیق کا علم سکھایا اور آخری آیات میں دین اور اپنی نعمت کی تکمیل کا بیان کیا ہے۔ ابتدائی آیات میں تخلیق کے دو مراحل یا رخ علیحدہ علیحدہ بیان کئے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں علم القلم کے تحت ارواح کی اولین تخلیق کا ذکر ہے۔ اس میں تمام انواع شامل ہیں۔ تخلیق کا یہ مرحلہ وسائل کے بغیر وجود میں آیا۔ دوسرے مرحلے میں انسان کے لئے ایک میڈیم ’علق‘ کا بیان کیا گیا ہے۔ علق عنصری وجود ہے جو روح انسانی کے لباس کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انواع و موجودات میں صرف انسان ہی قابل تذکرہ مخلوق ہے۔ اس کی وجہ تخلیق کے مقصد سے انسان کا براہ راست تعلق ہے۔ تخلیق کائنات سے ذات کے اندر موجود لاشمار پوشیدہ صفات کا مظاہرہ ہوا۔ ان صفات کا علم صرف انسان کو سکھایا گیا ہے۔ 

معرفت اور حقیقت جاننے کی صلاحیت انسان کو عطا کی گئی ہے اور اسی شرف کی بناء پر وہ دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اللہ کی صفات کا علم بھی لامحدود ہے۔ کسی مخلوق میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے وہم، گمان، خیال، ادراک، وجدان یا علم میں اللہ تعالیٰ کی ذات یا کسی صفت کا احاطہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا جزوی علم انسان کو عطا کیا گیا ہے جو کائنات سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ یہ قلیل علم بھی انسان کے لئے لامحدود وسعت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادۃ ہیں۔ ذات باری تعالیٰ نے اس کائنات کو امر و خلق کے تحت تخلیق کیا۔ غیب کے علوم میں علم القلم، علم الکتاب یا علم الاسماء اور عالم امر کے قوانین و فارمولے شامل ہیں جبکہ عالم شہادت میں عناصر کے علوم کارفرما ہیں۔ صفات یا نُور  کے تنزل سے روشنی، رنگ اور عناصر بنتے ہیں۔ قرآن پاک میں تخلیق کے دونوں رخ تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ مادہ بھی اللہ کی تخلیق اور علم الٰہی ہے جو قلم، لوح، امر کے زون سے گزر کر عناصر کا رنگ و روپ اختیار کر لیتا ہے۔

پہلے مرحلے میں علم القلم کے تحت کن فیکون ہوا اور ارواح تخلیق ہوئیں۔ دوسرے مرحلے میں الست بربکم کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ارواح کو اپنی صفات کا مشاہدہ اور تعارف کرایا۔ تیسرے مرحلے میں احسن تقویم کے تحت ان صفات کا علم انسان کو سکھایا گیا۔ لیکن چوتھے مرحلے میں جب انسان عالم دنیا یا اسفل السافلین میں پیدا ہوتا ہے تو کائناتی شعور سے پست تر مادی شعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تخلیق۔۔۔۔۔۔کتاب المبین، لوح محفوظ اور عالم مثال سے گزرتی ہوئی عالم دنیا کے مادی شعور میں داخل ہو جاتی ہے۔ اجتماعی شعور کے مقابلہ میں انسان انفرادی شعور میں اتنا محدود ہوجاتا ہے کہ روزِ ازل کیا گیا عہد، مشاہدہ اور علم الاسماء کے تحت نیابت و خلافت کا منصب اور علم پس پردہ چلا جاتا ہے اور انسان زمان و مکان کا پابند اور وسائل کا محتاج بن جاتا ہے۔

انسان کا مادی شعور اتنا محدود ہے کہ وہ مظاہر یعنی آسمان، سورج، چاند، آگ، پتھر حتیٰ کہ حیوانات کو بھی اپنا معبود تسلیم کر لیتا ہے۔ جبکہ فطرت کی آفاقی نشانیاں انسان کی عقل و شعور کو مادہ کے پس پردہ موجود ایک کائناتی حقیقت یعنی روح کے شعور و حواس کی آگاہی بخشتی ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو عالمین میں زمان و مکان سے آزاد اور وسائل پر حاکم ہے۔۔۔۔۔۔صاحب امر کی حیثیت سے مخلوق پر حکمران، اللہ کا نائب اور خلیفۃ الارض ہے۔

اسفل السافلین کے مادی شعور میں احسن تقویم کے روحانی اوصاف کی یاددہانی کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا جو پیغمبر آخر الزمان، سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی عالم شہادت۔۔۔۔۔۔یعنی دنیا میں آمد کے ساتھ مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے معجزات و واقعات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ جس سے عالم شہادت اور عالم غیب کی تفہیم ملتی ہے۔

* اللہ کی طرف سے ایک نُور  اور ایک روشن کتاب تمہارے پاس آ چکی ہے۔

* ہم نے ایک کتاب اتاری تا کہ لوگوں کو ظلمات سے نُور  کی طرف لے جائیں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام تر تکالیف کو بیش بہا قربانیوں کے ساتھ برداشت کیا۔ یہ آپﷺ کا اعجاز و کمال ہے کہ آپﷺ نے قرآن پاک میں موجود علم نوع انسانی تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا ہے اور قرآن کا سمجھنا بہت آسان کر دیا ہے۔ اقراء! کے ذریعے اللہ کے محبوبﷺ نے نوع انسانی کو محدود و مقید اور مجبور و پابند شعور سے نجات دلا کر توحید پر جمع فرمایا۔ انسان کا رشتہ براہ راست اللہ سے جوڑ دیا اور یہ حقیقت دوبارہ نوع انسانی کے شعور میں آ گئی کہ انسان کا اللہ سے براہ راست ایک رشتہ و تعلق ہے۔

* میں نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

* تم جہاں کہیں بھی ہو میں تمہارے ساتھ ہوں۔

* میں تو تمہارے اندر ہوں تم دیکھتے کیوں نہیں۔

* میں تو تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں۔

زیر تفکر علم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک علم شریعت یا قال اور دوسرا علم معرفت یا حال کہلاتا ہے۔ دونوں علوم کا منبع قرآن پاک ہے جبکہ مقصد اللہ سے براہ راست ربط قائم کرنا ہے۔ شریعت سے جسم، لباس، جگہ کی کیفیات۔۔۔۔۔۔سمت، رکعت اور اوقات کے تعین۔۔۔۔۔۔نیت، تکبیر، قیام، رکوع، سجدہ، تلاوت، تسبیحات، درود شریف، دعا اور سلام کا علم اور دیگر قوانین ملتے ہیں جبکہ علم معرفت میں مرتبہ احسان کے ذریعے بندہ عبادت کے دوران اپنی رگ جان سے قریب، اللہ کے سامنے حاضری کا مشاہدہ کرتا ہے یا اس کا دھیان و گمان کرتا ہے۔

* جو کوئی بھی اس کی راہ میں کوشش اور جدوجہد کرے گا اللہ ضرور اسے اپنا راستہ دکھا دے گا۔

* بندہ فرائض کے ساتھ نوافل سے اس کا ربط اور قرب چاہتا ہے تو پھر وہ بندہ کو اپنا بنا لیتا ہے اور اپنے بندہ سے محبت کرتا ہے۔ اگر بندہ اسے پکارے تو وہ جواب دے اور بندہ کچھ مانگے تو وہ اسے عنایت کرے۔ پھر!

اللہ اس کی سماعت بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے

اللہ اس کی بصارت بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے

اللہ اس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے

اللہ اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے

علم اور مشاہدہ مومن کی صفت ہے جبکہ مسلمان ہونا اور مومن ہونا الگ الگ بات ہے۔

* کم علم یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ مومن بن گئے ہیں حالانکہ ایمان تو ان کے قلوب میں داخل نہیں ہوا ہے اور یہ تو فقط مسلمان ہوئے هیں۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو خصوصی طور پر کتاب و حکمت عطا کی ہے اور یہی علم انبیاء کا ترکہ یا ورثہ ہوتا ہے۔ رب العالمین نے اپنے محبوب، سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر دین کی تکمیل فرمائی اور اپنی تمام نعمتیں عطا کیں۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اتنا زیادہ علم عطا کیا گیا کہ آپ کی امت کا ایک عالم بنی اسرائیل کے نبی کے برابر ہے۔

* وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں، ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیت کھول کر بتاتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کا علم سکھاتے ہیں ورنہ اس سے قبل تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔ 

رسول اللہﷺ نے فرمایا!

* میں اپنے بعد اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑے جا رہا ہوں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورثہ آپﷺ کا علم ہے۔ شریعت اور معرفت آپؐ کے علم کے دو رخ ہیں۔ آپﷺ آج بھی علم کے دونوں شعبوں کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔

مدرسہ دارالعلوم دیو بند کی تعمیر کے وقت مہتمم حضرت رفیع الدینؒ نے خواب دیکھا کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں۔ آپ کے دست مبارک میں عصا ہے۔ آپﷺ نے مولانا سے فرمایا۔

’’شمالی جانب جو بنیاد کھودی گئی ہے اس سے صحن مدرسہ چھوٹا رہے گا۔‘‘

آپﷺ نے عصائے مبارک سے دس بیس گز شمال کی جانب ہٹ کر نشان لگایا اور فرمایا!

’’بنیاد یہاں پر ہونی چاہئے تا کہ مدرسہ کا صحن وسیع رہے۔‘‘

خواب کے بعد علی الصبح مولانا نے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لگایا ہوا نشان موجود پایا اور پھر اسی نشان پر بنیاد کھدوا کر مدرسہ کی تعمیر شروع کی۔

حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکیؒ صاحبِ عرفان بزرگ تھے۔ آپؒ کو سرور کائنات، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوئی اور رسول اللہﷺ کے ارشادِ مبارکہ پر آپ ارض مقدس تشریف لے گئے۔ مکہ مکرمہ میں انتقال ہوا اور جنت المعلیٰ میں مدفون ہوئے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ آپ کے مریدین میں شامل تھے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خلیفہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، میزبان رسول کریمﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؒ کی اولاد ہیں۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے دس سال کی محنت شاقہ کے بعد حدیث مبارکہ کی کتاب سنن ابی داؤد کی ایک عظیم الشان و بے مثال شرح عربی زبان میں تحریر فرمائی جس کا نام بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد ہے۔ ابھی شرح کے دو ہزار صفحات مکمل ہوئے تھے کہ آپ کو نبی الامی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زیارت مبارکہ نصیب ہوئی۔ آپﷺ نے فرمایا!

’’آپ میرے پاس مدینہ تشریف لے آیئے۔‘‘

حضرت مولاناؒ دوسرے ہی دن مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ شرح کا بقیہ حصہ وہاں جا کر مکمل کیا اور اس موقع پر علمائے مدینہ طیبہ کے لئے شاندار ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ 6ماہ بعد وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ حضرت مولانا محمد زکریاؒ ان کے خلیفہ تھے۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام علم کے دوسرے شعبہ علمِ لدنی کی براہ راست نگرانی فرماتے ہیں۔ علم کتاب کا یہ شعبہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ترکہ خاص ہے جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل و اصحاب کے منتخب افراد میں خاص طور پر منتقل ہوتا ہے۔

* وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔

اور جسے حکمت ملی اس کو بے شک خیر کثیر ملی

اور نعمت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔

حضرت امام حسن عسکریؒ آل محمدﷺ میں گیارہویں امام ہیں۔ ان کی اولاد میں سے ایک بزرگ حضرت فضیل مہدی عبداللہ عربؒ مدینہ منورہ سے مدراس تشریف لائے۔ آپ کی نسل میں ناگپور کے مشہور بزرگ تاج الاولیاء، واقف اسرار و رموز حضرت بابا تاج الدین اولیاءؒ اور حامل علم لدنی، صدر الصدور حضرت حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاؒ گزرے ہیں۔ بابا تاج الدین اولیاءؒ نے اپنے نواسے حضرت حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاءؒ کی 9سال تک روحانی تربیت فرمائی۔ تقسیم ہند کے بعد حضرت حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاءؒ کراچی تشریف لے آئے اور سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ، قطب ارشاد حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ سے بیعت ہوئے۔ جنہوں نے تین ہفتہ میں تعلیمات مکمل کر کے خلافت عطا فرمائی۔

حضرت حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاءؒ المعروف حضّور قلندر بابا اولیاءؒ کو بابا تاج الدینؒ سے براہ راست اور مندرجہ ذیل بزرگان سے بطریق اویسیہ علم و فیض منتقل ہوا اور آپؒ ان تمام سلاسل کے خانوادہ ہیں۔ ان میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت امام موسیٰ کاظم رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ممشاد دینوری رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت شیخ بہا الحق نقشبندخواجہ باقی باللہ  رحمتہ اللہ علیہ،حضرت ابوالقاہر رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ابو القاسم جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ شامل ہیں۔

ان بزرگان حق سے تعلیمات مکمل ہونے کے بعد سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حسن اخریٰ، سید محمد عظیم برخیاء المعروف قلندر بابا اولیاءؒ کو براہ راست علم لدنی عطا فرمایا۔ حسن اخریٰ کا خطاب بھی سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃکی بارگاہ اقدس کا عطا کردہ ہے۔

حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کے شاگرد رشید الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ کی درخواست پر حضّور قلندر بابا اولیاءؒ نے سلسلہ عالیہ عظیمیہ کی بنیاد رکھنے کی درخواست سرور کائنات، فخر موجودات، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کی۔ حضّور نبی کریمﷺ نے درخواست قبول فرمانے کے بعد سلسلہ عظیمیہ قائم کرنے کی اجازت عطا فرما دی اور حضرت قلندر بابا اولیاءؒ امام سلسلہ عظیمیہ ہوئے۔ آپ نے الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالیٰ کی روحانیت تربیت فرمائی اور اپنا ذہن و علم الشیخ عظیمی کو منتقل فرمایا۔ حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کے انتقال کے بعد الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالیٰ، خانوادہ سلسلہ عظیمیہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ حضرت قلندر بابا اولیاءؒ اور مذکورہ بالا بزرگان کے فیض کے علاوہ الشیخ عظیمی صاحب کو مندرجہ ذیل اصحاب و بزرگان سے براہ راست اور بطریق اویسیہ فیض منتقل ہوا۔

حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت بلال حبشیؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت سیدہ بی بی فاطمہؓ، حضرت سیدہ بی بی زینبؓ، حضرت رابعہ بصریؒ ، حضرت امام موسیٰ رضا کاظمؒ ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت ابوالحسن علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ، حضرت شاہ عبدالطیف امام بریؒ ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، حضرت بو علی شاہ قلندرؒ ، حضرت شاہ دولہ دریائیؒ ، حضرت بہاؤ الدین ذکریا سہروردیؒ ، حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، حافظ فخر الدینؒ ، خلیفہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور حضرت چوہدری اقبالؒ ۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری علم قال کے ساتھ ساتھ علم معرفت و طریقت کے حامل بزرگ ہیں۔ آپ نے اپنا روحانی علم اور ورثہ اپنے پوتے الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالیٰ کو منتقل کرنے کے لئے دربار رسالتﷺ سے اجازت چاہی تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ آپ کس بنیاد پر یہ علمی ورثہ منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت مولانا نے مقبول دربار رسالت، شرح سنن ابی داؤد سرور کائنات سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کی۔ 

آپﷺ نے متبسم ہو کر درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور کتاب کے حاشیہ پردست مبارک سے اجازت تحریر فرما دی۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ سے الشیخ عظیمی مدظلہ عالیٰ کو چہار سلاسل، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ اور قادریہ میں خلافت عطا ہوئی۔

الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالیٰ، میزبان رسول کریم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے روضہ مبارک پر حاضری کے موقع پر مراقبہ میں آپؓ نے الشیخ عظیمی کو گلے سے لگایا۔ الشیخ عظیمی نے دیکھا کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے سینہ مبارک سے نُور  کی ایک شعاع نکلی اور ان کے سینہ میں جذب ہو گئی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا!

’’سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہونے والا یہ نُور  جو میرے پاس آپ کی امانت تھا، آج میں نے وہ امانت آپ کو منتقل کر دی۔‘‘

الشیخ عظیمی کو اللہ کے محبوب سرور کائنات سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضری کی سعادت ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مبارکہ، صفات حمیدہ اور مقام محمود کے وسیلہ، انبیاء مرسلین، حضرت جبرائیل امین اور اصحاب و آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے سرور کائنات، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم لدنی عطا فرمانے کی درخواست کی۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متبسم ہو کر درخواست قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا:

’’خوابہ ایوب انصاریؓ کے بیٹے ہم تجھے قبول فرماتے ہیں۔‘‘

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر حضرتحسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاء، حضّور قلندر بابا اولیاء امام سلسلہ عظیمیہ نے الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالیٰ کی سولہ سال تک تربیت فرمائی۔ حضرت عظیمی صاحب شب و روز اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر باش رہے۔

اللھم لک الشکر ولک الحمد

الشیخ عظیمی فرماتے ہیں کہ:

’’کوئی بھی انسان دربار رسالت میں رسول اللہﷺ کے حضّور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کی درخواست پیش کر سکتا ہے بندے کو ذہنی و قلبی طور پر رسول اللہﷺ اور اپنے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ استوار کر کے نہایت عاجزی و انکساری سے یہ درخواست پیش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء مقدسہ اور سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے اور واسطے سے کی گئی یہ درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔‘‘

صلی اللہ تعالیٰ حبیبہ محمد و سلم

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام رحمت للعالمین ہیں جب کوئی بندہ اس یقین کے ساتھ کہ حضورﷺ کی رحمت پوری کائنات پر محیط ہے اور میں بھی اس کائنات کا ایک ذرہ ہوں لہٰذا میں بھی اس رحمت سے ضرور مستفیض ہو جاؤں بس ایک پردہ حائل ہے اور اس پردے کو حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت اور کرم اٹھا سکتا ہے۔

ادب اور یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسماء الحسنیٰ کے وسیلہ سے مراد پوری ہونے تک یہ درخواست پیش کی جائے۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مبارکہ، صفات حمیدہ اور مقام محمود کا واسطہ پیشکیا جائے۔۔۔۔۔۔انبیائے مرسلین، حضرت جبرائیل امین اور اصحاب و اٰل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے متواتر مانگا جائے تو دریا رحمت جوش میں آ جائے گا اور آپ اس رحمت سے سیراب ہو جائیں گے۔ اولیاء اللہ بھی سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصاف حمیدہ سے اس طرح فیض یاب ہوتے ہیں۔

کتاباللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت و نسبت سے ہم سب کو یہ دولت سرمدی نصیب فرمائے۔

آمین

ڈاکٹر محمد طارق عظیمی، کوئٹہ



Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔