Topics
عید میلاد کے دن مرکزی مراقبہ ہال میں نماز فجر اور مراقبہ کے بعد یہ محسوس ہوا کہ انوارات اور روشنیوں کی پر مسرت لہریں روح کے اندر سرایت کر رہی ہیں اور ایک انجانی سی خوشی سے روح معمور ہے۔ جسم کا رواں رواں اس کیف اور سرور کو محسوس کر رہا تھا، وہاں موجود دیگر افراد نے بھی خوشی کی اس کیفیت کو محسوس کیا۔
تفکر کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ذہن میں انسپائر ہوئی کہ اصل عید تو عید میلاد النبیﷺ ہے کیونکہ عید الفطر اور عید الالضحیٰ تو حضورپاکﷺ کی اس دنیا میں ولادت باسعادت کے بعد شروع ہوئیں۔ ارض و سمٰوات، مخلوقات اور امت مسلمہ کیلئے رسول اللہﷺ کی ولادت اصل عید ہے اور عید الفطر و عید الالضحیٰ رسول اللہﷺ کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے تابع ہیں۔ عید میلاد، آپﷺ کی ولادت کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کے حضّور سربسجود ہونے کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نہ معلوم کب سے تخلیق کر کے چھپا رکھا تھا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کو عالم ناسوت میں بھیجا یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور مقام شکر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے حضّور پاکﷺ کا ارشاد ہے
o اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نُور تخلیق کیا
اور اس نُور سے ساری کائنات بنائی۔
یہ تمام کائنات، اس کے اندر حرکت اور زندگی حضّور پاکﷺ کے نُور کے تابع ہے غور فرمائیں کہ کائنات میں کیا کیا چیزیں موجود ہیں۔ عرش، کرسی، سمٰوات، ارض، فرشتے، انبیاء، یعنی اللہ تعالیٰ کے ماسوا جو کچھ بھی ہے وہ رسول اللہﷺ کے نُور سے تخلیق ہوا تو رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت سے بڑھ کر اور کون سی عید ہو سکتی ہے اور اس خوشی کو محسوس کرنا بڑی سعادت ہے اور ان افراد کے لئے خوش نصیبی کا اشارہ ہے جو رسول اللہﷺ کی امت میں شامل ہیں اور ان کے پیروکار ہیں۔
یہ دن ہر سال آتا ہے۔ چودہ سو سال سے لوگ اس روز جمع ہوتے ہیں۔ نعت خوانی ہوتی ہے، مقالہ جات پڑھے جاتے ہیں اور سیرت طیبہ کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن اس سب اہتمام کے برعکس جب امت مسلمہ کی زندگی اور اعمال کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ چودہ سو سال سے رسول اللہﷺ کے اس حکم کو دہرایا جا رہا ہے اور آپﷺ کے اس مشن کا پرچار کیا جا رہا ہے کہ
سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود عمل مفقود ہے۔
خطبہ الوداع میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں بلکہ بڑے یا چھوٹے ہونے کا معیار یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات پر کتنا عمل پیرا ہیں۔ جو بندہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات پر جتنا عمل کرتا ہے اسی مناسبت سے وہ متقی، پرہیز گار اور بزرگ ہے۔
امت مسلمہ کی بدنصیبی ہے کہ چودہ سو سال سے ہزار ہا تقاریر سننے، لاکھوں کلمات کا مطالعہ کرنے اور کروڑ ہا بار رسول اللہﷺ پر درود شریف بھیجنے کے باوجود وہ تفرقہ کا شکار ہے۔
رسول اللہﷺ کے اس حکم اور مشن کہ۔۔۔۔۔۔
’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘
کے باوجود آج مسلمانوں کی پہچان یہ بن گئی ہے کہ وہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جب تک فرقہ بندی اور آپس میں گروہ بندی کا تقابلی تذکرہ نہ کیا جائے مسلمان کی شناخت ہی نہیں ہوتی۔
چودہ سو سال میں رسول اللہﷺ کے اس حکم کی اتنی خلاف ورزی ہوئی ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ آج مسلمانوں کی پہچان ہی یہ رہ گئی ہے کہ وہ دیو بندی، بریلوی، مقلد، غیر مقلد اور نہ معلوم کیا کیا ہیں بس نہیں ہیں تو صرف ایک امت واحدہ نہیں ہیں۔
ہر سال محافل میلاد منعقد کرنا اور ان میں لوگوں کا ذوق و شوق سے شریک ہونا صرف نشستند، گفتند و برخاستند ہو کر رہ گیا ہے۔ صد افسوس کہ چودہ سو سال میں علماء و مشائخ کا کوئی ایسا گروہ پیدا نہ ہوا جس نے یہ کوشش کی ہو کہ
مسلمان صرف مسلمان ہیں اور کچھ نہیں!
اس کے برعکس قوم تفرقہ میں بٹ گئی اور اس گروہ بندی کی وجہ سے قوم کا شیرازہ منتشر ہو گیا۔ وحدت اور اخوت کی تعلیمات پردے میں چھپ گئی ہیں حالانکہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے لئے جو انفرادی اور اجتماعی پروگرام مرتب فرمایا ہے اس میں اجتماعیت کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
o روزہ
o باجماعت نماز
o حج
اجتماعی اعمال ہیں۔
o ماحول اور معاشرہ کو صاف ستھرا رکھنا
o بے ایمانی سے بچنا
o اپنے بھائیوں کے حقوق غصب نہ کرنا
یہ سب اجتماعی اعمال ہیں۔
ایک اور ایک گیارہ اور گیارہ وگیارہ بائیس ہوتے ہیں۔ مسلمان تھوڑے سے ہی سہی لیکن اگر وہ آج یہ طے کر لیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے مشن کے لئے زبانی جمع تفریق کی بجائے زندگی میں عملی قدم بھی اٹھائیں گے تو مسلمان اس دنیا کی سب سے بڑی قوت بن سکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اپنے مشن کیلئے بڑی بڑی تکالیت برداشت کیں اور پریشانیوں کا سامنا کیا۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپﷺ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اپنا آبائی شہر مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنی پڑی۔ غزوات و لڑائیوں میں حصہ لیا اور پھر صلہ رحمی سے ان سب تکالیف اور عزیز و اقرباء کا خون بہا معاف بھی فرمایا۔
رسول اللہﷺ نے یہ ساری تکالیف اس لئے برداشت کیں کہ وہ امت کے لئے یہ مثال چھوڑ کر جا رہے تھے کہ مسلمان ایک ہیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہیں۔
مسلمان اللہ کو رب اور حضرت محمدﷺ کو رسول اور قرآن پاک کو اللہ کی کتاب جان کر ان پر ایمان رکھتے ہیں پس جب
o اللہ بھی ایک ہے
o رسول اللہﷺ بھی ایک ہیں
o کتاب بھی ایک ہے
اور
o مسلمان بھی رسول اللہﷺ کی ایک ہی امت ہیں
تو یہ درمیان میں تفرقہ کہاں سے آ گیا؟
اس فرقہ بندی کی بنیاد پر کسی فرد کی رسائی نہ تو اللہ تعالیٰ تک ہو سکتی ہے نہ کوئی رسول اللہﷺ کو خوش کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی حال میں جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔
رسول اللہﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ میری امت میں سے جو بندہ تعصب پر جیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور اس کو میری شفاعت نصیب نہیں ہو گی۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
o اللہ کی رسی متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑو
اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
رسول اللہﷺ کے ارشاد کے برعکس جو آدمی تعصب پر جیا اور جس نے مسلمان کو اپنا بھائی نہ سمجھا اور تفرقہ بازی اختیار کرتے ہوئے کبر و غرور کیا وہ خسارے میں ہے۔ تفرقہ بازی کے نتیجے میں آدمی دیدا و دانستہ کبر اخیتار کر لیتا ہے۔ یہاں ہر فرقہ یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہ سیدھے راستے پر ہے اور جنت میں جائے گا جبکہ حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا۔ جب کوئی فرقہ یہ کہتا ہے کہ صرف وہ جنتی ہے تو لامحالہ شیطان یہ وسوسہ اور خناس دل میں ڈال دیتا ہے کہ دوسرے دوزخی ہیں۔
زبان سے تو کہا نہیں جاتا لیکن جب اپنے آپ کو جنتی قرار دے دیا جائے تو اس کا مفہوم یہی نکلتا ہے اور شیطانی وسوسہ ذہن کو اُسی طرف لے جاتا ہے کہ دیگر لوگ جنتی نہیں ہیں۔
ایک فرد جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کا رسول مان رہا ہے۔
قرآن پاک پر ایمان رکھتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کر رہا ہے تو ایسے بندہ کے لئے یہ گمان کرنا کہ یہ جنتی نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہی نہیں ہو سکتی۔ تفرقہ بازی گمراہی ہے اور آدمی کو صراط مستقیم سے دور کر دیتی ہے۔
رسول اللہﷺ نے ہمیشہ یہ کوشش فرمائی ہے کہ سارے مسلمان بھائی بھائی بن کر رہیں اور آپس میں نہ لڑیں، ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں بلاشبہ رسول اللہﷺ کا یہی مشن ہے۔ بھائی کو بھائی سے لڑانا، مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کر کے فساد و خون خرابہ کرنا شیطان کا مشن ہے۔ اگر کوئی شیطانی خصلتوں یعنی تعصب، نفرت، حقارت اور تفرقہ کو اپناتا ہے تو وہ ایسے راستے پر چل پڑا ہے جو شیطان کا پسندیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا مشن توحید ہے اور اللہ تعالیٰ وحدت کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کیلئے یہ حکم ہے کہ جس طرح تم مجھے ایک مانتے ہو اسی طرح مسلمان ایک قوم کی طرح متحد ہوں۔ اگر ساری مسلمان امت ایک قوم بن جائے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی دوست ہے اور اللہ تعالیٰ کی دوست قوم ذلیل و خوار نہیں ہوتی۔
آج اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ ذلیل، پریشان اور مفلوک الحال ہیں۔ اس دنیا میں اس وقت جتنی بڑی طاقتیں ہیں ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر زیادہ سے زیادہ فرقے پیدا کر دیئے جائیں۔ غیر مسلم اقوام اس پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور زیادہ سے زیادہ فرقے پیدا ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً مسلمان ذلیل و خوار ہیں۔ غیر مسلم حاکم اور مسلمان ہر جگہ محکوم ہیں۔
امت مسلمہ کی زبوں حالی، بے عزتی، بربادی اور ہلاکت صرف اس وجہ سے ہے کہ اسلام دشمنوں نے سازشوں کے ذریعے اُن کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور مسلمان تقسیم ہو کر فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ 72سال کی عمر میں میرا تجربہ اور عقل یہ بتاتی ہے کہ اگر مسلمانوں کے اندر سے انتشار ختم نہ ہوا اور عالم اسلام میں مزید فرقے بنے اور مسلمانوں نے متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوط نہیں پکڑا تو یہ قوم برباد اور ختم ہو جائے گی اور کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں۔ رب المسلمین نہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے
o جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں اللہ ایسی قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
جب کوئی قوم خود اپنی تباہی اور بربادی چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے منظور کر لیتا ہے اور جب کوئی قوم اپنا عروج چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کر لیتا ہے۔ اور اللہ ان دونوں باتوں سے بے نیاز ہے۔
سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ہے ’’مومن ایک دوسرے کا بھائی ہے‘‘۔ اس کے برعکس یہاں صورتحال یہ ہے کہ بھائی ہونا تو درکنار ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے نہیں چوکتے۔ آج جو پریشانی و ادبار ہے اور مسلمان تمام دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان نے تعمیری پہلو چھوڑ کر تخریبی رخ اختیار کر لیا ہے۔ تخریبی رخ یہ ہے کہ آپس میں تفرقہ ڈالا جائے اور ایک دوسرے کو برا سمجھ کر نفرت کی جائے۔
رسول اللہﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس تفرقہ بازی سے باہر نکلیں۔ رسول اللہﷺ کے ارشادات ہیں کہ اگر مسلمان فوج فاتح بن کر کسی ملک میں داخل ہو تو عبادت خانوں کو نہ گرایا جائے، منبر نہ توڑے جائیں، ان کے مذہبی پیشوا کو قتل نہ کیا جائے۔
رسول اللہﷺ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ دیگر مذاہب کے عبادت خانوں اور مذہبی پیشوا کا احترام کیا جائے لیکن آج مسلمان، مسلمان نمازی کو قتل کر دیتا ہے۔ مسلمان بے شمار مسالک، طبقات اور فرقہ جات میں منقسم ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا
حالانکہ!
o وہ کلمہ گو ہے،
o نماز پڑھتا ہے،
o روزہ رکھتا ہے،
o زکوٰۃ ادا کرتا ہے،
o حج ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں انگلینڈ کے دورے میں ایک اجتماع کے دوران میں نے علماء و مشائخ حضرات کو ایک تجویز پیش کی کہ دیو بند اور بریلی تو ہندوستان کے شہر ہیں۔ آج مسلمان جو دیو بندی اوربریلوی کے نام سے پہچانے جا رہے ہیں اور اگر مسلمانوں کی یہی مجبوری ہے کہ وہ کسی شہر کے نام کے بغیر پہچانے نہیں جا سکتے تو کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہے کہ وہ دیو بندی اور بریلوی کے چکر سے نکل کر مکی و مدنی کہلائیں۔
آپ کو حیرت ہو گی کہ اس کا اثر یہ ہوا کہ جتنے بھی علمائے کرام وہاں تشریف فرما تھے ہال کے پچھلے دروازے سے باہر چلے گئے۔
جب اسلام کا تذکرہ آتا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کا عمل و کردار زیر بحث آتا ہے۔ جب ہم کسی کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کر کے رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور اخلاق حسنہ پر عمل پیرا ہو تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ:
* مسلمان کا اپنے اللہ پر کتنا ایمان ہے؟
مسلمان رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر کس حد تک عمل پیرا ہیں؟
اور ہم کس فرقہ کا اسلام قبول کریں۔۔۔۔۔۔؟
ایک انگریز نے مجھ سے سوال کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔
* آپ بتایئے کہ مجھے کون سا مسلمان کریں گے؟
مقلد یا غیر مقلد۔۔۔۔۔۔؟
شیعہ یا سُنی۔۔۔۔۔۔؟
دیو بندی یا بریلوی۔۔۔۔۔۔؟
* وہ مسلمان!
جو خود جھوٹ بولتا ہو اور ایک مقرر کی حیثیت سے یہ کہتا ہے کہ ہمارے نبی مکرمﷺ نے ہمیں جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔
* وہ مسلمان!
جو غذا میں ملاوٹ کر کے اپنے بھائیوں کو مسلسل زہر کھلا رہا ہو۔
* وہ مسلمان!
جو مساجد میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کر رہا ہے
* آج مسلمان کا کیا کردار ہے؟
معاشرہ کس طرح ایسے افراد کو قبول کرے؟
آیئے! عزم کریں کہ
تفرقہ بازی مسلمانوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ سب کلمہ گو مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلمان تفرقہ سے اجتناب کرتے ہوئے دوسرے مسلمان کو برا نہیں کہے گا۔ خود کو جنتی اور دوسرے کو دوزخی گمان نہیں کرے گا۔ جب مسلمان اس جذبہ سے عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی خوشنودی کا باعث ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں امت مسلمہ میں پیدا کیا اور رسول اللہﷺ کی امت سے سرفراز فرمایا۔ ہمیں کلمہ اور نماز کی توفیق دی اور رسول اللہﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں پیدا کی۔ ہمیں چاہئے کہ رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں۔ آپﷺ کی تعلیمات اور اعمال کو اپنانے کی کوشش کریں۔ جب ہم رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں گے
تو۔۔۔۔۔۔
انوار نبوت سے ہمارے قلوب اور ارواح منور ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔
ہمیں دنیا جہاں میں عروج حاصل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔