Topics
سوال: اسلام کی اشاعت کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں عرب، وسط ایشیاء
اور برصغیر پاک و ہند کا نام خاص طور پر آنا ہے۔ آپ ہمیں وسط ایشیاء میں اسلام کی
اشاعت کے حوالے سے وہاں کے بزرگوں کے بارے میں بتائیں۔
جواب: تیمور کے زمانے سے وسط ایشیا
کی سرزمین ‘‘ارض رومان’’ کی اصطلاح کے طور پر معروف ہے مگر اس میں کلام نہیں کہ
وسط ایشیا میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیاء نے بنیادی اور مرکزی کردار ادا
کیا۔ جب عرب و عجم پر اموی اور عباسی خلفاء کی آمرانہ حکومتوں کا پراچم لہرا رہا
تھا اور جب فرد کی آزادی سلب کر لی گئی اور جب تخت خلافت پر براجمان ہر خلیفہ اپنے
ہر حریف اور سیاسی دشمن کو ‘‘اسلام اور خلافت کا باغی’’ قرار دے کر گردن زنی کا
مستحق سمجھتا تھا، ایسے دور میں صوفیاء نے خلافت و حکومت کے ایوانوں سے دور رہ کر
دین اسلام کی آبیاری کی اور مقدور بھر کوشش کی کہ حکومت کی قہرمانہ قوتوں سے دور
رہ کر ٹھوس عملی اور تبلیغی فرائض انجام دیئے جائیں، صوفیاء کے مختلف قافلے، مختلف
ادوار میں دنیا کے کونے کونے پہنچے اور اپنے مصالحانہ اور مخلصانہ کردار سے اسلام
کی حقانیت کو گمراہ لوگوں کے دلوں میں مرکوز کیا اور یوں انہیں اسلام کی روشنی سے
منور کرتے ہوئے اس وسیع حلقے کی ایک مضبوط کڑی بنا دیا جہاں عزت اور احترام کا
پیمانہ رنگ و نسل اور خاندانی وجاہت نہیں بلکہ اصل پیمانہ کردار اور تقویٰ ٹھہرا۔
وسط ایشیاء کے کوہ و دامن میں اسلام کا جو نور پھیلا، وہ بھی انہیں صوفیائے کرام
عظام کی مساعی جمیلہ کے طفیل ہوا۔ صوفیاء کی خانقاہیں صدیوں تک علم و عرفان کے
مراکز کا کردار ادا کرتی رہیں۔ خیوا، سمرقند، بخارا، نیشاپور ایسے شہروں کا شہرہ
دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔ روسی زاروں کے زمانے میں وسط ایشیا کے مسلمانوں اور
مسلمان حکمرانوں پر زندگی اجیرن کر دی گئی۔
روسی زاروں کا ظالمانہ شکنجہ جب وسط
ایشیا کے مسلمانوں کے مسلم تشخص کو مٹا ڈالنے کے درپے تھا، ظلم و جفا کے اس دور
میں مسلمانوں کی مزاحمت اور بقا کی چنگاری کا کردار وسط ایشیا کے اسی نظام خانقاہی
نے ادا کیا۔ 1917ء کے کمیونسٹوں کے خونیں انقلاب نے وسط ایشیا کی اجتماعی زندگی کو
تہ و بالا کر دیا۔ زاروں کے شاہی استبداد کی جگہ ملحد کمیونسٹوں اور سوشلسوں نے
جگہ لے لی۔
کئی اعتبار سے مارکس، اینگلز، لینن
اور اسٹالن کی معنوی اولادوں کے ہتھکنڈے ان مظالم سے کہیں زیادہ سخت اور سفاک تھے
جو زاروں کے زمانے میں وسط ایشیائی مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔ سابقہ سویت یونین کے
ایک سابق صدر خروشیف کے دور میں مسلماناں وسط ایشیا کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔
لیکن اس سب کے باوجود آخر وہ کون سا عنصر تھا جس نے مسلمانان وسط ایشیا کی زندگی
میں حرارت باقی رکھی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے مغربی ماہرین نے سیاحوں کے
روپ میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے سے قبل، سوویت روس کا دورہ کیا اور عمیق نظروں سے
اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔
مذکورہ ماہرین اور سیاح وسط ایشیا کے
گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہاں مسلمانوں کی بقاء اور ان میں مذہب
کی حرارت کا باعث یہاں کا نظام خانقاہی تھا اور ہے۔ اس نظام خانقاہی کے مختلف
سلاسل نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کو باہم مربوط اور متحد رکھا۔ وسط ایشیا کے نظام
خانقاہی میں ‘‘شاہ زندہ’’ کے مزار اور مزار سے متصل دینی مدرسے کو ممتاز مقام حاصل
ہے۔ یہ مزار ریاست ازبکستان کے معروف عالم شہر سمرقند میں واقع ہے اور آج بھی مرجع
خاص و عام ہے۔
‘‘شاہ زندہ’’ کے مزار سے متصل ایک
قدیم اورگہرا کنواں ہے۔ روایت یہ کہ ‘‘شاہ زندہ’’ جب اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے
لئے یہاں آئے تو ان کے ہمہ دم پھیلتے اثرات سے منفی تاثر لے کر مقامی کرداروں سے
جھگڑاہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس جھگڑے نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی۔ ‘‘شاہ زندہ’’
اپنے مٹھی بھر میریدان سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ ایک خونریز جنگ میں جب سبھی مرید
جان سے ہار گئے۔ ‘‘شاہ زندہ’’ اپنے حجرے سے متصل اس کنویں میں اس طرح آرام سے اتر
گئے جیسے سیڑھیوں سے اتر رہے ہوں۔ اس کے بعد وہ کبھی نظر نہ آئے۔ ان کا اصل نام
قاسم ابن عباس تھا۔ قاسم ابن عباس ‘‘شاہ زندہ’’ کہلائے جاتے ہیں۔
‘‘شاہ زندہ’’ کے مزار پر ازبکستان کی وسیع آبادی کے زائرین کا ہر وقت جمگٹھا لگا
رہتا ہے۔ زائرین کوشش کرتے ہیں کہ مزار کی زیارت پر جانے کے لئے خصوصی لباس زیب تن
کیا جائے۔ یہ لباس روایتی ہے جو رنگین لمبی لمبی پٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور
گھرارہ فراک کی طرح سلا ہوتا ہے۔ مقامی زبان میں اس خصوصی لباس کو ‘‘ایکات’’ کہا
جاتا ہے۔ مذکورہ مزار کا تعویذ لکڑی کا بنا ہوتا ہے جس پر انتہائی دلکش نقش و نگار
بنائے گئے ہیں۔ یہ نقوش بھی لکڑی کے ہیں۔ لوگ قطار در قطار مزار کے اندر داخل ہوتے
ہیں اور تعویذ کو عقیدت و محبت سے ہاتھ لگاتے ہیں۔ عورتیں نومولود بچوں کو خصوصی
طور پر ساتھ لاتی ہیں اور بچوں کے ہاتھ اور کندھوں کو مزار سے مس کرتی ہیں۔ ایسا
کرتے ہوئے انہیں مکمل یقین ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کو بیماریوں سے نجات ملی رہے گی۔
حیرت کی بات ہے کہ روشنی غلبے کے دوران لادین اور الحاد پرست روسی حکمران ازبکوں
کے اندر سے اس عقیدت کو مٹا ڈالنے میں ناکام رہے اور یہ بھی کہ ازبکستان میں شرح
خواندگی سو فیصد ہے، اس کے باوجود لوگوں کی مزاروں سے عقیدت دیدنی ہے۔
احمد یاساوی کی خانقاہ کو بھی وسط
ایشیاء میں بلند مقام حاصل ہے۔ تاریخ تصوف میں احمد یا ساوی کو عزت و حرمت کی نگاہ
سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک الگ سلسلہ تصوف کی بنیاد رکھی ان کا مزار ترکستان
کے قصبے میں ہے۔ وہ ترک النسل وسط ایشیا مسلمانوں کے سب سے بڑے بزرگ اور صوفی تصور
کئے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 1166ء میں ہوا تھا۔ پرشکوہ مزار کو نیلی ٹائلوں سے
مزین کیا گیا ہے اور طرز تعمیر تیموری ہے۔ مزار کے اندر اور باہر اور تعویذ پر
قرآنی آیات کی کلاسیکی خطاطی عجیب بہار دیتی ہے۔ صدیاں گزر گئیں مگر اس کے باوجود
اس کے جامل میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کے مزار کو دیکھ کر بے ساختہ خواجہ بہاؤ
الدین زکریاؒ کا مزار یاد آ جاتا ہے۔ دونوں مزاروں کا طرز تعمیر اور اندرونی حیرت
افزا خاموشی حیرت انگیز حد تک مماثل نظر آتی ہے۔ گذشتہ دس برس سے اس مزار کی تزئین
نو کا کام جاری ہے، سرمائے کی کمی، سوویت یونین کا ٹوٹ جانا اور اب نو آزاد ریاست
کی اندرونی کمزوریاں، یہ سب مل کر اس مزار کی آرائش کی تکمیل میں سد راہ ہیں۔
احمد یاساوی کے مزار پر قزاخ عورتیں
بکثرت آتی ہیں۔ ان کے لباس میں سفید رنگ غالب نظر آتا ہے۔ رویات ہے کہ احمد بزرگ
کو سفید رنگ (سنت رسولﷺ میں) سب سے زیادہ پسند تھا۔ زمانہ قدیم میں ان کے مزار کو
اولگ خان کی بیٹی نے تعمیر کروایا تھا۔ اولگ خان تیمور خان کا بیٹا تھا اور ان کی
بیٹی قزانشاں کے مشہور حکمران ازبک خان المعروف ابوالخیر خان سے بیاہی گئی تھی۔
احمد یاساوی کے مزار کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ ان کی قبر کا تعویذ ہرن کی
سینگوں سے بنایا گیا تھا۔ مدتیں گزرنے کے باوجود تعویذ کے رنگ میں کوئی فرق نہیں
آیا۔ دلچسپ بات یہ کہ روسی استبداد اور قبضے کے دوران اس مزار کو سرکاری عجائب گھر
کی شکل دے دی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ریاست کے مسلمانوں کے دلوں میں بزرگ
موصوف کی عظمت و محبت کا نقش مٹایا نہ جا سکا۔ احمد یاساوی کو قزانشاں میں ‘‘قومی
بزرگ’’ کا درجہ حاصل ہے۔
وسط ایشیاء کے ایک چھوٹے سے خطے ‘‘وادی
فرغانہ’’ کو برصغیر پاک و ہند میں خاصی شناسائی حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغلیہ
سلطنت کے بانی مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر فرغانہ میں پیدا ہوئے۔ تاریخ مغلیہ
سے معمولی واقفیت رکھنے والا ہر فرد جونہی وادی فرغانہ کا نام سنتا ہے، اس کے دماغ
میں بابر کا نام گونجنے لگتا ہے۔ اس وادی میں ‘‘شاہ مردان’’ کا مزار لوگوں کو اپنی
طرف بلاتا ہے۔
گرچہ وہ ریاست سنی العقیدہ مسلمانوں
کی اکثریت سے ہے، اور اہل تشیع کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، اس امتیاز کے
باوجود اہل تشیع اور سنی العقیدہ مسلمان بکثرت شاہ مردان کے مزار پر حاضری دیتے
ہیں اور اپنے مسلکی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اتحاد و یگانگت کا ثبوت فراہم
کرتے ہیں۔
یہ ریاست جہاں اس عظیم المرتبت انسان
کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس علاقے میں حضرت بہاؤالدین نقش بندیؒ کا مزار بھی واقع ہے۔
تاریخ تصوف میں حضرت بہاؤالدین نے سلسلہ نقشبندیہ کی بنیادیں رکھیں۔ بخارا کے
مضافات میں ان کا مزار لاہور میں داتا گنج بخشؒ کی یاد دلاتا ہے۔ متصلہ ریاست
تاجکستان میں حضرت یعقوب چرخی جو حضرت بہاؤ الدین کے مرید باصفا تھے، کامزار دو
شنبے کے مضافات میں خواجہ احرار کا مزار عقیدت مندوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔
ماسکو یونیورسٹی کے معروف محقق ڈاکٹر
زیرانوف جنہیں وسط ایشیاء میں سلسلہ خانقاہی پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے، کا کہنا ہے
کہ ‘‘سٹالن کے آخری دور میں تاجکستان، قزاقستان اور ازبکستان میں واقع صوفیاء کے
مزاروں کو سرکاری سرپرستی میں منہدم کرنے اور ان سے متصلہ مدرسوں کو تباہ کرنے کی
دانستہ کوششیں کی گئیں۔ مقصد یہ تھا کہ وسط ایشیاء کے مسلمانوں کی مرکزیت اور
اتحادی مراکز کو ختم کر دیا جائے کہ بعد ازیں انہیں منتشر کرنے اور ان کی باہمی
اخوتی قوت کو پارہ پارہ کرنے میں آسانی رہے۔ سٹالن کے کار پردازوں کو اس وقت حیرت
انگیز حد تک شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ خواجہ احرار اور حضرت یعقوب کے
مزارات کو منہدم کرنے کے لئے چل پڑے۔ خواجہ احرار کے سجادہ نشین اس مزاحمت میں کام
آ گئے مگر ان کے قتل کے بعد ان کے جانشینوں نے اسٹالن کے جانشینوں کو چین سے نہیں
بیٹھنے دیا۔ خرو شیف کے زمانے کے پہلے سال جب خواجہ احرار کے خاندان کے ایک فرد کو
تاحیات مزار کا مہتمم مقرر کیا گیا تو یہ گویا وسط ایشیاء بھر میں جال کی طرح
پھیلے نظام خانقاہی کا ایک بار پھر غلبہ تسلیم کئے جانے کے مترادف تھا۔ُُ
زیرانوف مزید لکھتا ہے:
‘‘یہ بات حقیقت کی طرح نوٹ کی جائے
کہ وسط ایشیاء کے صوفیاء اور ان کے اولین سجادہ نشین صرف معنوں میں سجادہ نشین
نیہں تھے بلکہ جہاد، علم اور اسلام کے دونوں بنیادی جذبوں کی وہ عملی تفسیر بھی
تھے۔’’
مسٹر زیرانوف کے مذکورہ بالا بیان کی
تصدیق ایک اور روسی محقق جی پی زنیساروف کی تازہ ترین کتاب ‘‘خارزمین لیجنڈز’’ بھی
کرتی ہے۔ خوارزم کے علاقے میں خصوصاً دریائے آمواز کے زیریں علاقے میں سلطان اویس
بابا (جنہیں مختصراً سلطان بابا کہا جاتا تھا) کا مزار خاصا شہرت یافتہ ہے۔ جی پی
زنیساروف کا کہنا ہے کہ خوارزم بھر میں کوئی دوسری خانقاہ شہرت، دلکشی اور مقبولیت
میں سلطان بابا کے مزار سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بحیرہ ارال کے جنوب میں واقع سید
چنار کا مزار اور ملحقہ مدرسہ بھی صدیوں سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
افغانستان کے تاجک قبیلہ کے ہزاروں عالم اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔ بحیرہ
ارال کے جنوب میں ہی علاقہ ‘‘گوئیک ٹیپی’’ ایک صدی تک اسلام دشمن قوتوں کی نگاہوں
میں کھٹکتا رہا۔ یہاں کے معروف بزرگ خواجہ قربان مراد نے 1881ء میں جنگ ‘‘گوئیک
ٹیپی’’ میں جہاد کی بے مثل داستانیں رقم کیں۔ اگرچہ وہ دو سو گیارہ دنوں کے محاصرے
کے بعد شہید کر دیئے گئے مگر جاں فروشی، اسلام اور جہاد سے محبت کی لافانی
داستانیں رقم کر گئے۔ جن کی خوشبو آج بھی وسط ایشیاء کی رومان پرور فضاؤں کی سیر
کرنے والوں کو واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ اور پلک جھپکتے ہی مقام جاں کو معطر کر
دیتی ہے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے