Topics

‘‘روحانیت اور قلب’’

سوال: آپ نے اپنی تحریروں میں بے شمار جگہ فرمایا ہے کہ انسان ایسا پتلا ہے جو اندر سے کھوکھلا ہے اور روح نے اس کے اندر حرکت پیدا کی ہے۔ آپ ذرا تفصیل سے بیان فرما دیں کہ درحقیقت انسان کیا ہے۔ یہ نفس کیا چیز ہے اور لطائف ستہ جن کا ذکر بے شمار اولیاء نے اپنی تحریروں میں کیا ہے، کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ نے جزا سزا کا دارومدار نیت کو قرار دیا ہے۔ ایک خیال آتا ہے اور انسان اس خیال کی بناء پر نیت کر لیتا ہے۔ اب اس کا نیت کرنے پر کس قدر اختیار ہے۔ اگر نیت پر کوئی اختیار نہیں تو جزا سزا کا بیان فرما دیں۔ شکریہ

جواب: انسان کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ انسان کس چیز کا نام ہے! مختلف ماہرین نے ہر زمانہ میں تحقیق کا دعویٰ کیا ہے۔ کسی نے کہا انسان بدن کا نام ہے، کسی نے کہا روح کا نام ہے۔ انسان بہت سے اوصاف کا مالک ہے۔ جب انسان کہتا ہے کہ ’’میں ایسا ہوں میں کیا کر سکتا ہوں یا میں نے یہ کام کیا اس ‘‘میں’’ یا ‘‘ہم’’ میں مکمل انسان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ جو مرکب ہے روح، قلب، نفس اور جسم کا۔ ہر فرد اپنی شخصیت سے پہچانا جاتا ہے، شخصیت فرد کی مکمل اکائی کا نام ہے۔ جس میں ظاہر و باطن دونوں شامل ہیں۔

ارث اپنی جگہ اور ماحول اپنی جگہ، بچہ بہت سے اوصاف اپنے ساتے لے کر آتا ہے ان میں کچھ اوصاف ایسے ہوتے ہیں جو تمام انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ بچے میں انفرادی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ ان سب پیدائشی خصوصیات کو ارث کہا جاتا ہے۔

خارجی دنیا میں ماحول اپنا اثر دکھاتا ہے۔ داخلی اور خارجی پہلوؤں میں یکجہتی بنانے کیلئے ایک اور قوت کارفرما ہوتی ہے۔ اس قوت میں روحانیت کا دخل ہوتا ہے۔ یہ ہی انسان کی تخلیقی قوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اچھی سی مٹی کے ایک پتلے میں روح پھونکی اور انسان سامنے آیا۔ جب انسان کو زمین پر بھیجا گیا تو آدم بن گیا۔ اس دنیا میں پہلا تہذیب یافتہ انسان آدم علیہ السلام ہیں۔

حدیث رسولﷺ ہے:

‘‘جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اور اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا۔ اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑا۔’’ سو وہ قلب ہے جس کی درستگی کے لئے عضویاتی طب کی درستگی ضروری قرار دی گئی ہے۔ اس گوشت کے ٹکڑے کے علاوہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور قوت ہے اس کو بھی قلب کا نام دیا جاتا ہے۔ آسانی کے لئے روحانی قلب کہہ لیجئے۔ اس کی نشوونما شخصیت کی نشوونما میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ غزالیؒ کے نزدیک قلب روح، نفس اور عقل، قلب ہی کے زیر اثر ہیں۔ یہ سب قوتیں جن کا منبع دراصل قلب ہے، ایک ساتھ ایک نہج پر پروان چڑھتی ہیں تو شخصیت کی صحیح تعمیر ہوتی ہے۔

انسان دس اجزاء سے مرکب ہے۔ پانچ مادی اور پانچ فریادی۔ مادی اجزاء میں عناصر اربع اور نفس شامل ہیں۔ فریادی اجزاء قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ ہیں۔ ان غیر مادی مجرداجازء کو لطائف خمسہ کہا جاتا ہے۔ بعض صوفیاء نے اپنی اصطلاح میں نفس کو بھی شامل کیا ہے اور اس مجموعہ کو لطائف ستہ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح عوام و خواص میں مشہور ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں کہ نفس کو لطائف میں شامل کرنا بوجہ اس کے مادی ہونے کے تغلیباً ہے مادی کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ مادہ اس کا جزو ہے۔ جیسے بدن انسانی دوسرے یہ کہ خود مادہ حلول کر رہا ہو۔ یہاں پر نفس کو دوسرے معنوں میں مادی کہا جاتا ہے کیونکہ نفس جو قوت واعیہ الی الشہوت منبع فی جمیع البند ہے لہٰذا مادی ہے۔

***
نفس کا لفظ یا پھر تنفس سے ہے۔ کسی شخص کی ذات کو اس کا نفس کہتے ہیں۔ علامہ ابوالقاسم نے ‘‘روضی الانفس’’ میں لکھا ہے کہ روح اور نفس ایک ہی واحد شئے ہے۔ فرق صرف اوصاف کی وجہ سے ہے۔ جو چیز فرشتہ ماں کے پیٹ میں پھونکتا ہے روح ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے کسب اخلاق و اوصاف حمیدہ یا زمیمہ کرتا ہے۔ بدن سے عشق و محبت پیدا کر لیتا ہے اور مصالح بدن میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس پر لفظ نفس بولا جاتا ہے۔ نفس اور روح کے درمیان فرق باعتبار صفات کے لئے ہے نہ کہ بااعتبار ذات کے لئے پس نفس انسان کے اندر ایک قوت ہے جس سے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے خواہ وہ خواہش خیر کی ہو یا شر کی انسان نفس کے قبضہ میں نہیں بلکہ نفس انسان کے قبضہ میں ہے۔

بچہ سلیم فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ معصوم ہوتا ہے۔ ماحول، اس میں اچھائی، برائی، نیک و بد کے اثرات اجاگر کرتا ہے، نفس کی نشوونما ہوتی ہے۔ تصور کے تین درجات ہیں ورنہ اولیٰ میں نفس کا نام مطمئنہ ہے۔ یہ درجہ اطمینان نفس کا ہے اس میں سکون کامل یا نام پیدا ہو جاتا ہے۔ درجہ ثانی میں لوامہ ہے۔ یہ غیر کامل وغیرہ تام ہے کشمکش ہے درجہ ثالثہ میں امارہ بالسو ہے۔ یہ عدم سکون (ملق) ہے۔ نفس مطمئنہ امور خیر میں مقاومت تو نہیں کرتا لیکن وساوس و خطرات پیش آ جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہر عضو کو کمال بخشا ہے۔ اگر وہ کمال حاصل نہ ہو تو اسے بے چینی اور اضطراب رہتا ہے۔ مثلاً آنکھ کا کام دیکھنے کا ہے اور کان کا کمال سننے پر، جب ان اعضاء کے وہ قویٰ سلب ہو جائیں جن سے کمالات وابستہ تھے تو ان کے جاتے رہنے سے کمی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ قلب کا کمال قلب کا سرور، عیش اور اس کی لذت و شگفتگی حق تعالیٰ کی معرفت پر، اس کی محبت و انابت پر اور اس کی طرف شوق اور توجہ پر ہے۔ جب قلب اس دولت سے محروم ہو جاتا ہے تو سخت عذاب اور بے چینی میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ جیسے آنکھ اپنا نور کھو کر اور زبان اپنی گویائی کھو کر۔

جب شک سے یقین کی طرف، جہالت سے یقین کی طرف، غفلت سے ذکر کی طرف، گناہوں سے توبہ کی طرف، ریا سے خلوص، جھوٹ سے سچ کی طرف، سستی سے چستی کی طرف، غرور سے عاجزی کی طرف، اکڑ سے فروتنی کی طرف اور بے عملی سے عمل کی طرف آ کر اطمینان حاصل ہو جاتا ہے تو روح کو چین مل جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کی بنیاد نیکی اور خود آگہی پر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا، اپنا نائب بنایا۔ علم سکھایا، اس کو دنیا میں اپنی عبادت اور تسخیر کائنات کے لئے بھیجا۔ فرد جسم اور روح کا مرکب ہے۔ فرد اور خدا ایک ہی عمل کے حصے ہیں۔ انسان کا انسان سے، انسان اور فطرت کا فاصلہ دراصل مترادف ہے انسان اور خدا سے دوری کا۔ یہ بعد امراض ذہنی کا پیشرو ہے۔ ذات میں مکمل یکجہتی یک رنگی۔ قول و فعل میں ہم آہنگی ذہنی صحت کی علامت ہے۔ وہ شخص جو اللہ کے احکام کو صدق دل سے مانتا ہے۔ وہ اپنی ذات دیگر افراد اور خلق خدا سے خائف نہ ہو گا۔ دنیا میں رہنے والے بندوں سے محبت کرے گا، ان کا برا نہیں چاہے گا اس کو اپنی ذات پر اعتماد ہو گا۔ اس اعتماد کے لئے یقین کی ضرورت ہے اور یقین عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے۔ عقیدہ خدا کی وحدت سے پیدا ہوتا ہے وحدت اور کائنات میں رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ راز و نیاز گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے قرب، ذہن صحت اور اللہ تعالیٰ سے دوری ذہنی امراض کا سبب ہے۔

قرب کے مختلف درجات ہیں۔ ایک قرب تو حقیقی ہے جس کا ترجمہ ‘‘مل جانا’’ کیا جاتا ہے۔ یا ادراک، حقیقت یا اس کے ہم معنی جس لفظ سے چاہیں کر لیں یہ حق تعالیٰ کے ساتھ حقیقی قرب تو کسی کو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حق تعالیٰ جسم و مکاں سے پاک ہے۔ لامتناہی کو متناہی خط نہیں کر سکتا۔ دوسرے قرب کا تعلق خصوصیت سے ہے۔ جیسے اردو میں ہم کبھی یوں کہتے ہیں کہ ‘‘میں پاس ہوں، کہو کیا کہنا ہے؟’‘ یعنی میں سن رہا ہوں۔ اس میں پاس ہونے سے قرب علمی اور قرب سماع کا بیان مقصود ہے۔ کبھی ہم یوں کہتے ہیں کہ فلاں ہمارے قریب ہے۔ یعنی اس کو ہم سے خاص تعلق ہے۔ نیز کہتے ہیں کہ تم دور رہ کر بھی پاس ہو یعنی تم سے ہمارے دل کو خاص تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قریب کون لوگ ہوتے ہیں؟ وہ ہیں ‘‘ہاں! مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کریں۔’’

اللہ تعالیٰ سے قریب کے ذرائع ایمان اور عمل صالح ہیں۔ قرب نام ہے کامل ایمان، عمل صالح اور باکمال دین کا خصوصاً جب وہ اس طبیعت کا حامل بن جائے کہ دینی زندگی اور دینی احکام کی اطاعت طبیعت میں راسخ ہو جائے۔ زندگی کی ہر حرکت و سکون میں وہی بات بالبطع رغوبت پسندہ وار ادا کرنے کو جی چاہے جو خدا اور رسولﷺ کو پسند ہو اور اس کی مرضی ہو۔ علم اور عمل اور حال کا جمع کرنا طریقہ ہے قرب و رضا کا۔

ذہنی امراض کو باطنی امراض بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں قوت عقیلہ، شہویہ اور غضبہ کے افراط و تفریط والے درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے نمبر، جزیرہ نمبر۲ سفاہت نمبر۳ فجور نمبر۴ جمود نمبر۵ تہور اورنمبر۶ جبن۔ ان میں جہل، غرور و نخوت، حسد، ریا، حرص، طمع، شک، امل اور وسواس وغیرہ شامل ہیں۔

ان بیماریوں کا بنیادی سبب انسان کا اپنے رب کائنات اور اپنی ذات سے فرار ہے۔ اس فرار میں ماحول کا بہت عمل دخل ہے۔ اگر بچے کی نشوونما فطری طور پر نہ کی جائے تو وہ اپنے اندر مستقل طور پر ایک طرح کا خلاء محسوس کرتا ہے اور اگر معاشرہ اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے صحت مندانہ ذرائع فراہم نہیں کرتا تو پھر منفی رجحانات پروان چڑھتے ہیں، نیت میں فتور آ جاتا ہے، اخلاص ختم ہو جاتا ہے۔ فرد اس قسم کی بیہودہ حرکات ظاہر کرتا ہے کہ اس کا یا تو اپنے آپ کو بہت کمتر یا پھر کسی ملک کا حکمران سمجھنا، دنیا سے الگ تھلگ ہو جانا یا پھر دنیا کا ہی ہو جانا۔ خوراک و لباس سے بے زاری۔ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنا۔ اپنے آپ کو سب سے زیادہ نیک سمجھنا یا پھر سب سے بڑا گناہ گار گرداننا، اس کے علاوہ بے چینی، بے یقینی اور بے حسی کی علامتیں بھی ذہنی امراض کی غمازی کرتی ہیں۔

***
نیت! دل کا ایسی چیز کی طرف مائل ہو جانا جس کو اپنی غرض و نفع کے موافق سمجھتا ہے، نیت کہتے ہیں اور اس کے معنی ارادہ و قصد کے ہیں۔ ہر کام کیلئے پہلے علم کی ضرورت ہوتی ہے اور علم کے بعد اس کے عمل میں لانے کا قصد ارادہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی ہاتھ پاؤں ہلانے اور کام کرنے کی قدرت پیدا ہو گی۔ اس طرح وہ عزم اور پختہ میلان جس نے ہاتھ پاؤں ہلانے پر آمادہ کیا نیت کہلاتا ہے۔

رسول پاکﷺ کا ارشاد ہے:

‘‘حق تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کی طرف نظر نہیں فرماتے۔ لیکن تمہاری نیتوں اور اعمال پر نظر فرماتے ہیں۔’’

اپنی طرف سے صرف اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کا قصد رکھنا اور مخلوق کی خوشنودی و رضا مندی یا اپنی کسی نفسانی خواہش کی آمیزش نہ ہونے دینا اخلاص ہے۔ اخلاص کے وجوداً اور عدماً تین درجے ہیں۔ ایک یہ کہ فعل کے وقت غایت صحیح کا قصد ہو۔ یہ تو غایت اخلاص ہے اور یہی مقصود اور مرتبہ کمال ہے۔ دوسرے یہ کہ غایت فاسدہ کا قصد ہو۔ یہ اخلاص کے بالکل خلاف ہے۔ تیسرے یہ غایت صحیح یا غایت فاسدہ کچھ بھی قصد نہ ہو۔ بلکہ یونہی معمول کے مطابق ایک کام کر لیا جائے۔ اس کی اخلاص سے اتنا بعد نہیں جتنا دوسرے درجے کو ہے۔ نیت میں خلوص ذہنی صحت اور نیت میں فتور عدم اخلاص اور ذہنی بیماری کی علامت ہے۔

دوسرے مسلمان مفکرین کی طرح مولانا اشرف علی تھانویؒ ذہنی امراض کی بات اخلاق کی نسب سے کرتے ہیں کہتے ہیں ‘‘اخلاق کے تین اصول ہیں۔ اصل میں تین قوتیں ہیں جن سے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔

1۔ قوت عقلیہ

2۔ قوت شہویہ

3۔ قوت غضبیہ

بھلائی اور برائی کو سمجھنے کیلئے چاہے وہ دینوی ہو یا دنیاوی، دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک وہ قوت جس سے منفعت و مضرت کو سمجھے وہ قدرت ‘‘مدرک عقلیہ’’ ہے اور ایک یہ کہ منفعت کو سمجھ کر اس کو حاصل کرے۔ یہ ‘‘قوت شہویہ’’ کا کام ہے اور ایک یہ کہ مضرت کو سمجھ کر اس کو دفع کرے۔ یہ قوت ‘‘قوت غضبیہ’’ ہے۔ پھر ان تینوں سے مختلف اعمال صادر ہوتے ہیں۔ ان اعمال کے تین درجے ہیں۔

الف ۔افراط

ب ۔تفریط

ج۔ اعتدال

قوت عقلیہ کا افراط یہ ہے کہ اتنی بڑھے کہ وحی کو بھی نہ مانے۔ تفریط یہ ہے کہ اتنی گھٹے کہ جہل و سفہ (کمینہ پن) تک اتر آئے۔

اس طرح قوت شہویہ کا ایک درجہ افراط ہے کہ حلال و حرام کی بھی تمیز نہ رہے۔ بیوی، ماں اور بہن سب برابر ہو جائیں۔ اور ایک درجہ تفریط یعنی ایسا پرہیز گار بنے کہ بیوی اور بچوں سے بھی پرہیز کرنے لگے اور مال کا ایسا حریص ہو کہ اپنا پرایا سب ہضم کرنے لگے یا ایسا زاہد بنے کہ ضرورت کی چیزیں بھی چھوڑ دے۔ قوت غضبیہ کا افراط یہ ہے کہ بالکل بھیڑیا بن جائے اور تفریط یہ ہے کہ ایسی نرم طبیعت کا مالک ہو کہ کوئی جوتے بھی مارے یا دین کو برا بھلا کہے تب بھی غصہ نہ آئے۔ گویا کہ جذبات کا وجود نہ ہو۔

قوت غضبیہ کے افراط کا درجہ ‘‘جزیرہ’’ اور تفریط کا درجہ ‘‘سفاہت’’ کہلاتا ہے۔ قوت شہویہ کا افراط کا درجہ ‘‘فجور’’ اور تفریط کا درجہ ‘‘جمود’’ ہے۔ قوت غضبیہ کا درجہ افراط ‘‘تہور’’ اور حد سے گھٹا ہوا درجہ ‘‘جبن’’ ہے۔ یہ سب ذہنی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قوت عقلیہ کے اعتدال کا درجہ ‘‘حکمت’’ قوت شہویہ کا ‘‘عفت’’ اور قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ‘‘شجاعت’’ کہلاتا ہے۔

یہ اعتدال کا درجہ ذہن صحت کی علامت ہے۔

یہ تو چیزیں تمام اخلاق حسن و سینہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان میں تین درجے اعتدال کے یعنی حکمت، عفت اور شجاعت کے مجموعے کا نام عدالت ہے۔ باقی سب رزائل ہیں۔ انسان وہ ہے جس میں اعتدال ہے۔ یوں تو رزائل فطری محرکات بھی نفس کی ساخت میں شامل ہیں۔ لیکن جب تک وہ ان رزائل کی قوت سے عمل میں نہ لائے۔ اور ان کا ظہور صدور اعمال نہ ہو کوئی مواخذہ نہیں۔

****

Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے