Topics

‘‘شک کیا ہے’’

سوال: شک کیا ہے؟ اسے سالک کے لئے زہر کیوں کہا گیا ہے؟

جواب: ہماری پوری زندگی خیال کے گرد گھومتی ہے۔ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال پر قائم ہے۔

روحانیت میں خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن، ہر لمحہ ہمیں زندگی سے قریب کرتی ہے۔ پیدائش سے بڑھاپے تک زندگی کے سارے اعمال محض اطلاع کے دوش پر رواں دواں ہیں۔ کبھی ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ ہم ایک بچہ ہیں۔ پھر ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ یہ دور جوانی کا ہے اور پھر یہی اطلاع بڑھاپے کا روپ دھار لیتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کو لمحہ بہ لمحہ فیڈ کرنے والی اطلاع یا خیالات کے اندر شکست و ریخت کو کم سے کم کیا جائے۔ یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قوت ارادی کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ دماغ میں شک کی موجودگی ہے۔ آدمی زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے یعنی ایک سیکنڈ کے دوسرا سیکنڈ ایک منٹ کے بعد دوسرا منٹ وغیرہ۔

وسوسوں اور شک کی بنا وہم اور یقین پر ہے۔ بہت سی باتیں ہیں جن کو آدمی دشواری، مشکل، پریشانی، بیماری، بیزاری، بے عملی، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔ دوسری طرف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے۔۔۔سکون۔۔۔یہی وہ سکون ہے جس میں وہ ہر قسم کی آسانیاں تلاش کرتا ہے۔

آدمی کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے۔ یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے دماغ کے خلیوں میں ہر وقت عمل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر اس شک کی زیادتی ہو گی اسی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گی۔ یہی وہ دماغی خلئے ہیں جن کے زیر اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور اعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہیں۔

آدمی ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے۔ جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔ اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہو گا۔ بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے۔ اگر تلف نہیں ہو رہی تو سخت خطرے میں ہے اور یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔

آدمی کے دماغ کی ساخت اس کے اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو۔ جس کی وجہ سے یہ شک سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہو گی اسی مناسبت سے آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی اور جس مناسبت سے بے یقینی اور شک زیادہ ہو گا۔ زندگی ناکامیوں میں بسر ہو گی۔

خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ یہ روشنی اس روشنی سے جدا ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ آدمی یہ قاعدے مفہوم کرنے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جو روشنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آدمی یہ طرز عمل اختیار کرتا تو اس کے دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی۔ اس حالت میں وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف قدم اٹھاتا۔۔۔آدمی صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہے۔ اس پتلے سے جس کے قندر اس کی اپنی کوئی زندگی موجود نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘ہم نے اسے بجنی مٹی (خلاء) سے بنایا ہے۔’’

روشنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ روشنیوں کے عمل سے ناواقفیت اللہ تعالیٰ کے اس بیان سے منحرف کرتی ہے۔ جہاں تک انحراف واقع ہوتا ہے وہاں تک شک اور وہم بڑھتا ہے اور ایمان اور یقین ٹوٹ جاتا ہے۔ یاد رکھئے روحانیت اور دیگر تمام مخفی علوم میں یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ ہر ارادے اور عمل کے ساتھ یقین کی روشنیاں بھی کام کرتی ہیں۔۔۔روحانیت میں یقین کی تعریف یہ ہے:

‘‘یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو۔’’

ارادہ یا یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں۔ کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں حاصل کر کے ہی مظہر بنتا ہے۔

قرآن میں ہے:

‘‘لاریب ہے یہ کتاب اور اس کو ہدایت دیتی ہے جس کا یقین غیب پر ہے۔’’

یہاں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں کہی ہیں۔

‘‘لاریب’‘ کہہ کر ‘‘ریب’’ یعنی شک کی نفی کر دی۔ اب صرف غیب باقی رہ گیا جس کو یقین کا درجہ حاصل ہے۔۔۔اس کے معانی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دماغ میں شک کو جگہ دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ صرف یقین کو اس بات کی اجازت ہے کہ آدمی کے ذہن میں داخل ہو جائے۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

ماہرین روحانیت نے جو اسباق سالکوں کے لئے مرتب کئے ہیں ان سب کا منشاء دراصل یقین کو پختہ کرنا ہے۔ مسلسل ارتکاز توجہ اور مشق سے کسی ایک نقطہ پر خیالات کی روشنیاں اس حد تک مرکوز رہیں کہ شک اور بے یقینی یقین کی روشنیوں کا درجہ حاصل کر لیں تو خیال اور ارادہ کے تحت اس کا مظہر بننا ضروری ہو جاتا ہے۔

****

Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے