Topics
جواب: آج سائنس نے اس بات کا سراغ
لگا لیا ہے کہ دنیا میں موجود ہر شئے، اس میں آدم زاد ہو، کوئی درخت ہو، درخت کے
پتے ہوں، آبی مخلوق ہو، زمین کی مخلوق ہو، چوپائے ہوں یا پرندے، ساری مخلوق اپنے
جسم کے ساتھ ساتھ ایک اور جسم رکھتی ہے جو ظاہرہ آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ سائنس
دانوں نے ایسے کیمرے ایجاد کر لئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ گوشت پوست سے مرکب جسم
پر ایک اور جسم موجود ہے اور یہ جسم ایسی روشنیوں سے بنا ہوا ہے جو روشنیاں گوشت
پوست کی آنکھ سے تو نظر نہیں آتیں۔
لیکن ان کی موجودگی کا یقین کیمرے کے
لینس سے ضرور ہو جاتا ہے۔ سائنس نے یہ بھی تحقیق کیا ہے کہ جسمانی خدوخال کے اوپر
روشنی کا یہ آدمی یا روشنی کا یہ ہیولا کچھ دیر تک قائم رہتا ہے مثلاً ایک آدمی
کسی جگہ کچھ دیر کے لئے بیٹھا یا کھڑا رہا اور وہاں سے چلا آیا وہ آدمی یا وہ
پرندہ یا وہ چوپایا جس جگہ بیٹھا یا کھڑا رہا وہاں اس کا ہیولا چند سیکنڈ تک قائم
رہتا ہے۔
سائنس کی تحقیق سے الگ ہو کر کچھ
مشاہدات ایسے ہیں جو ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہیں۔ مثلاً یہ کہ دو آپس میں ملنے
والے دل یا جسم جدائی سے بے حال ہیں اور فراق کی گھڑیاں گن گن کر گزارتے ہیں۔ جب
ملے ہیں تو ہر دو افراد کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا
ہو، چونکہ یہ بات عام زندگی کا معمول نہیں ہے اس لئے آدمی اس کو ایک اتفاق یا بہت
سی دوسری باتوں کی طرح انہونی کہہ کر گزر جاتا ہے۔ جب کوئی بات یا کوئی ماں اپنے
چھوٹے بچے کو سینے سے لگا کر ایک محویت کے عالم میں ذہنی طور پر یکسو ہو جائے۔ تو
محسوساتی طریقے پر آدمی یہ قبول کرتا ہے کہ بچے کے جسم کے اندر سے کوئی چیز نکل کر
ماں یا باپ کے سینے میں جذب ہو رہی ہے بعض مرتبہ یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ
والدین کے اوپر ایک خمار کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس سے کوئی
حلیم الطبع آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ بچے کے اندر وہ کونسی شئے ہے
یا کونسی صفت ہے یا وہ کیا حرکت ہے جو سینے پر لٹانے کے بعد والدین کے جسم کے اندر
اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے؟ یہ وہی روشنی ہے جو روشنی اپنے پورے خدوخال کے ساتھ
اپنے پورے جسمانی اعضاء کے ساتھ کائنات کے ہر فرد کے جسم کے اوپر ہر آن، ہر لمحہ،
ہمہ وقت موجود ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے یا وہی روشنیاں ہیں جن روشنیوں کو کیمرے کے
لینس نے محفوظ کر کے دکھا دیا ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم ایک ایسی
قوم ہیں کہ جو چیزیں ہمہ وقت ہمارے سامنے آتی ہیں ہم ان کے اوپر بھی غور و تفکر
نہیں کرتے۔ مخلوق کے اوپر روشنیوں کے اس غلاف کا تذکرہ قرآن پاک میں واضح طور پر
بیان کیا گیا ہے ہم نے کبھی قرآن میں تفکر نہیں کیا۔ جب باہر سے کوئی چیز ہمیں ملی
تو ہم اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ زبان سے ہم یہ کہتے ہیں کہ مسلمان قوم ہی اشرف
المخلوقات کہلانے کی مستحق ہے۔ عمل ہمارا ایسا ہے کہ ہم چوپایوں کی صف میں کھڑے
ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ عیسائی، یہودی، ہندو دوزخی ہیں۔ اس کے
باوجود کہ ہم انہیں دوزخی کہتے ہیں ہم ان کے محتاج ہیں۔ ہم ان کی تحقیق اور ان کی
ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا میں اگر کوئی قوم یا فرد ان لوگوں کی تحقیق سے
اور ان لوگوں کی ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائے تو وہ فرد دنیا میں چیونٹی سے کم
حیثیت شمار کیا جائے گا اور اس کا اقوام عالم سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔
دوزخی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ذلیل و
خوار ہو، دوزخی کی تعریف یہ ہے کہ وہ مفلوک الحال ہو، دوزخی کی تعریف یہ ہے کہ وہ
غلام ہو، محکوم ہو، بڑی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو ہم دوزخی کہتے ہیں وہ مفلوک
الحال نہیں ہیں۔ بزعم خود ہم جنتی لوگ ان کے دست نگر ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں ہم
یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوزخ کا ایندھن ہیں ہم ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ کہنا کہ کون دوزخی ہے، کون جنتی
ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے لیکن کھلی آنکھوں سے جو چیز نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ
محکومی، محتاجی، دست نگری اور احساس کمتری جیسی صفات آج مسلمان قوم میں موجود ہیں
اور یہ صفات مسلمان قوم میں اس لئے موجود ہیں کہ وہ کلمہ ضرور پڑھتی ہے لیکن اس کا
کلمہ پڑھنا یقین کے دائرے میں داخل نہیں ہوا۔ ہر آدمی ہر مسلمان جو کچھ کہتا ہے
عمل اس کے خلاف کرتا ہے۔ کہتا یہ ہے کہ میں موحد ہوں شرک نہیں کرتا۔ عمل یہ ہے کہ
دولت کی پرستش کرتا ہے۔ ایسی چیز کی پرستش کرتا ہے جس کے بارے میں حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے عذاب الیم کی بشارت دی ہے۔ کہتا یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں یعنی
سلامتی میرا مسلک ہے۔ عمل یہ ہے کہ ہر آدمی اختلافی مسائل میں اور فروعی باتوں میں
پھنسا ہوا ہے، فرقے ہیں کہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر آدمی خود کو جنتی دوسروں کو
دوزخی کہتا ہے۔ حالانکہ کسی فرقے کے پاس اس بات کی سند نہیں ہے کہ وہ جنتی ہے اور
نہ وہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں دوزخی ہوں۔
یہ ساری باتیں کیوں ہیں؟
یہ سب اس لئے ہیں کہ مسلمان نے اپنا
مقام نہ پہچاننے کی گویا قسم کھا لی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں
کو ایمان والوں کو کائنات میں فضیلت بخشی اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کائنات میں تو
دور کی بات ہے زمین کے چھوٹے سے کرہ پر ذلیل و خوار ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں
سوچنے سمجھنے تفکر کرنے اور نت نئی ایجادات کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے؟
کیا ہمارے اوپر پہرے لگا دیئے گئے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تفکر نہ
کریں؟ قرآن تو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ تفکر کرو۔ اشیائے کائنات کی ماہیت میں
ڈوب جاؤ اور دیکھو کہ کائنات کی اشیاء میں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی صفات کام کر
رہی ہیں۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں وہ زمین پر
بوجھ بن جاتی ہیں۔ وہ محکوم اور غلام بن کر زندگی گزارتی ہیں۔ مسلمانوں کا دعویٰ
یہ ہے کہ رسولﷺ ہمارے ہیں۔ کتاب ہماری ہے۔ اللہ ہمارا ہے اور ہم کائنات پر حاکم
بنائے گئے ہیں۔ لیکن آج ہمارا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اللہ تعالیٰ بحیثیت رب کے سب کے رب
ہیں۔ بارش جب برستی ہے تو تمام زمین پر برستی ہے کسی مخصوص کھیت پر یا کسی مخصوص
کیاری پر یا کسی مخصوص ٹکڑے پر بارش نہیں برستی۔ جس زمین پر کسان ہل چلا دیتا ہے،
بیچ ڈال دیتا ہے وہاں بیج کی نشوونما ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت رب کے تمام
عالم کے رب ہیں۔ بحیثیت ربوبیت کے اللہ تعالیٰ کا فیض، اللہ تعالیٰ کے انعامات،
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، اللہ تعالیٰ کے علوم عام ہیں۔ بات وہی ہے کہ جب کوئی قوم
کوئی فرد تفکر کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو گہرائی میں استعمال کرتا ہے تو اسے
خصوصیت حاصل ہو جاتی ہے۔ بارش کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ زمین کی کوکھ کو جب کسان
کھول دیتا ہے یعنی زمین کے (Inner) میں
وہ ایسی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے کہ باہر سے کوئی چیز آئے تو اس میں محفوظ ہو جائے
تو۔۔۔۔۔۔بارش کے قطرے گہرائی میں جذب ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پھول کھلتے ہیں،
پھل لگتے ہیں، سایہ دار درخت اُگتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے۔ جب تک
کوئی قوم کوئی فرد اپنے (Inner) کے
اندر داخل ہو کر اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نہیں کریدتا وہ صلاحیتوں سے فائدہ
نہیں اٹھا سکتا۔ سائنس دانوں نے میٹر (Matter) کے اندر تفکر کیا۔ اپنے ذہن کی گہرائی سے (Matter) کی گہرائی کو تلاش کر کے اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی صفات کے چپکے
ہوئے پرت کو ادھیڑ توڑا نتیجے میں اس ایک شئے کی طاقت کو حاصل کر لیا۔ یہ ایک
مربوط نظام ہے جو ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ جتنے پیغمبر تشریف لائے
سب نے یہ بات نوع انسانی کے ذہنوں میں نقش کرنے کی کوشش کی کہ آدم زاد ایک طرف
گوشت پوست کے وجود میں قید ہے اور دوسری طرف اس کے اندر ایسی صلاحیتیں چھپی ہوئی
ہیں جو بیدار ہو جائیں تو کائنات اس کے لئے مسخر ہو جاتی ہے جب تک قوم اختلافی اور
لا یعنی باتوں کو چھوڑ کر تفکر اور تحقیق کو اپنا شعار نہیں بنائے گی اور اللہ
تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر نہیں کرے گی نہ اس دنیا میں عزت و احترام حاصل کر
پائے گی نہ اس دنیا میں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے