Topics

‘‘عالم اعراف اور عالم برزخ میں فرق’’

سوال: عالم اعراف اور عالم برزخ میں کیا فرق ہے؟

جواب: عالمین کے تین رخ ہیں۔ ایک رخ نورانی عالم ہے۔ دوسرا رخ روشنی کا عالم ہے۔ تیسرا رخ تخلیط یا عالم ناسوت کا عالم ہے۔

کائناتی فارمولوں کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ جب کائنات میں خدوخال ظاہر ہوتے ہیں تو زمان پردے میں چلا جاتا ہے اور جب کائنات کے اندر موجودات کی تصویریں خدوخال سے ماوراء ہو جاتی ہیں تو مکان، زمان میں پیوست ہو جاتا ہے۔ کائنات زمانیت میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے نزولی حرکت کہا جاتا ہے۔ جب مکانیت پس منظر میں چلی جاتی ہے تو اسے عمودی حرکت کہا جاتا ہے۔ نزول و صعود کا پورا سلسلہ لوح محفوظ پر نقش ہے۔ لوح محفوظ اور عالم ناسوت کے درمیان جو پردہ (Screen) واقع ہے اس کو برزخ کہا جاتا ہے۔ لوح محفوظ سے چلنے والی تصویریں جب عالم ناسوت میں خدوخال کے ساتھ مظہر بنتی ہیں اور مظہر بن کر لوح محفوظ کی طرف صعود کرتی ہیں تب لوح محفوظ اور عالم ناسوت کے درمیان ایک پردہ (Screen) آتا ہے جسے عالم اعراف کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہم اس بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ خالق کائنات کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اپنے تعارف کے لئے ایسی تخلیق عمل میں لائے جس تخلیق میں حافظہ ہو، فکر ہو، بصیرت ہو اور علوم سیکھنے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہوں۔ تا کہ مخلوق اپنے خالق کو پہچان سکے۔

تمثیلاً ہم اس بات کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔

اللہ ایک ذات ہے۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ ایسی کائنات بنانی چاہئے جو مکمل ہو اور کائنات کے افراد میں ایسے منتخب افراد ہوں جو مجھے پہچان سکیں اور ان افراد کا میرے ساتھ تعلق قائم ہو۔ جب اللہ نے ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ جس طرح موجود تھا عمل میں آ گیا۔ پروگرام کا پہلا مرحلہ عالم ارواح عمل میں آیا۔ عالم ارواح کے بعد دوسرا عالم ’لوح محفوظ‘ وجود میں آیا۔ لوح محفوظ پر کائنات کی ہر حرکت، کائنات اور ہر ہر لمحہ اور کائنات کے اندر جتنی نوعیں ہیں۔ اس نوع کے ہر ہر فرد کی اجتماعی فلم بن گئی۔

پھر اس پروگرام کو حرکت کے ساتھ مظاہراتی شکل و صورت دے دی گئی۔ جس عالم میں کائنات نے نوعی اعتبار سے مظاہراتی خدوخال اختیار کئے یعنی فلم کی یکجائی پروگرام نوعی اعتبار سے الگ الگ ہو اس عالم کو عالم مثال یا بزرخ کہتے ہیں۔ عالم مثال کی فلم جب انفرادی صورت میں ظاہر ہوئی اور جہاں نوعی پروگرام انفرادی صورت میں نشر ہو رہا ہے۔ یہ عالم ‘‘عالم ناسوت’’ ہے۔ عالم ناسوت نزولی حرکت کی انتہا ہے یہاں سے نزولی حرکت صعودی حرکت میں بدل جاتی ہے جسے عالم اعراف کہتے ہیں۔

****

Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے