Topics
جواب: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
حضور علیہ الصلوٰۃ کا ارشاد ہے کہ
‘‘جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، پس
تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔’’
اپنا عرفان رکھنے والا شخص ہی خالق
کائنات کا عرفان حاصل کر سکتا ہے اور عرفان نفس کے مراتب ہیں۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے تحت ہم اس
کی وضاحت کریں گے کہ عرفان نفس سے اللہ تعالیٰ کے عرفان کا کیا تعلق ہے؟ اور اللہ
تعالیٰ سے متعارف ہونے کے لئے پہلے اپنے نفس سے متعارف ہونا کیوں ضروری ہے۔ اس
سلسلے میں قرآنی تعلیمات کے نقطہ نظر سے انسان کے مندرجہ ذیل اوصاف زیر بحث کرتے
ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں ارض میں اپنا نائب بنانے والا
ہوں۔
ملائکہ نے عرض کیا:
یہ تو خون خرابہ اور فساد کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔
اور پھر آدم کو علم الاسماء عطا فرما
کر فرشتوں سے اس بات کا اقرار کرا لیا کہ جو علم آدم کو عطا کیا گیا، فرشتے اس علم
سے ناواقف ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان
کو کھنکھتی مٹی (خلا رکھنے والی) سے پیدا کیا، ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی،
انسان ہماری ہی سماعت سے سنتا ہے، ہماری ہی بصارت سے دیکھتا ہے اور ہمارے دیئے
ہوئے فواد (ذہن) سے سوچتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ کے تحت مندرجہ ذیل
باتیں زیر بحث آتی ہیں۔
۱۔ آدم کی خلافت اور نیابت
۲۔ نیابت اور خلافت کا علم
۳۔ اس علم (ایڈمنسٹریشن) کو استعمال کرنے کے لئے اختیارات۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ ہم نے اپنی
امانت (نیابت) سماوات، ارض اور جبال کو پیش کی، سماوات، ارض اور جبال نے اس امانت
(نیابت) کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اس بار کے متحمل نہیں ہو
سکتے۔ مگر انسان نے اس کو بے سوچے سمجھے قبول کر لیا پس تحقیق یہ ظالم اور جاہل
تھے۔
قرآن پاک ہمیں عرفان نفس کے سلسلے
میں جن علوم سے روشناس کراتا ہے وہ دو ہیں، ایک وہ علم جو معاشرتی اقدار کو قائم
رکھنے کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا وہ علم ہے کہ جس نے تخلیق کائنات
اور اس تخلیق میں عمل درآمد کرنے والے قانون کی وضاحت ہے، معاشرتی اقدار کو قائم
رکھنے والا سب کا سب علم شریعت کے نام سے موسوم ہے، تخلیق کائنات میں عمل درآمد
کرنے والا علم (علم نیابت) سب کا سب علم تکوین ہے۔
کوئی بھی انسان جب تک علم شریعت اور
علم تکوین کے ابتدائی مراحل سے نہ گزرے عرفان نفس حاصل نہیں کر سکتا، شریعت میں
علم پہلے اور عمل بعد میں آتا ہے، شریعت میں ذہن اور شعور کسی عمل کو اختیار کرنے
یا نہ کرنے پر مختار ہے، تکوین میں شعور انسانی کی جگہ شعور کائنات (انسانی
لاشعور) کام کرتا ہے۔ اس عالم میں وہی اختیارات استعمال ہوتے ہیں جو قدرت کی طرف
سے ودیعت کئے گئے ہیں، ان کا استعمال منشاء قدرت اور مشیت الٰہی کے تحت ہوتا ہے۔
شریعت اور طریقت دو الگ الگ چیزیں
نہیں ہیں، شریعت نام ہے معاشرتی پروگرام (علم) کا اور طریقت نام ہے اس پروگرام پر
عمل پیرا ہونے کا البتہ تکوین بالکل الگ علم کی حیثیت رکھتا ہے، علم نبوت میں اس
علم کا نام لدنی ہے اور یہ وہی علم ہے جس کی بناء پر آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے
سجدہ کیا۔ یہی وہ علم ہے جس کو قبول کرنے سے سماوات، ارض اور جبال نے معذرت ظاہر
کی۔ اور یہی وہ علم ہے جو کائنات میں انسان کے علاوہ کبھی دوسری مخلوق کو نہیں دیا
گیا، قرآن پاک میں اس علم کی نشان دہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں وضاحت
کے ساتھ کی گئی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت اور صاحب طریقت تھے، علم
شریعت یہ کہ ان کے پاس قوم کی رہنمائی کا پروگرام تھا اور طریقت یہ کہ اس پروگرام
کے تحت ان کو اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل تھا۔
نفس کا عرفان دو طرح ہوتا ہے، پہلا
یہ کہ ہمارا تخلیق کرنے والا کون ہے اور اس تخلیق میں خالق کی کیا کیا نشانیاں
موجود ہیں، ہم ان نشانیوں سے کس طرح وقوف حاصل کر کے خود کو پہچان سکتے ہیں۔ خود
کو پہچاننا یہ ہے کہ انسان اس کو تلاش کرے کہ اس کی تخلیق کا منشاء اور مقصد کیا
ہے، یہ بات ہم پہلے کسی مضمون میں سمجھا چکے ہیں کہ انسان کی حیثیت، خیالات،
تصورات اور احساسات سے باہر کچھ نہیں ہے، خیالات اور تصورات ہی زندگی ہیں۔ اگر
زندگی میں سے تصورات اور خیالات کو نکال لیا جائے تو زندگی کی حیثیت معدوم ہو جائے
گی۔ یہ بات معلوم کرنا کہ خیالات اور تصورات کا منبع (Source) کیا ہے اور یہ کس طرح بنتے اور عمل کرتے ہیں یعنی قدرت کا کونسا
نظام اس میں عمل کر رہا ہے، زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہو جاتی ہے۔
انسان کیوں مجبور اور کیوں بااختیار ہے، کیوں وہ خود پیدائش پر دسترس نہیں رکھتا
اور کیوں مرنے پر مجبور ہے، اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ فرشتوں اور جنات کی
موجودگی اس کی پیدائش کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی کونسی مشیئت کام کر رہی ہے، زمین،
ملائکہ، چاند، سورج اور بے شمار کہکشانی نظام اس کی خدمت کے لئے کس قانون کے زیر
اثر پابند ہیں۔
وسخرلکم ما فی السموات والارض جمیعا
منہ
اور ہم نے مسخر کر دیا تمہارے لئے
سماوات اور ارض کو اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب۔
وسخرلکم الشمس والقمر
اور ہم نے مسخر کر دیا تمہارے لئے
سورج اور چاند کو۔
وسخرلکم اللیل والنھار
اور مسخر کر دیا تمہارے لئے رات اور
دن کو انسان۔
انسان احسن تقویم ہوتے ہوئے کیوں
اسفل سافلین میں پڑا ہوا ہے؟
ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم
رددناہ اسفل سافلین عرفان نفس سے یہ سارے نکات واضح ہو جاتے ہیں۔
جب کوئی انسان ان حقائق کو سمجھنے لگتا ہے کہ ارض اور اس کے اندر کل اشیاء تسخیر
قمر تسخیر شمس اور تسخیر لیل و نہار میں اللہ تعالیٰ کا کون سا قانون کام کر رہا
ہے تو اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ انسان اور کائنات میں ہر موجود شئے اللہ
تعالیٰ سے ایک رشتہ مشترک رکھتی ہے۔ اسی رشتہ مشترک کی بناء پر کائنات میں ہر شئے
ایک دوسرے سے کسی نہ کسی عنوان سے روشناس ہے۔ ایک بچہ ستارہ کو اس لئے پہچانتا ہے
کہ بچے اور ستارہ کا ذہن تخلیقی رشتہ میں ایک ہی خالق کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے،
ایک بکری، انسان اور بھیڑیے کو اس لئے پہچانتی ہے کہ بھیڑیا، انسان اور بکری ایک
خالق اور مالک کی تخلیق ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ رشتہ انسان کو
عرفان نفس اور خالق کائنات کے عرفان کا وجدان عطا کرتا ہے، اور یہ وجدان اللہ
تعالیٰ کی صفت خالقیت سے قریب ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔
عرفان نفس کا دوسرا مرتبہ:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ارشاد
فرمایا:
مجھ کو بنانا ہے زمین میں خلیفہ۔
فرشتوں نے عرض کیا۔ یا اللہ! یہ فساد
اور خون خرابہ کرے گا اور دیکھئے ہم آپ کی حمد و ثنا میں لگے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جو کچھ میں
جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
اور پھر آدم کو علم الاسماء (صفات
الٰہیہ کا علم) عطا فرمایا، پھر فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ
یہ علم کیا ہے، فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرنے کے بعد کہا۔ ہم وہی جانتے
ہیں جو آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور آدم نے اللہ تعالیٰ کے ودیعت کردہ علم الاسماء
کو بیان کر دیا، اس کے بعد فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کریں، سب کے سب
سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نے نافرمانی کی اور وہ اللہ کے حکم سے منکر ہو گیا۔
سورۂ بقرہ:
اور جب کہا کہ تیرے رب نے فرشتوں سے
میں تخلیق کروں گا، ایک بشر بجنی مٹی (خلاء) سے پھر جب مکمل کر لوں اور اس میں
اپنی روح پھونک دوں تو تم سجدہ کرنا اس کو۔
جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے بشر (آدم کا
پُتلا) میں اپنی روح پھونکی، سجدہ کیا سب فرشتوں نے ایک ساتھ مگر ابلیس سجدہ کرنے
والوں میں نہ ہوا اور اس کو وہاں سے نکال دیا گیا لعنت اور پھٹکار کے ساتھ۔
(سورہ حجر)
آیات مندرجہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے
کہ آدم جس وقت تک پُتلا (خلا) ہے اس کو اللہ تعالیٰ بشر فرماتا ہے، جب اس خلاء کو
روح سے پُر کر دیا گیا۔ تو اس کا نام آدم ہو گیا، قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق
چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی قرآن نے وضاحت نہ کی
ہو
(سورۂ کہف)۔
آیئے! قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی
میں یہ معلوم کریں کہ روح کیا ہے؟
قرآن پاک میں ارشاد ہوا:
اے رسولﷺ! آپ سے سوال کرتے ہیں کہ
روح کیا ہے؟ آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کا امر ہے۔
(سورہ بنی اسرائیل)
اب دیکھئے! قرآن پاک امر کی تعریف کن
الفاظ میں کرتا ہے۔
‘‘اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ (امر)
کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کُن وجود میں آ جا، فیکون
وہ وجود میں آ جاتی ہے، اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے :
بشر پتلا ہے، پتلا خلاء ہے، خلاء یا
بشر میں اللہ تعالیٰ کا امر (روح) ہے جس کو اللہ تعالیٰ آدم فرماتے ہیں، روح اللہ
کا امر ہے اور اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے تخلیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے
تو کہتا ہے۔ عدم سے وجود میں آ جا اور وہ ہو جاتی ہے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے