Topics
سوال: جب ہم دنیا میں اپنی پیدائش کا مقصد تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اللہ سے ڈر کی
وجہ سے عبادت کرنے کی تلقین ملتی ہے جس کے نتیجہ میں ہمیں جنت دوزخ ملے گی۔ جو شخص
بچپن سے عبادت کر رہا ہو وہ بھی جنت کے ملنے پر شک میں پڑا ملتا ہے۔ آپ سے سوال ہے
کہ دنیا اور آخرت میں انسان کی کامیابی کا دارومدار کس چیز پر ہے؟
جواب: قسم ہے زمانہ کی انسان خسارہ
اور نقصان میں ہے۔ مگر لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو رسالت اور قرآن کی تعلیمات کو
اپنا کر اس پر عمل پیرا ہو گئے۔
(قرآن)
آیئے! اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ
تلاش کریں کہ انسان خسارہ میں کیوں ہے؟ رسالت اور وحدانیت پر ایمان اور یقین رکھنے
کی صورت میں وہ نقصان اور خسارہ سے نجات پا جاتا ہے۔
آج کی دنیا جس دور سے گزر رہی ہے وہ
سائنس کا دور ہے۔ یہاں ہر بات کو حجت اور دلیل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر دلائل
کے بغیر کوئی بات کہی جائے تو اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔
پیش نظر مضمون میں اس بات کی کوشش کی
گئی ہے کہ جو بات بھی کہی جائے موجودہ دور کی طرز کے مطابق دلائل اور حقائق پر
مبنی ہو۔ زمین و آسمان کے فاصلے ناپنے، چاند، سورج کی گردش معلوم کرنے اور چاند کو
مسخر کر نے کے خواب دیکھنے والی قوم ایک عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ زمین کے اوپر
اور زیر زمین پھیلے ہوئے وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کے قابل بنا دیا جائے۔
بڑے بڑے جہاز، آواز سے تیز رفتار طیارے، دیو ہیکل مشین، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ایٹم
اور ہائیڈروجن بم، خلائی سیارے اور اسپیس شپ وغیرہ، یہ سب انہی کوششوں کا نتیجہ
ہیں جہاں تک وسائل اور ان کی صلاحیت کے علم کا انکشاف ہوتا ہے۔ وسائل کے پھیلاؤ
اور وسائل کی زندگی یا حرکت میں کس حقیقی فارمولے کا عمل دخل ہے۔ اور اس فارمولے
کے پیچھے کون سی طاقت کام کر رہی ہے۔
اور اس طاقت سے کام لینے والی ہستی
کون ہے، سائنس اس مقام پر خاموش ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مادی دور کی اس
ترقی میں براہ راست قدرت کی پیدا کردہ اشیاء کا دخل ہے۔ مثلاً لوہا ہماری ہر ترقی
میں داخل ہے۔
آپ اسے کسی جگہ نہ پائیں گے ریل کی
پٹری میں، جہازوں کی تہہ میں، مشینوں کے کل پرزوں میں، وائرلیس اور خلائی سیاروں
میں، اونچی اونچی بلڈنگوں، سائنس کی بے شمار مصنوعات میں، مسجدوں، مندروں اور
گرجاؤں میں، کون سی ایسی جگہ ہے جہاں (کسی نہ کسی صورت میں ہی سہی اس کے وجود سے
انکار کیا جا سکتا ہو؟)۔
قرآن پاک کی زبان میں بتایا گیا ہے
کہ
‘‘اور ہم نے پیدا کیا لوہے کو بے
شمار صلاحیتوں کے ساتھ اور تحقیق اس میں انسانی دنیا کی ترقی کے لئے بڑی امکانات
ہیں۔’’
ہماری ذہنی کاوش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ
ہم لوہے یا لوہے کی قسم کی دوسری دھاتوں اور ارض پر موجود وسائل سے کس طرح فائدہ
اٹھا سکتے ہیں۔ ذہن کو جس طرح حرکت دی جاتی رہی۔ ہمارے سامنے فوائد یا نقصان آتے
رہے اور ہم نئی سے نئی اختراع کرنے پر قادر ہو گئے مگر انسان نے اس تلاش میں ہمیشہ
کوتاہی کی جس ہستی نے وسائل میں اتنی زبردست صلاحیتیں ذخیرہ کی ہیں وہ کون ہے اور
ان وسائل کی پیدائش سے اس ہستی کا منشاء اور مقصد کیا ہے؟ ہم نے یہ بھی معلوم کرنے
کی کوشش نہیں کی کہ چیزوں کے کارآمد بنانے کی صلاحیتیں ہمارے ذہن میں کس طرح اور
کہاں سے آتی ہیں؟ ذہن اور وسائل کی صلاحیتوں کا باہمی اشتراک کن خطوط پر قائم ہے؟
ایک طرف خود لوہے کی صلاحیت ہے اور
دوسری طرف انسان کے ذہن میں اس صلاحیت سے حسب منشاء فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود
ہے۔
قرآن کریم کا یہ ارشاد کتنا واضح ہے
کہ ہم نے لوہے کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ اس لئے پیدا کیا کہ انسان اس سے زیادہ
سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی صلاحیت کا تذکرہ فرما کر یہ بتا
رہا ہے کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانا چاہے تو
وہ ہر چیز پر قادر ہو سکتا ہے۔ آیت مقدسہ میں تفکر کے بعد یہ حقیقیت منکشف ہو جاتی
ہے کہ موجودات میں ہر شئے اپنے اندر دو(۲) وصف رکھتی ہے۔ ایک وصف ظاہری اور دوسرا باطنی۔
مثلاً پانی ظاہری طور پر رقیق اور سیال مادہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کی باطنی
قوت باوصف اسٹیم ہے جو بڑی سے بڑی مشین کو معمولی جھٹکے کے ساتھ حرکت میں لے آتی
ہے۔ کسی بھی درخت کا کوئی بیج باطنی طور پر اپنے اندر بہت بڑا درخت رکھے ہوئے ہے۔
کوئی بھی پھل اور اس کے اندر خوشبو اور ذائقہ۔ کائنات میں کوئی وجود اس وصف سے
خالی نہیں ہے۔ اور ہر موجود شئے دو اوصاف سے مرکب ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی ذہنی فکر
اور کوششوں سے کسی نئی چیز کو عالم وجود میں لے آتا ہے۔ تو اس کی پہلی اور آخری
خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ چیز اس کے تعارف کا سبب بن جائے۔ یہ وصف انسان کو اللہ
تعالیٰ سے ملا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
‘‘میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے
محبت کے ساتھ مخلوق کی تخلیق اس لئے کی کہ میں پہچانا جاؤں۔’’ (حدیث قدسی)
اس فرمان خداوندی کے تحت ہر چیز کو وجود میں لانے والی ہستی کا منشاء اور مقصد یہ
ہے کہ کائنات میں جس قدر مصنوعات ہیں وہ اس کے تعارف کا ذریعہ قرار پائیں۔ رسالت
کا اقرار اور تعلیم ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اگر اپنے باطنی وصف
کے علم کو حاصل کر لے تو وہ موجودات کو وجود میں لانے والی ہستی کو پہچان سکتا ہے۔
جب تک انسان اس مقصد کو پورا نہ کر دے بیشک وہ خسارے اور نقصان میں ہے۔
ذکر کردہ حقائق کی روشنی میں ہمارے
لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم انسان کے باطنی وصف کی تشریح کریں اور یہ بتائیں کہ
باطنی وصف سے مراد کیا چیز ہے اور اس علم کو ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ کسی بھی
حقیقت کو پوری طرح اس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ اس کی اصل سے واقفیت ہو، اصل سے
وقوف اس ہی وقت ممکن ہے جب ہم اس کی جزئیات کا پورا پورا علم رکھتے ہوں۔
یہاں زیر بحث انسان اور اس کا باطنی
وصف ہے۔ ذہن کا یہ تجسس فطری ہے کہ انسان کیا ہے۔ دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھا۔
یہاں پہنچنے تک اسے کن منازل سے گزرنا پڑا۔ اور پھر ایک وقت معینہ کے بعد کسی
دوسری منزل کی طرف لوٹ جانے پر کیوں مجبور ہے۔ نہ خود پیدائش پر اس کی اپنی مرضی
کا انحصار ہے اور نہ ہی وہ موت پر کسی قسم کی دسترس رکھتا ہے۔ آخر وہ کون سا نظام
ہے جس کی گرفت اتنی مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات کی ہر شئے مقید اور محکوم نظر
آتی ہے۔ اس کا حل قرآن پاک کی تعلیم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ‘‘کن’’ یعنی کسی
ہستی نے فرمایا ’عالم وجود میں آ جا‘ جیسا کہ ہمارے ارادہ میں ہے۔ ‘‘فیکون’’ پس وہ
کائنات موجود ہو گئی۔ ہمارے سوچے سمجھے پروگرام اور منشاء کے مطابق۔ مگر وہ ہم سے
اور ہمارے پروگرام سے بے خبر تھی اور اس پر حیرانی کا عالم طاری تھا۔ جب ہم نے
چاہا کہ اس کی (کائنات) حیرانی ختم ہو جائے تو ہم نے فرمایا ‘‘الست بربکم’’ اے
موجودات!
اس بات کا عہد کر کہ میں تیرا رب
ہوں۔
‘‘قالو بلیٰ’’ موجودات یا کائنات اور
انسان نے کہا۔ جی ہاں ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔’’ عالم
موجودات میں جن نے ربانیت اور وحدانیت کا عہد کر کے اپنے مخلوق ہونے کا اعتراف کیا
تھا۔ وہی اصل انسان اور اس کا باطنی وصف ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسان ازل
میں ہی منشاء الٰہی پورا کرنے کا اقرار و عہد کر چکا ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ
انسان اپنے عہد کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ اسے مختلف منازل سے گزر کر باطنی وصف کے
ساتھ ایک اور ظاہری وصف (جسم) دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا اور ساتھ ہی بے شمار
وسائل (مخلوقات) بطور نشانی پھیلا دیئے تا کہ انسان تفکر کے ذریعہ اس بات کو سمجھ
سکے کہ جب اس کے استعمال کی کوئی بھی چیز (وسائل) اس قانون سے باہر نہیں ہے کہ ہر
شئے دو اوصاف سے مرکب ہے تو پھر انسان اس قانون سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس
طرح درخت کا کوئی بیج اپنے اندر ایک درخت رکھے ہوئے ہے اسی طرح انسان کا یہ مادی
جسم اپنے اندر موجود باطنی صلاحیتوں کا تابع ہے۔ جنہیں ہم روح کی صفات سے تعبیر
کرتے ہیں۔ روح کی حرکت ہی دراصل انسانی حرکات و سکنات کا سبب بنتی ہے۔ اگر کسی وجہ
سے یہ حرکت معطل ہو جائے تو انسان کی کوئی بھی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ عام
مشاہدہ یہ ہے کہ جسم ایک وقت معینہ کے بعد معطل اور بے کار ہو جاتا ہے۔ حالانکہ
جسمانی طور پر اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ کسی بھی مذہب سے تعلق
رکھنے والا ہر فرد جسم کے اس تعطل کو موت کا نام دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ جسم کو حرکت
دینے والی شئے نے اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ یہی وہ باطنی رخ یا انسان
کا باطنی وصف ہے جس کو ہم روح کہتے ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں ہم اس نتیجہ
پر پہنچتے ہیں کہ پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے۔ پہلا نظام وہ ہے
جہاں اس نے خالق حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشاء کو پورا کرنے کا عہد کیا۔ دوسرا
نظام وہ ہے جس کو ہم عالم ناسوت، دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں۔ اور تیسرا نظام
وہ ہے جہاں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے۔ انسان کی
کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اپنی ذات اور اس وصف کا عرفان تلاش کر لے جس
نے اللہ تعالیٰ کے رو برو اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کو
پورا کر کے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر لے گا۔
رسالت و نبوت اس تعلیم کو تصوف یا
طریقت کا نام دے کر ہمارے سامنے ان الفاظ میں پیش کرتی ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
مقصد حقیقی کو وہی شخص پا سکتا ہے جو اپنی ذات، باطنی رخ یا روح کا عرفان رکھتا
ہو۔ ورنہ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق وہ خسارہ اور نقصان میں رہے گا۔
حضرت عبداللہ حنیف کے دو مرید تھے۔
ایک کو احمد کہہ کر اور دوسرے کو احمد مہہ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور احمد کہہ کے حال
پر زیادہ شفقت تھی۔ دوسرے مرید ان سے حسد کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ نے نور فراست سے
ان کے دلوں میں بھرے ہوئے غبار کو دیکھ لیا۔ ایک دن اپنے سب مریدوں کو جمع کر کے
اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پہلے احمد مہہ (جو بڑا تھا) سے کہا کہ خانقاہ کے دروازے پر
اونٹ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کو مکان کی چھت پر پہنچائے۔ اس نے کہا حضرت اونٹ جیسا قوی
الجثہ جانور مکان کی چھت پر کیسے لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو ناممکن ہے۔ آپ نے
فرمایا۔ اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں احمد کہہ آ گیا۔ اس سے بھی حضرت نے یہی بات
فرمائی کہ اونٹ کو چھت پر پہنچا دے۔ احمد کہہ آستین چڑھا کر تعمیل حکم میں لگ گیا،
ہر چند کوشش کی کہ اونٹ کو گود میں اٹھا کر چھت پر لے جائے۔ مگر وہ کسی طرح اٹھا
نہیں سکا۔ حضرت شیخ نے فرمایا۔ کہ بس اب بیٹھ جاؤ۔ پھر سب کو مخاطب کر کے فرمایا
کہ آپ سب صاحبان نے دیکھ لیا کہ احمد کہہ کے اوپر میں کسی لئے زیادہ شفقت کرتا
ہوں۔ اس نے میرے حکم کے امکان یا ممکن ہونے پر غور ہی نہیں کیا اور نہ بحث کر کے
باتوں میں وقت ضائع کیا۔ مگر بڑے احمد نے ایسا نہیں کیا۔ آپ سب ایسی بات سے اپنے
اپنے باطن کا حال سمجھ لیں۔ یاد رکھیں۔ بارگاہ الٰہی میں تعمیل حکم کی قدر کی جاتی
ہے۔ عبادت و ریاضت یا کج بخشی کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے اور یاد رکھو کہ
تعمیل حکم ہی اصل عبادت ہے۔
حضرت منصور حلاج، عاشق الٰہی تھے، ہر
وقت سوز و فراق میں مست و بے قرار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ جنید بغدادیؒ کی مجلس
میں تشریف لائے اور حضرت جنیدؒ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔
مگر حضرت جنیدؒ نے کوئی جواب نہیں
دیا اور فرمایا۔ منصور تم بہت جلد قتل کر دیئے جاؤ گے۔ حضرت منصور حلاج نے کہا۔ اس
دن قتل کیا جاؤں گا جس دن آپ اپنی مسند سے اتر کر اہل ظاہر کا لباس پہن لیں گے۔
چنانچہ ‘‘انا الحق’’ کہنے پر جب آپ کو گرفتار کیا گیا اور علما ظاہر نے فتویٰ پر
دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ وقت نے اس بات پر اصرار کیا کہ آپ کو ہر حال
میں فتویٰ پر دستخط کرنا ہوں گے۔ حضرت جنیدؒ نے خانقاہ کی سکونت ترک کر کے علمائے
حق (صوفیوں) کا لباس اتار دیا۔ اور مدرسہ میں جا کر علماء ظاہر کا لباس پہن لیا
اور فتویٰ پر لکھ دیا کہ ‘‘ہم لوگ ظاہر پر حکم کرتے ہیں۔’’
حضرت منصور فرماتے ہیں کہ فقر کے
معنی یہ ہیں کہ فقیر ماسویٰ اللہ سے بے نیاز ہو جائے اور مخلوق سے قطعاً کوئی توقع
نہ رکھے۔
ایک مرتبہ لوگوں نے سوال کیا۔ حضرت
یہ فرمایئے کہ دعا افضل ہے یا عبادت؟ فرمایا۔ ان دونوں کا کوئی مقام نہیں ہے۔
عبادت اور دعا کا ہاتھ دامن مراد سے آگے نہیں بڑھتا اور یہ سلوک کی راہ میں سفر
کرنے والے کے لئے شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس لئے یاد کرنا کہ اس میں اللہ تعالیٰ
کے علاوہ کوئی اور مقصد ہو سلوک کے مذہب میں کفر ہے۔
جب آپ کے ہاتھ کاٹ کرجدا کر دیئے گئے
تو آپ ہنسے لوگوں نے پوچھا۔ حضرت یہ ہنسی کا کون سا موقع ہے؟ فرمایا۔ آدم کے ہاتھ
کاٹ دینا آسان ہے۔ لیکن ایسے لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ جو ہمارے صفاتی ہاتھ کو کاٹ
دیں۔ اس کے بعد آپ کے پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ خندہ پیشانی سے فرمایا۔ ان پاؤں کے علاوہ
ہمارے اور پیر بھی ہیں۔ ان کو کاٹو تو جانیں۔
شہادت کے وقت ابلیس لعین آپ کے پاس
آیا اور کہا۔ میں نے انا خیروٗ کہا تو طوق لعنت میرے گلے میں ڈال دیا گیا اور آپ
نے ‘‘انا الحق’’ کی صدا لگائی لیکن آپ کو مقام صدق میں جگہ ملی۔ حضرت منصورؒ نے
فرمایا۔ لعین تو نے اپنی طرف سے ‘‘انا’’ کا لفظ استعمال کیا اور میں نے خودی کو
مٹا کر ‘‘اناالحق’’ کہا۔ اس لئے مجھ پر رحمت ہوئی اور تجھ پر ابدالاباد کی لعنت۔
اس طرز فکر کے بندوں کے لئے اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں۔ اور میں اس کے کان، آنکھ
اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتا ہے۔ میرے ذریعے بولتا ہے اور میرے
ذریعے چیزیں پکڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس طرز فکر کو حضرت
سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں بھی بیان فرمایا ہے۔ اور جب حضرت سلیمان علیہ
السلام نے احتساب کیا اڑتے جانوروں کا تو کہا۔ میں ہد ہد کو غیر حاضر دیکھ رہا
ہوں۔ کیا وہ واقعی غائب ہے۔ اگر وہ غائب ہے تو میں اس پر سخت عذاب کروں گا۔ اس کو
ذبح کر دوں گا اگر اس نے اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان نہیں کی۔ کچھ ہی دیر بع
ہد ہد نے حاضر ہو کر کہا۔ میں ایک ایسی خبر لایا ہوں، جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔
اور میں آپ کے پاس سبا سے آیا ہوں۔ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا ہے۔ جو ملک سبا
کی ملکہ ہے اور اس کے پاس سب کچھ ہے۔ اور ایک عظیم الشان تخت ہے وہ اور اس کی قوم
اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پرستش کرتی ہے اور شیطان نے ان کو صراط مستقیم سے بھٹکا
ہوا ہے۔ وہ کیوں سجدہ نہیں کرتے اللہ کو، جو نکالتا ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ
چیزیں۔ اور جانتا ہے کہ جو تم چھپاتے ہو اور جو کچھ کرتے ہو۔ اللہ کے سوا کوئی خدا
نہیں ہے۔ وہ پروردگار ہے عرش عظیم کا۔
سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ تو اپنے قول میں سچا ہے یا جھوٹا ہے۔ جا۔۔۔اور میرا یہ خط ان کی طرف
لے جا۔ پھر ان کے پاس سے ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ہُدہُد نے یہ خط
ملکہ سبا تک پہنچا دیا۔ ملکہ نے جب یہ خط اپنے پاس دیکھا تو خط کو پڑھ کر اپنے
درباریوں سے کہا۔ میرے پاس ایک معزز خط ڈال دیا گیا ہے۔ اور یہ خط سلیمان کی طرف
سے ہے۔ اور خط کا مضمون یہ ہے:
‘‘شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے الٰہی کا نام رحمٰن ہے اور اسی کی طرف سے رحمتوں
کا نزول ہوتا ہے ۔ تم کو چاہئے کہ تم میرے مقابلہ میں قوت کا مظاہرہ نہ کرو۔ میری
اطاعت قبول کر کے میرے دربار میں حاضر ہو جاؤ۔’’
ملکہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ مجھ
اس اس کام میں مشورہ دو، تمہیں معلوم ہے کہ میں بغیر تمہارے مشورے کے کوئی فیصلہ
نہیں کرتی۔ درباریوں نے کہا۔ ہم لوگ بہت قوت والے اور سخت جنگجو ہیں۔ اب آپ سوچ
لیجئے کہ آپ کو کیا فیصلہ کرنا ہے۔
ملکہ نے کہا۔ بادشاہ جب کسی بستی میں
داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔ اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل
و خوار کر دیتے ہیں۔ اور یہ سب تمہارے ساتھ ہو گا، اور میں سلیمان کو تحفہ بھیجتی
ہوں۔ پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں۔ جب قاصد حضرت سلیمان
علیہ السلام کے پاس پہنچے تو سلیمان علیہ السلام نے کہا۔ کیا تم مال و دولت سے
مجھے مرعوب کرنا چاہتے ہو؟ جو اللہ نے مجھ کو دیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے
جو تم کو دیا ہے۔ نہیں۔ میں یہ تحفہ قبول نہیں کرتا۔ تمہیں تمہارا تحفہ مبارک ہو۔
واپس جاؤ اور جا کر اپنی ملکہ کو یہ تبا دو کہ ہم ایسے زبردست لشکر کے ساتھ پہنچ
رہے ہیں جس کے سامنے تم نہیں ٹھہر سکو گے اور تمہارے ملک کو تخت و تاراج کرنے کے
بعد تم کو وہاں سے ذلیل و خوار کر کے نکال دیں گے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے
درباریوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
‘‘تم میں سے کوئی ایسا ہے جو ملکہ
سبا کا تخت میرے پاس لے آئے اس سے پہلے کہ وہ حکم بردار ہو کر میرے سامنے حاضر ہو۔’’
جنات میں سے ایک شخص عفریت نے عرض
کیا کہ میں اس پر قدرت رکھتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں تخت
کو بحفاظت حاضر کر دوں گا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار
میں انسانوں میں سے ایک شخص نے کہا:
‘‘میرے پاس ’’علم الکتاب’’ ہے جس کے
تحت اس بات پر قدرت رکھتا ہوں کہ وہ تخت حاضر کر دوں، اس سے پہلے کہ آپ کی پلک
جھپکے۔’’
اب جو سلیمان علیہ السلام نے دیکھا
تو تخت کو اپنے پاس موجود پایا۔ حاضرین مجلس کی حیرانی کو دیکھ کر اس اللہ کے بندہ
نے کہا کہ یہ ‘‘علم الکتاب’’ مجھے میرے رب کے فضل و کرم سے ملا ہے، اور میرے رب نے
یہ علم مجھے اس لئے عطا کیا ہے کہ چاہے میں اس کو استعمال کروں اور چاہے استعمال
نہ کروں اور جو کوئی اس علم کو استعمال کرتا ہے اپنے لئے کرتا ہے اور جو استعمال
نہیں کرتا اپنے لئے نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس سے ماوراء ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ایک بندہ کا تذکرہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کی
طرز فکر کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
بندہ کہتا ہے۔ میرے پاس کتاب کا علم
ہے۔ میں اس علم کے ذریعے اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے تخت کو آپ کے پاس لے آؤں
گا۔ عفریت بھی یہی کہتا ہے کہ میں اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں، تخت کو
حاضر کر دوں گا۔ اس واقعہ میں بہت ہی لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ جن اور انسان
کے درمیان یہ فرق ہے کہ جن خودکو وقت کے ساتھ پابند کئے ہوئے ہے لیکن بندہ نے وقت
کی نفی کر دی ہے۔ بندہ کا ذہن آزاد اور لامحدود وسعتوں کا مالک ہے اس لئے کہ وہ اس
علم کو جانتا ہے جس کا نام ‘‘روح’’ ہے۔ یہ بندہ کتاب کے اس علم کو جانتا ہے کہ بشر
پتلا ہے، پتلا خلاء ہے۔ خلاء یا بشر میں اللہ کی روح ہے۔ روح اللہ کا امر ہے اور
اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’ہوجا‘
اور وہ ’ہو‘ جاتی ہے۔
طرز تکوین کے اس بندہ کے ذہن میں یہ
بات راسخ ہوتی ہے کہ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں قدم اٹھائے اور
کام پورا ہو جائے۔
یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ قدم
صرف اللہ کے لئے اٹھایا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شامل ہیں۔ اس میں جنت بھی ایک
مصلحت ہے اور بہت سی نیکیاں بھی مصلحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں
پہچانتا، جب تک مقصد صرف اللہ کی ذات نہ ہو۔ اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت
اس کو جانتی ہے۔ کہتی ہے آؤ، لبیک۔ اگر ایک آدمی کا مقصد دنیا ہے تو دنیا اسے
جانتی ہے۔ کہتی ہے آؤ، لبیک۔ اللہ کے ساتھ، اللہ کے علاوہ، کوئی دوسرا مقصد یا
کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے۔
حضرت رابعہ بصریؒ سے یہ واقعہ منسوب
ہے کہ لوگوں نے انہیں دیکھا کہ ایک ہاتھ میں آگ اور ایک ہاتھ میں پانی لئے ہوئے
دوڑی چلی جا رہی ہیں۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کہاں دوڑی جا رہی ہیں؟
حضرت رابعہ بصریؓ نے فرمایا۔ میں آگ سے جنت کو جلا دوں گی اور پانی سے دوزخ کو
بجھا دوں گی۔ تا کہ لوگ اللہ کی پرستش کریں جس کو دیکھو جنت کی خواہش اور دوزخ کے
خوف سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ کوئی نہیں ہے جو اللہ کو اللہ کے لئے یاد کرے۔
موسم بہار میں حضرت رابعہ بصریؒ سے
خادمہ نے عرض کیا۔ مکان سے باہر آیئے اور خالق کائنات کی صناعی اور قدرت کا ملاحظہ
کیجئے۔ آپ نے فرمایا۔ تو اندر کیوں نہیں آ جاتی کہ خود خالق حقیقی کو دیکھ لے۔ اور
فرمایا میرا کام صنعت کو دیکھنے کا نہیں ہے میں خالق کو دیکھتی ہوں۔
آپ سے لوگوں نے سوال کیا۔ آپ جس ہستی
کی پرستش کرتی ہیں کیا آپ اس کو دیکھتی بھی ہیں؟ فرمایا۔ اگر میں نہ دیکھتی تو
پرستش کیسے کر سکتی تھی؟
چند بزرگوں کی ایک جماعت حضرت رابعہ
بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ایک بزرگ سے آپ نے پوچھا۔ تم خدا کی عبادت کس لئے
کرتے ہو؟ اس بزرگ نے کہا۔ دوزخ کے سات طبق نہایت عظیم ہیں۔ ہر ایک کو اس کے اوپر
سے گزرنا پڑے گا۔ خوف کی وجہ سے مجبوراً خدا کی پرستش کرتا ہوں کہ اس نے جنت دینے
کا وعدہ کیا ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا۔ وہ بندہ بدترین بندہ ہے جو کسی خوف
یا طمع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ ان لوگوں نے پوچھا۔ آپ عبادت کیوں
کرتی ہیں؟ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے کوئی امید نہیں رکھتیں؟
فرمایا۔ دوزخ اور بہشت کا ہونا ہمارے
نزدیک یساں ہے۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہمیں عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کے یہ واقعات بھی
اصحاب تکوین کی طرز فکر کے آئینہ دار ہیں۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔۔۔حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، پس تحقیق اس نے اپنے
رب کو پہچان لیا۔
اپنا عرفان رکھنے والا شخص ہی خالق کائنات
کا عرفان حاصل کر سکتا ہے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے