Topics

پیا سی زمین

اگر ہم عقائد کا تجزیہ کر یں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب کا مدار ایمان با لغیب پر ہے یعنی اس یقین پر کہ غیب میں حقا ئق ہمیں نظر نہیں آتے لیکن اس کے باوجود ہماری فلاح اسی میں ہی ہے کہ ہم ان دیکھی حقیقتو ں پر ایمان لا ئیں اور اپنے ذہن و عمل کا تعلق غیب کی دنیا سے قائم رکھیں۔

مذاہب اور ان کے معبود جن کی لوگ پو جا کر تے ہیں،محض تصوراتی دنیا ہے۔محسوس طر زوں میں ان معبودوں کو نہ دیکھا جا سکتا ہے ۔اور نہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ موجود اور محسوس مذہبی چیزوں کے علاوہ مذہب کےا ندراور بھی تصورات ہو تے ہیں جو انسانی زندگی اور اس کےا عمال و افعال پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔

آج کی جگمگ کر تی تر قی یا فتہ روشن دنیا میں بھی ایک مکتبہ فکر کہتا ہے کا ئنات کی ما ہیت ، رُوح اور موت کے بعد کی زندگی جیسے موضوعات میں سے کو ئی چیز ہمارے لیے علمی کو شش اور فکر کا موضو ع نہیں بن سکتی کیو نکہ ہما رے تصورات اور ہما رے  شعوری محسوس علم کے لئے ضروری ہے کہ ان میں محسوسیت اور متشکل شکلیں داخل ہو ں ۔مذہبی موضوعات اور عقائد میں چو ں کہ معین محسوسات نہیں ہیں، اس لئے یہ شعبہ علمی لحاظ سے کو ئی معنینہیںرکھتا ۔ا نسان کی زندگی کا یہ عجیب مظہر ہے کہ انسان پو ری قوت کے ساتھ ایسی چیزوں کے وجود کا یقین رکھتا ہے جس کی نسبت وہ صیحح معنوں میں تصور بھی قائم نہیں کرسکتا ۔

کم وبیش یہی صورت حال چو دہ سو سال پہلے تھی ۔لو گوں نے محسوس طر زوں کی بنیاد پر نئے نئے بت تراش لئے تھے ۔ ہر طر ف گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیر ے چھا ئے ہو ئے تھے ۔یونا ن، رو ما اور بحیرۂ رو م کے گر دوپیش آسمانیمذاہب اپنی توانائی کھو چکے تھے ۔سلطنت کی پر ستش رومتہ الکبریٰ کا مذہب تھا اور شاہ پر ستی لوگوں کا ایمان و دَھر م تھا ۔

یو نان ، روم، مصرو شام اور ہندوستان کے تہذیب و تمدن ظا ہری عروج پر ہو نے کے با وجود اخلا قی پستی میں گرے ہوئے تھے ۔جہا لت اور بت پر ستی کا دور دورہ تھا۔ فسق و فجور ، عیش کوشی ، تو ہم پر ستی، بد کا ری اور بے حیائی نے انسانی معاشرے پر غلبہ حاصل کر لیاتھا۔ آدم زاد برادری میں جس کے ہا تھ میں طا قت تھی وہ خدا بن بیٹھا تھا۔ یہ بھی تمیز نہیں رہی تھی کہ ہمارے ہی جیسا ایک بندہ جو ہما ری طر ح  بھوک اور پیاس کا محتاج ہے، بول و براز سے مستثنٰی نہیں ہے ۔کیسے خدا ہو سکتا ہے۔ کو ئی قانونی حدمتعین نہیں تھی ۔کو ئی کسی ضابطے کا پا بند نہیں تھا۔ انتہا ءیہ کہ اپنے ہی وجود میں سے پیدا ہو نے والے وجود کو قتل کرنا روا تھا ۔دختر کشی ، قمار بازی ، مے نوشی اور بد اخلا قی عام تھی ۔یہی وہ تا ریخی دور تھا جب سوکھی اور پیا سی زمین نے اور زمین کے او پر بسنے والی مخلوق نے آسمان کی طر ف نظر یں اٹھا ئیں اور آسمانوں سے اس پار عرش پر مکین اس ہستی کوجو سب کا خالق ہے اور جس نے محبت کے ساتھ پیدا کیا ہے زمین کے اوپر رحم آگیا ۔اور اس نے اپنے نوُر کا ایک حصہ زمین پر اتار دیا تا کہ تا ریکی رو شنی میں بدل جا ئے پیا سی زمین سیراب ہو جائے اور اندھوں کو آنکھیں، گونگوں کو زبان اور بہروں کو کان مل جا ئیں ۔انسانیت کا بھرم جو بکھر چکا ہے دو بارہ قائم ہو جا ئے ۔

انسانی تا ریخ کے بھیانک ،دہشت ناک نفسا نفسی کے اس گھٹن دور میں ایک عظیم انسان پیدا ہوا،ایسا عظیم انسان جو سرا پا رحمت تھا اور رحمت ہے ۔آپ ایسی قوم میں پیدا ہو ئے جو سر تا سر ظلم و جہا لت میں ڈوبی ہو ئی تھی ۔ا ندھیرے میں یہ روشن مینارجلوہ نما ہو ا تو دشمنوں نے بھی آپ کے صادق و امین ہو نے کا اعتراف کیا ۔ مکے کے بو ڑھے ،بچے ،جوان مردوزن آپ ﷺ کے اوپر اعتماد کر تےتھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اہل مکہ کو جمع کر کے کہا ۔

’’اگر میں کہوں پہاڑ کے دو سری جانب ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کر نے والا ہے تو تم مان لو گے ؟‘‘

سب نے یک زبان ہو کر کہا۔’’بے شک ہم یقین کر یں گے کیوں کہ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بو لا ۔ ‘‘

لیکن جب اس صادق ذات با برکت نے اوہام پر ستی اور اپنے ہا تھوں سے تراشیدہ بتوں کی پر ستش سے منع کیا اور خدا کا پیغام سنا یا تو وہ سب آپ کے دشمن بن گئے ۔آپ کو گا لیاں دیں ، پتھر ما رے ، راستے میں کانٹے بچھائے، گلے میں پھندا ڈال کر آپ کو گھسیٹا ، نماز میں بحا لت ِسجدہ آپ ﷺکے اوپر گندگی پھینکی، راستہ گزرتے آپ کے اوپر کو ڑا کر کٹ پھینکا گیا ۔ یہ سب کیوں ہوا، اہل قریش کی یہ دشمنی اور عنا د کیوں تھا؟ اس لئے کہ ہا دی بر حق ﷺنے تا ریک دنیا میں نور کی شمع جلا دی تھی ۔نوعِ انسا ن کے قافلہ کو ہلاکت سے بچا نے کے لیے سیدھی راہ دکھا دی تھی۔  اللہ کے اس محبوب بندے کو چند قدسی نفس حضرات کی ایک  جمیعت مل گئی تو ظالموں نے آپ ﷺ کے پیرو کاروں کو بھی نہیں بخشا۔ اُن کو گرم ریت پر لٹایا ، ان کے ہاتھوں پر کیلیں گاڑیں ، ہا تھ اور پیر با ند ھ کر جھلستی ہو ئی دھو پ میں ریگستان کی تپتی ہو ئی ریت پر ان کے جسموں کو گھسیٹا ۔ آپ ﷺ سب کچھ دیکھتے رہے ۔صبر کر تے رہے ،کیوں ؟ اس لئے کہ آپ کو رب العالمین نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ یہ سزا کس جرم کی پا داش میں تھی، یہ ظلم وبر بریت کیوں تھی؟ اس لئے کہ رحمت اللعالمین اپنی آغوش میں لیکر لوگوں کو عذاب اور دردناک زندگی سے بچانا چا ہتے تھے ۔ خالق کائنات کا یہ محبوب لوگوں کو ابدی آسائش سے روشناس کر انا چا ہتا تھا ۔یہ کیسی حر ماں نصیبی تھی کہ چا ہنے والوں کو دھتکارا جا رہا تھا ۔محبت کر نے والے کے ساتھ نفرت و غصہ کا اظہارکیا جا رہا تھا ۔آپ کے صبرو تحمل کا یہ عالم تھا کہ آپ اہل طائف کو اللہ کا پیغام سنا تے ،لو گ آپ کو پا گل دیوانہ کہتے اور جب غصہ دور نہیں ہو تا تو پتھر مار مار کرآپ ﷺ کو لہو لہان کر دیتے ۔جب خون بہتا ہوا دیکھ کر آپ کے دو ست (صحابہ )عرض کر تے ۔۔۔۔

’’یا رسول اللہ ﷺ ، ان کے لئے بدد عا کریں" تو آپ ﷺ فرما تے ۔۔۔"میں لوگوں کے لئے زحمت بن کر نہیں آیا ،رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو ں ۔ ‘‘

اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے ۔جب اللہ کا وعدہ پو را ہوا تو لوگوں نے خدا کو محسوس طر زوں میں دیکھا ۔محسوس طرزوں میں خدا کی آواز سنی اور محسوس طر ز وں میں اس کی قربت کو پا لیا ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی



ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔