Topics
سر وقد ، لا لہ رخسار ، غزال چشم ، غنچہ دہن ، کتا بی چہرہ ، صرا حی دارگر دن ، بال ایسے جیسے چا ندی کے تار ، معطّرمعطّر ، خر اماں خراماں ایک ما ئی صاحبہ تشریف لا ئیں ۔ کمرے میں قدم رکھا تو جھما کہ ہوا اورآنکھوں کے سامنے قوس ِقزح کے رنگ بکھر گئے ۔ما ئی صاحبہ نے مخمور نگا ؤں سے مجھے دیکھا اور بو لیں۔’’بیٹا! تجھے دیکھنے کی تمنا تھی سو پو ری ہو گئی ۔ ‘‘
حیرت زدہ آنکھیں اور کھو ئے کھوئے باغ سے میں نے پو چھا۔’’آپ کا نام کیا ہے ،کون ہیں آپ اور کہاں سے آئیں ہیں ؟‘‘
ملکوتی تبسم کے ساتھ گو یا ہو ئیں ۔ ’’میرے دو نام ہیں ۔ایک نام مفرو ضہ اور فکشن ہے اور دو سرا نام مفروضہ اورفکشن حواس کے برعکس ہے ۔ ‘‘
میں نے نام کی تعریف ایسی کبھی سنی نہ تھی ۔ حیرت و استعجاب سے پو چھا ۔ ’’کیا نام بھی غیر حقیقی ہو تے ہیں ؟ نام تو پہچان کا ایک ذریعہ ہے ۔‘‘
کچھ عجیب انداز سے خلا میں گھورتے ہو ئے بو لیں ۔ ’’تمہارا نام کب رکھا گیا تھا ؟‘‘
میں نے مو ذبانہ لہجے میں عرض کیا ۔ ’’جب میں پیدا ہو اتھا ۔ ‘‘
ہنستے ہو ئے کہا ۔’’کیا تم وہی ہو جو پیدا ہو ئے تھے ؟ کیا تمہا را ایک ایک عضو بدل نہیں گیا ؟کیا تم پنگوڑے سے با ہرآکر زمین پر دندنا تے نہیں پھر تے ہو ، جب تم پیدا ہو ئے تو تمہارے ہا تھ اتنے ہی بڑے تھے جتنے اب ہیں اور اپنے قدکاٹھ کے بارے میں کیارائے ہے ؟ ‘‘
خفت اور ندامت کے ساتھ میں خا موش ہو گیا ۔ تجسس نے مجبور کیا تو پھر پو چھا ۔
’’آپ کون ہیں ؟"
بو لیں ’’میرے دو وجود ہیں ۔ ایک وجود پر لمحہ ، ہر آن موت وارد ہو تی رہتی ہے ۔جس لمحہ موت وارد ہوتی ہے اسی لمحہ ایک نیا وجود تشکیل پا تا ہے ۔میرا یہ وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ بہ لمحہ حیات ہے ۔ میرا دوسرا وجود وہ ہے جس پر لمحات ،گھنٹے ، دن اور ماہ و سال اثر انداز ہی نہیں ہو تے۔ نہ تو وہ پید اہو تا ہے اور نہ مر تا ہے ۔‘‘
ما ئیصاحبہ کی زبانی یہ اسرار ورموز کی با تیںسن کر میرے ذہنمیںیہ خیال آیا کہ یہ کو ئی بڑی عالم فاضل عورت ہیں ۔یا مظہر العجا ئب ! میرے دماغ میں جیسے ہی یہ خیال وارد ہو ا ۔ ما ئی صاحبہ بو لیں ۔ ’’نہیں بیٹا نہیں۔ میں عالم فا ضل نہیں ہوں مجھے تو خط بھی لکھنا نہیں آتا ، میں خواجہ غر یب نواز ؒ کی داسی ہوں ۔ ‘‘
’’آپ خواجہ غر یب نوازؒ کی داسی ہیں ! آپ کا قیام کہا ں ہے ؟‘‘
’’بیٹا ! قیام مقام سے ہو تا ہے ۔ میرے دو مقام ہیں۔ ایک مقام ٹائم اسپیس میں بند ہے ۔ میں اس مقام میں خود کو پا بند اور مقید محسوس کر تی ہوں۔ چند میل بھی اگر سفر کر نا پڑے تو وسائل کی محتاجی ہے۔ میرا دوسرا مقام وہ ہے جہاں میں وسائل کی محتاج نہیں ہوں ، وسائل میرے پا بند ہیں۔‘‘
قیام اور مقام کی یہ فکرا نگیز گفتگو سن کر میری کیفیت کچھ ایسی ہو گئی جیسے کسی ساٹھ سالہ کسان کے سامنے ایٹمی فا رمولا بیان کیا جا رہا ہو ۔
مائی صاحبہ نے جب دیکھا کہ بچہ نروس ہو گیا ہے تو دو قدم آگے بڑھیں اور میرے سر پر شفقت سے ہا تھ پھیرا ۔ابھی ان کا شفقت بھرا ہا تھ میرے سر پر ہی تھاکہ بچوں نے شور مچا دیا ''دادی آگئیں ، دادی آگئیں !" دادی نے بھی اپنے معصوم پو توں اور پو تیوں کو کلیجے سے لگا یا اور ڈھیروں دعا ئیں دیں۔
بڑی بیٹی نے گلے میں ہا تھ ڈال کر کہا ۔’’دادی! کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتا ئیں ۔‘‘ مائی صاحبہ تھوڑی دیر کے لئے خا موش ہو گئیں ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے اپنی آپ بیتی اس طر ح بیان کی ۔
’’میرا نام جیو تی تھا ۔ عمر ہو گی کو ئی چو دہ سال ۔ ماں باپ نے پھیرے کر دائیے۔ ابھی دلہن کے خواب پو رے بھی نہیں ہو ئے تھے کہ پتی روٹھ گیا ۔ سسرال والوں نے مجھے ستی کر نے کے مشورے شروع کر دئیے ۔ میرے کا نوں میں بھنک پڑ گئی ۔میں گھپ اندھیری رات میں سسرال کے گھر سے میکے پہنچی ۔ ماتا جی نے مجھے سینے سے لگا یا ۔لیکن میرا باپ مذہبی آدمی تھا ۔ اس نے اس طرح آنا پسند نہیں کیا ۔ جب تین پہر رات ڈھل گئی تو ماں نے گھر کے پچھلے دروازے سے مجھے با ہر کر دیا ۔ میں دوڑتی رہی ، دو ڑتی رہی یہاں تک کہ افق سے سورج نمودار ہوا ۔ درختوں کے ایک جھنڈ میں دن بھر پڑی روتی سسکتی رہی اور اپنے مقدر کو کو ستی رہی ۔ سورج نے جیسے ہی رات کے پر دے میں اپنا چہرہ چھپایا ، میں منزل کا تعین کئے بغیر پھر دوڑنے لگی ۔ لہولہان پیروں ، نحیف و نزارجسم اور خشک حلق کے ساتھ نہ معلوم کس طر ح خواجہ غر یب نواز ؒ کے دربار میں جا پہنچی۔ ڈر اور خوف کا غلبہ اتنا تھا کہ مزار میں جا کر اندر سے جا کر میں نے اندر سے کنڈی لگا لی اور خواجہ صاحبؒ کی لحد سے لپٹ کر لیٹ گئی ۔ ایسا سکون ملا لگتا تھا کہ میں دو تین سال کی بچی ہوں اور خواجہ غریب نواز ؒ کی قبر ماں کی گود ہے۔ ادھر میں سرور کی کیفیت سے سرشار تھی ۔ اُدھرباہر کہرام مچ گیا کہ کون دیوانی اندر گھس گئی ہے ۔ لو گ چیختے رہے ، چلاتے رہے ، دروازہ پیٹتے رہے مگر میں سکون کی وادی میں تھی ۔ مجھ پر کو ئی اثر نہیں ہوا با لآخر قرار آیا اور میں نے دروازہ کھول دیا اور پھر وہاں جھا ڑو دینے کی خدمت پر معمور کر دی گئی ۔ پا کستان بنا تو میں اپنی ہی جیسی ایک عورت پر عاشق ہو گئی اور اس خاتون کے ساتھ پاکستان آگئی ۔ ‘‘
چھو ٹی بیٹی نے پو چھا ۔’’دادی اماں ! ہمارے گھر کا پتہ آپ کو کس نے بتا یا ؟‘‘
مائی صاحبہ نے بہت زور کا قہقہہ لگا یا اور فرمایا ۔’’بیٹی ! جس بندے کو اپنے اصلی مالک کا پتہ مل جا تا ہے اس کے لئے کو ئی پتہ ، کو ئی ٹھکانہ ،کو ئی مقام ، ڈھونڈنا مشکل نہیں ہو تا ۔ ‘‘
سبحان اللہ !کیسا سعید دن تھا کہ سارے دن انوار کی با رش بر ستی رہی ۔ درودیوار میں سے رنگ رنگ روشنیاں پھوٹتی ر ہیں ۔ایسا سماں تھا جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ رات کو رخصت ہوتے وقت میں نے ما ئی صاحبہ کی قدم بوسی کی، ان کے نرم و جھاگ سے ملا ئم ہا تھوں کو چو ما ،آنکھوں سے چھو ااور بے قرار دل کے ساتھ کہا ۔’’ما ئی صاحبہ! کو ئی نصیحت کر یں ۔‘‘
مائی صاحبہ ایک دم آسمان کی طر ف دیکھنے لگیں اس طرح کہ پلکوں کا ارتعاش رک گیا ۔ ڈھیلوں کی حرکت ساکت ہو گئی ۔ لگتا تھا ذہن اور دماغ دونوں کسی نادیدہ نقطہ پر مر کوز ہیں ۔ ہم سب بے خود اماں کے استغراق اور تجلی سے معمور چہرے کو تکتے رہے ۔ ایک بلند آواز گو نجی ۔" بیٹا__! "
انگشت شہادت کھلی ، ہاتھ آسمان کی طر ف بلند ہوا اور زبان سے یہ الفاظ نکلے ۔
’’بیٹا__ !رب راضی تو سب راضی ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔