Topics

شعوری دبِستان

زندگی کے ما ہ  وسال کا تجزیہ کر نے سے ہمیں نظر آتا ہے کہ زندگی اربوں کھر بوں کل پر زوں  سےبنی ہوئی ایک مشین ہے۔ جس طرح انسان کی بنا ئی ہو ئی کو ئی بھی چھو ٹی بڑی مشین توانائیاں اور موبائل آئل کی محتاج ہے ،اسی طر ح انسانی پنجرے میں بند مشین بھی تو انا ئیوں اور چکنا ئیوں کی محتاج ہے ۔جس طرح لکڑی، لو ہے دھات کی مشین فیڈنگ کے بغیر بے کار ہے ۔ اسی طرح انسانی مشین کو اگر فیڈ نہ کیا جا ئے تو اس کا ایک ایک عضو(PARTS) معطل اور بے کار ہو جا تا ہے ۔ 

کیا خوب تما شا ہے !

آدمی کہتا ہے میرا دل ،-آدمی کہتا ہے،میرا دماغ - آدمی کہتا ہے، میرے گر دے ، دل ،دماغ ،گر دوں کو ایک نا دیدہ تو انائی بلا کسی توقف کے چلا رہی ہےاو ر ان بنیادی پر زوں کے ساتھ اربوں کھر بوں پر زے (Cells)خود بخود متحرک ہیں ۔مگر آدم زاد کی کو تا ہ نظر ی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اندر آواز کے ساتھ، جھٹکے کے ساتھ ، تیز اور مدھم رفتار کے ساتھ چلنے والی مشین کو دیکھ نہیں سکتا،اس کی آواز سن نہیں سکتا۔مشین کو چلانے والی توانا ئی کا غیر مر ئی سلسلہ اگر منقطع ہو جا ئے تو اسے بحال نہیں کر سکتا ۔ 

توانائی کاکام خود جل کر مشین کو مسلسل حرکت میں رکھنا ہے ۔ توانائی کا صرفہ اگر اعتدال میں رہے تو زندگی بڑھ جا تی ہے۔ توانائی ضا ئع ہو نے لگے تو زندگی کے چراغ کی لو مدھم پڑجا تی ہےاور پھر یہ چراغ ایک ہی دفعہ بھڑک کر بجھ جا تا ہے ۔ 

آگ کے شعلے د و طر ح کے ہو تے ہیں۔ ایک طر ح کے شعلوں  سے ہر چیز خاکستر ہو جا تی ہے اور دو سری طر ح کے شعلوں سے ہر چیز کے اندر زندگی دوڑنے لگتی ہے ۔آدم زاد جب خیر کی رو شنیوں سے اپنی آبیا ری کر تا ہے تو یہ بھڑکتے ہو ئے شعلے گلِ گلزار بن جا تے ہیں اور آدم زاد جب شر کے خمیر سے اپنی آبیا ری کر تا ہے تو یہ شعلے اسے جہنم کی آگ میں دھکیل دیتے ہیں ۔

خیر اور شر کیا ہے ؟ طرزِ فکر کے دو نام ہیں ۔طر ز فکر میں اگر بندگی اور اللہ کے ساتھ محبت ہے تو یہ خیر ہے ۔طر ز فکر میں اگر غیر اللہ کی محبت ہے تو یہ شر ہے ۔خیر قائم بالذات (جل جلالہ ) ہے اور شر قائم با لشیطان ہے۔ خیر کی تعر یف یہ ہے کہ اللہ اسے پسند کر تا ہے اس کے بر عکس شر یہ ہے کہ اللہ اسے پسند نہیں کر تا ۔

آئیے ، آج کی نشست میں کا ئنات کا نہیں، کائنات کے کل پر زے انسان کا مطا لعہ کر یں ۔۔۔!

شعور میں داخل ہو نے سے پہلے کو ئی انسان باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا سے واقف نہیں ہو تا۔ شعوری دبستان میں قدم رکھتے ہی انسان کے اندر نیا جوش اور نئے دلولے پیدا ہو تے ہیں۔ وہ اپنے اندر تخلیقی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ اور یہ تخلیقی صلاحتیں اسے بالآخر ایسے نقطے پر لے آتی ہیں جس نقطے کا آغاز ہی نئی نئی تخلیقات سے ہو تا ہے۔ کو ئی بندہ جب اس نقطے میں داخل ہو تا ہے تو اس کے اند ر باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں۔ نتیجہ میں بالکل اپنی جیسی جیتی جا گتی تصویر بنا لیتا ہے ۔ یہ تصویر بھی انسانی مشین کا کل پر زہ ہے اور اس پرزے کی فیڈنگ کے لئے ایک آٹومیٹک نظام جا ری وساری ہے ۔ آدم زاد اس تصویر کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے وسائل کی تلاش کر تا ہے اور وسائل کی تلا ش میں اتنا آگے بڑھ جا تا ہے کہ اس سے خود آگا ہی منحرف ہو جا تی ہے ۔

تصویر کو اللہ تعالیٰ نے اولاد اور وسائل کو اموا ل کہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فر ما ن کے مطا بق مال اور اولاد انسان کے لئے فتنے ہیں ۔کیسی عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ مال اور اولاد کو فتنا کہتا ہے ۔اور بندہ اپنی پو ریتوانائیوںکے ساتھ، اپنی پو ری صلا حیتوں کے ساتھ، اپنی پو ری دانائی کے ساتھ اس فتنے سے قریب ہو رہا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو فتنہ کیوں کہا ؟

یاد رکھئے ! ہر وہ چیز جو عارضی ہے۔ حقیقت نہیں ہو تی اور جو چیز حقیقی نہیں وہ حق سے قربت حاصل نہیں کر سکتی مال ہو یا اولاد یہ سب عارضی اور غیر حقیقی تصویریں ہیں ۔بندہ جب ان عارضی اور غیر حقیقی تصویروں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو یہ سب اس کےلئے مصیبت اور فتنہ بن جا تی ہے ۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی



ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔