Topics
صدیوں سے زمین پر ہو نے والی تبدیلیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ زندگی کے ادوار ، زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے سینے پر محفوظ ہیں ۔ زمین یہ بھی جا نتی ہے کہ کتنی تہذیبوں نے اس کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر یہ تہذیبیں معدوم ہو گئیں ۔
خلا سے اُس پار آسمانوں کی وسعتو ں میں جھانک کر دیکھا جا ئے تو ما یوسیوں ،نا کا میوں اور ذہنی افلاس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا یوں لگتا ہے کہ زمین کے با سیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طر ز ِعمل دیکھ کر نیلے پربت پر جھل مل کرتے ستاروں کی شمع امید کی لو مدھّم پڑ گئی ہے ۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بد تر زندگی گزار رہا ہے ۔جو سکون ایک بلی اور بکری کو حاصل ہے اس کا عشرِ عشیر بھی انسان کو میسر نہیں ۔
تخلیق کر نے والوں میں بہترین تخلیق کر نے والی ہستی ، خود مختار خالق نے اس دھر تی کو ایک قطعہَ زراعت بنا کر آدمی کے حوالے کیا ہےکہ وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر میٹھی نیند سو سکے ۔ اس ہی لئے اس کی تخلیق کا ظا ہری جسم اسی مٹی سے بنا یا گیا اور اس کے استعمال کی ہر چیز مٹی سے بنا ئی گئی ہے ۔ زمین کو قدرت نے اتنا سخت نہیں بنا دیا کہ آدم زاد اس پر چل نہ سکے، اتنا نرم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پیر اس میں دھنس جا ئیں ۔ اسے اختیار دیا گیا کہ وہ زمین پر تصرف کر سکے اور زمین کے جسم میں دوڑنے والے خون (RAYS) سےجس طر ح چا ہے استفا دہ کر ے ۔ لاکھوں کروڑوں سال کے پہلے آدم کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینے پر کھیتی کر نے میں مصروف ہے ۔ اس کھیتی کا ہر جزو آدم کی طر ح مٹی ہے ۔ جو کچھ بو تا ہے اس کا بیج بھی مٹی ہے ۔ پو دا بھی مٹی کی ایک شکل ہے درخت بھی مٹی کے اجزاء سے مرکب ہے اوریہ جو پُر شکوہ عما رتیں ہمیں نظر آتی ہیں،یہ بھی مٹی ہیں ۔ بڑی سے بڑی ایجادات کا بنیادی مسالا(RAW MATERIAL) بھی مٹی ہے ۔
آدمی جس طر ح سر سبز درخت اور ہرے بھرے اور لہلہا تے کھیت اگا تا ہے ،اسی طر ح عمارتیں ، تعمیرات اور دیگر اشیاء بھی اس کی زراعت کی پیدا وارہیں ۔
آدمی مٹی بو تا ہے اور مٹی سے ہی نتا ئج حاصل کر تا ہے ۔بوائی اور کٹائی کا یہ عمل متوا تراورمسلسل جا ری ہے کیوں کہ وہ اس زراعت کا فعال رکن ہے اور اسے ارادے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس لئے فصل بھی اسی کے مطا بق ہو تی ہے ۔ عمل اور رد عمل ،حرکت اور نتا ئج کے اس قانون کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فر ما یا ہے ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔‘‘
قول و فعل میں تضاد کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی جا نتا اور کہتا ہے کہ زمین پر وقفہء زندگی محدود ہے لیکن اس کا عمل اس روزمرہ مشاہدہ کے خلا ف ہے۔ وہ تمام تر زندگی اس خطوط پر گزارتا ہے جو فطرت کے اٹل قانون کے منافی ہیں۔ تخر یب کا نام اس نے تر قی رکھا اور فلاح و بہبود کے طلسمی نام پر مستقبل کی نا خوش گواریوں کو جنم دیتا ہے ۔ رو شن نگا ہ کا دعویٰ کر کے جو کچھ کر تا ہے وہ بد تر ین درجہ کی کو تا ہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سبحان اللہ !کیا خوب منظر نگا ری ہے ۔ایٹم بم کو تر قی کا نام دے کر انسان کی اعلیٰ صلا حیتوں کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ۔ یہ کو ئی نہیں سو چتا فلاح و بہبود کے دعویداروں نے ایک ایٹم بم کو لا کھوں قیمتی جا نوں پر فضلیت بخشی دی ہے ۔انسان قدرت کی دی ہو ئی صلا حیتوں کا امین ہے لیکن اس نے ان صلا حیتوں کو حر ص و ہوس ، خود غرضی اور انا پر ستی اور خود نما ئی جیسے جذبات کی تسکین میں اپنی ذات تک محدود عمل کے نتیجے میں آدمی کی ساری تو جہ اس فا نی دنیا میں مر کو ز رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال کی بنیا د بھی فا نی دنیا کی طر ح فنا ہو جا تی ہے ۔ چنا نچہ جب وہ دنیا بو تا ہے تو اسے دنیا ہی کا ٹنا پڑتی ہے ۔ چو نکہ دنیا فانی ہے ،اس لئے اس کے حصے میں فنا کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ بقا کی زندگی سے جس میں سکون ہے ،راحت ہے ،محُروم ہو جا تا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔