Topics
دادی اماں اتنی خوبصورت تھیں کہ پو رے خاندان میں ان کی خو بصورتی ضرب المثل تھی ۔ اتنی نیک تھیں کہ ان کی نیکی اور پا کیزگی کے چر چے عام تھے ۔اتنی سگھڑ اور سلیقہ شعار تھیں کہ ما ئیں اپنی بیٹیوں کو ان کی نگرانی میں دینا اپنے لئے فخر سمجھتی تھیں ۔ میں نے انہیں اس وقت دیکھا کہ جب ان کے منہ میں ایک بھی دانت نہیں تھا ۔ پو پلے منہ اور چہرہ پر جُھر یوں کو دیکھ کر ایک گل دستہ کا گمان ہو تاہے ۔ پن کیٹا میں کُوٹ کرپا ن کھا تی تھیں ۔ پان جب رنگ جماتا ،چہرے کی تمام جھر یاں رنگ رنگ ہو جا تیں ۔ میدہ اور شہد جیسےسفید اور سنہرے رنگ پر یہ سرخ رنگ ایسا سماں پیدا کر تا کہ دیکھنے والا محوِ حیرت ہو جا تااور وہ حُسنِ لم یزل کی تعریف میں گم ہو جا تا ۔
میں نے شعور کے زینے پر پہلا قدم رکھا تو یہ دیکھا کہ دادی اماں کی گود میں ہوں اور دادی اماں اللہ کے کلام کے وِرد میں مگن ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ رات کو سونے سے پہلے کلمہ شہادت پڑھوایا جا رہا ہےا ورپھر صبح بیدار ہونے کے وقت لا زم تھا کہ آنکھ کھلتے ہی کلمہَ طیبہ پڑھا جا ئے ۔
دادی اماں کہا نیاں بھی سنا تی تھیں ۔ہر کہا نی کا ایک ہی مفہوم ہو تا تھا کہ ہمارا تمہارا خدا با دشاہ ، خدا کا بنایا رسولﷺبا دشاہ ۔ اللہ نے اپنے رسولؐ بادشاہ کے پاس فر شتہ بھیجا اور فر شتہ سے کہلا یا ۔ ’’ہمارے پیارے محمد ﷺ ! تم پر یشان نہ ہو ، تمہار ے لئے مکہ کے سارے پہاڑ سونے کے بنا دیتے ہیں ۔ ‘‘
اللہ کے رسول، ہمارے حضور ﷺ نے کہا ۔ ’’نہیں، میں اپنے غر یب بھا ئیوں کے ساتھ خوش ہوں مجھے دنیا نہیں چا ہئے ۔ ‘‘
میں نے پو چھا۔’’اماں !یہ فر شتہ کیا ہو تا ہے ؟‘‘
"بیٹا !فر شتہ بھی ہماری طر ح اللہ کی بنا ئی ہو ئی مخلو ق ہے لیکن وہ اچھے اچھے کام کر کے فر شتہ بن گیا ہے۔‘‘
"اماں !آپ نے فر شتہ دیکھا ہے ؟‘‘
نہیں ، میں نے ابھی تک دیکھا تو نہیں لیکن سنا ہے کہ وہ جگ مگ کر تی رو شنیوں سے بنا ہوا ہو تا ہے ۔جب وہ اُڑتا ہے تو اس کے پرو ں میں سے چا ند ،سو رج اور ستاروں کی طر ح رو شنیاں نکلتی ہیں ۔ ‘‘
’’اماں ! آپ نے ہمارے حضور ؐکو دیکھا ہے ؟‘‘
’’ہاں بیٹے ، دیکھا ہے، ایک بار ۔‘‘
’’اماں ! ہمارے حضور ؐکیسے ہیں ؟‘‘
’’بیٹے ، چا ند کی طرح اتنے خوبصورت اتنے خوبصورت کہ بس اللہ ہی جانے ۔‘‘
تمام دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تر بیت کا پہلا گہوارہ اس کا گھر ہو تا ہے ۔ بچہ جو سنتا ہے وہی بو لتا ہے ، جو دیکھتا ہے وہی اس کا علم بن جا تا ہے ۔آج کے دور میں ہم نہیں دیکھتے کہ دادی اماں نے کبھی یہ کہا ہو کہ ہمارا تمہارا خدا با دشاہ ، خدا کا بنا یا رسول ؐبا دشاہ ۔ دن رات گانوں کی آوازیں ہمارے اعصاب پر محیط رہتی ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے کوئی ماں اپنے بچوں کو تلقین نہیں کر تی کہ کلمہَ شہا دت پڑھ کر سونا چا ہئے ،نہ کو ئی باپ اپنی اولاد کو بیدار ہو نے کے بعد کلمَہ طیبہ پڑھنے کو کہتا ہے ۔ کو ئی نہیں سمجھاتا کہ دولت پر ستی نوع انسانی کی زندگی کے لئے نا سور (CANCER)ہے ۔ تا ریخ بتا تی ہے کہ جب قوموں میں دو لت پر ستی عام ہو گئی وہ قومیں صفحہَ ہستی سے مٹا دی گئیں ۔ قومیں گنا ہوں سے نیست و نابود نہیں ہو تیں کہ گنا ہ تو معاف کر دئے جاتے ہیں ۔شرک ایک ایسا گناہ ہے جو کسی صورت معاف نہیں کیاجا سکتا ۔ اور دو لت پر ستی سب سے بڑا شرک ہے ۔ اس شر ک کو مہمیز دینے والے بڑے عوامل میں سے ایک بڑا گھناؤ ناعمل سُود ہے ۔سُود، جو رزق کو حرام کر دیتا ہے ۔
دادی اماں اور نا نی اماں ہمیں یہ کیوں نہیں بتا تیں کہ حرام رزق کھا نے والے کا کو ئی عمل قبول نہیں ہو تا ۔ حرام روزی کھا نے والے کی نماز ہو تی ہے اور نہ اس کا حج ہو تا ہے ۔ ہمارے بزرگ اس بات کا رو نا رو تے رہتے ہیں کہ نو جوان نسل بگڑ گئی ہے ۔ اس کے اندر اخلا قی قدریں با قی نہیں رہیں ۔ نو جوان نسل میں بزرگوں کاوہ احترام با قی نہیں رہا جو آج سے چا لیس سال پہلے تھا ۔ لیکن ہم بحیثیت بزرگ کے اپنے گر یبا نوں میں منہ نہیں ڈالتے کہ ہم نے اسلاف کے خون سے سینچی ہو ئی قدروں کو پامال کر دیا ہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اولاد والدین کے چشم و اَبرو کو دیکھ کر کام کرتی تھی ۔اور آج کا زمانہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اولاد سے والدین ڈرنے لگے ہیں ۔
یہ سب اس لئے ہے کہ والدین اولاد کی تر بیت ان خطوط پر نہیں کر تے جن خطوط پر ہماری تر بیت ہو ئی تھی۔آج کی ماں جب دادی بنتی ہے ، اس کے پاس لوری نہیں ہو تی جو بچہ کے شعور کو اللہ اور اس کے رسول ؐ سے آشنا کر تی ہے ۔ آج کی ماں جب نانی بنتی ہے تو بلا شک و شبہ اس کے اندروہ قدریں پو ری طر ح کام نہیں کر تیں جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہوں ۔ جب کہ ہم چا ہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل اسلاف کے نقوشِ قدم پراپنی زندگی تعمیر کر ے ۔ یقیناًیہ طر ز ِفکر ایسی دو عملی ہے جس کا نتیجہ خسر الدنیا والا خرۃکے علاوہ کچھ اور مر تب نہیں ہو تا ۔
یا د رکھئے !
قیامت کے روز یہ سوال نہیں کیا جا ئے گا کہ ہم نے اپنی اولاد کو کس قسم کے کھا نے کھلا ئے ہیں اور کیا لباس پہنایا ہے ۔ وہاں پو چھا جا ئے گا کہ تم نے اپنی اولاد کی تر بیت کیسے کی تھی ؟صحیح تر بیت کر نے والے والدین سُروخرو ہوں گے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو انعام یا فتہ ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔