Topics
لُو کے تھپیڑوں سے بچنے کے لئے کھڑ کیوں اور دروازوں پر دبیز پر دے ڈال کر کمرے میں اندھیرا کیا تو سکون ملا ۔اور جب اس اندھیرے میں پنکھے کے پروں کو ارتعاش ملا تو ٹھنڈک کا احساس ہوا اور خمار کی کیفیت طا ری ہو گئی ۔کمرے میں ہم چار دوست موجود تھے ایک صاحب صوفہ سے ٹیک لگا ئے نیم دراز تھے۔ دوسرے صاحب گو تم بُدھ کی نشست میں کمر سیدھی کئے ہو ئے نہ جا نے خلا کے اس پار کہاں گم تھے ۔ تیسرے صاحب کسی کتاب کے مطا لعے میں مصروف تھے اور کمرے میں موجود چو تھے صاحب کی ہیبت کذائی یہ تھی کہ جسم پر سوائے لنگی کے کچھ نہ تھا ۔ سماں ایسا تھاکہ جیسے کمرے کا ماحول ایک نقطے پر ٹہر گیا ہو۔ گو کہ چا رو ں حضرات نشست اور سو چ کے اعتبار سے الگ الگ اپنےاپنے خیال میں مگن تھے مگر سب میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ مشترک چیز یہ تھی کہ ان کی آنکھوں میں تفکر کے دیئے جل بجھ رہے تھے ۔ چا روں میں سے ایک نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ۔
دوستو! د وست کی تعریف کیا ہےاور سب سے بہتر دوست کون ہے ؟
وہ صاحب جو گو تم بُدھ کی نشست میں خلا میں گھور رہے تھے، اس سوال سے چو نک پڑے اور انہوں نے کہا۔’’سب سے بہترین دو ست انسان کا اپنا من ہے۔ ‘‘جس نے من کو سمجھ لیا من کے اندر اپنی مورتی کو دیکھ لیا، وہ دو ست سے واقف ہو گیا یعنی وہ خود اپنا دوست بن گیا ۔‘‘
تیسرے صاحب نے جو مطا لعہ میں مصروف تھے ، کتاب کے اوپر سے نظر ہٹا کر پو چھا ۔ ’’کسی کے لئے خود اپنا دوست بننا کیسے ممکن ہے ؟"
صوفے پر بیٹھے ہوئے صاحب بھی اس گفتگو میں شریک ہو گئے اور یوں گو یا ہو ئے "خود اپنا دوست بننا اس طر ح ممکن ہے کہ خود آدمی اپنے من سے واقف ہو جا ئے ۔ جب تک ہم زندگی کو محض جسمانی تقاضے پورا کر نے کا ذریعہ سمجھتے ہیں من اور رُوح سے دور رہتے ہیں ۔اور جب ہم جسمانی تقاضوں کی سطح سے بلند ہو کرسوچتے ہیں تو ہمارے اوپررُوح اور رُوح کی حقیقتوں کے دروازے کھل جا تے ہیں ۔ ‘‘
موضوع اتنا گمبھیر تھا کہ نقش و نگا رسے آراستہ اندھیر ے اور ٹھنڈےکمرے میں موجود چاروں حضرات اپنی پو ری علمی توانائیوں کے ساتھ اس مسئلے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سوال یہ اٹھا کہ من اور رُوح اور جسم میں کیا فرق ہے ۔ اگر جسم نہ ہو تو روح کے تقاضے کیا معنی رکھتے ہیں ۔اور اگر رُوح نہ ہو تو جسم کی حیثیت صفر رہ جا تی ہے ۔یہ کہنا کہ من اور رو ح کا رشتہ حقیقی رشتہ ہے اور جسم کا رشتہ فا نی اور غیر حقیقی رشتہ ہے کس طر ح تسلیم کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ہم پہلے جسم کو جا نتے ہیں ،پھر رو ح سے واقف ہو تے ہیں اور رو ح سے جس قدر واقف ہے اس کی حیثیت محض علمی ہے ، مشاہدتی نہیں ہے ۔ جب کہ جسم کی حیثیت علمی بھی ہے اور مشا ہدا تی بھی۔
لنگی پو ش بہت دور کی کو ڑی لا ئے ذرا بلند اور گر ج دار آواز میں بو لے "جسمانی وجود کا انحصا ر رُوح پر ہے رُوح کا انحصار جسمانی وجود پر نہیں ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ رُوح کے بغیر آدمی کی حیثیت ایک لا ش کے علاوہ کچھ نہیں ۔جب تک رُوح گو شت پو ست کے وجود سے تعلق قائم رکھتی ہے،گوشت پوست کے وجود میں حر کت موجو د رہتی ہے ، یہ گو شت پو ست کا وجو ددیکھتا بھی ہے ، سنتا بھی ہے ، چھو تا بھی ہے ، بولتا بھی ہے، تپش اور ٹھنڈک کی لہروں کو محسوس بھی کرتا ہے لیکن اگر رُوح اس گوشت پوست کے وجود سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو یہ جسمانی وجود نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے ۔روح کی مو جودگی میں جسم کے کسی عضو پر سوئی کی نوک رکھ دی جا ئے تو آدمی چبھن محسوس کر تا ہے اور رُوح کی عدم موجودگی میں کسی بڑے دھا ردار ہتھیار کی مدد سے جسم کا ایک ایک عضو کاٹ دیا جا ئے ،الگ کر دیا جا ئے تو وجود کچھ بھی محسو س نہیں کر تا اور نہ اس کے اندر قوت مدافعت ہو تی ہے۔ زندگی کے اس عمل سے یہ بات ثابت ہوجا تی ہے کہ انسان کی اصل رُوح ہے،گو شت پو ست کا وجود نہیں ہے ۔اگر کو ئی بندہ اپنےمن، اپنی رُوح سے واقف ہے تو وہ اپنا دوست ہے اور اسکے برعکس اگر کو ئی بندہ صرف اپنے گو شت پوست کے وجود کو سب کچھ سمجھتا ہے تو وہ اپنا دشمن ہے۔ جس شخص کے اندر رُوحانی زندگی کا کوئی تصور موجود نہ ہو من اس کا دشمن ہے۔اگر کو ئی بندہ من سے کو ئی کثیف کا م لینا چا ہتا ہےتو من اس کی خدمت کر نے سے انکار نہیں کر تا۔ وہ اُسے مادیّت اور ٹائم اسپیس کے جال میں جکڑ دیتا ہے اور اگر کوئی بندہ من سے رُوح کا سراغ چاہتا ہے تو من اُسے ایک اچھے اور مخلص دوست کی طرح روحانی رشتوں سے متعارف کرادیتا ہے اور من اُسے نہ صرف بتا دیتا ہے بلکہ دکھا بھی دیتا ہے کہ رُوح پاک ہے ، جسم کثیف ہے۔ اس کے اُوپر یہ بات بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ جسم کی ساری خوشیاں جسم کی طرح عارضی ہیں اور رُوح چوں کہ خود مستقل خوشی ہے، اس لئے روحانی لوگ خوش رہتے ہیں۔ خوف اور غم کے سائے ان سے دور بھاگ جاتے ہیں۔ یہ مادی دنیا اور گوشت پوست کے جسم کی دُنیا دوئی کی دنیا ہے۔ ابھی ہم سکھی ہیں اور ابھی ہم دکھی ہیں ۔جو بات ہمارے لئے عزت کا با عث ہے وہی بات لمحہ بھر بعد ہمارے لئے بے عزتی بن جا تی ہے ۔دوئی کی اس مادی دنیا میں کسی چیز کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم سُکھ ، دکھ ، عزت، بے عزتی ، سردی اور گرمی کے تضاد کو سمجھ لیں۔ جب تک مجھے یہ علم نہیں ذلت کیا ہے عزت کا مفہوم میرے ذہن میں نہیں آتا ۔جب تک میں مصیبت کی چکی کے دو پٹوں میں نہیں پستا،میں خوشی کو نہیں سمجھتا۔ اس تضاد سےگزرنے کے لئے مادی دنیا کی دوئی سے خود کو آزاد کر نا ہو گا ۔ جب کو ئی شخص ما دی دنیا کی اس دو ئی سے گزر کر خود شناسی کے علم کا طالب بن جاتا ہے تو وہ ہر چیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہےخواہ وہ کنکر ہوں ، پتھر ہوں یا سونا ہو ۔اور جب تک کو ئی بندہ خود شنا سی کے علم سےنا واقف رہ جا تا ہے اس کا من بے چین اور بے قرار رہتا ہے ۔من کی بے چینی اور بے قراری دور کر نے کے لئے ایک مخصوص طر ز فکر کو اپنا نا ضروری ہے اور یہ طر ز فکر آزاد طر ز زفکر ہے۔"
لنگی پوش نے کہا کہ یہ آزاد طر زِ فکر دراصل قلندر شعور ہے ۔ من سے دوستی کا رشتہ مستحکم کر نے کے لئے قلندر شعور ہمیں راستہ دکھا تا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ یہاں ہمارا نہ کو ئی دشمن ہے نہ کو ئی دوست ہے ۔ہم خود ہی اپنے دو ست ہیں ،خود ہی اپنے دشمن ہے ۔ قلندرشعور جب حر کت میں آجا تا ہے تو بندہ یہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات ایک اسٹیج ڈرا مہ ہے ۔ اس اسٹیج پر کو ئی با پ ہے ، کو ئی ماں ہے ، کو ئی بچہ ہے ، کو ئی دوست ہے ، کو ئی دشمن ہے کو ئی گنہگار ہے ، کوئی پاکباز ہے۔ دراصل یہ اسٹیج پر کام کر نے والے کرداروں کے مختلف روپ ہیں ۔ جب ایک کر دار یا سب کردار اسٹیج سے اتر جا تے ہیں تو سب ایک ہو جا تے ہیں اور ان کے اوپر سے دنیا کی دو ئی کا طلسم ٹوٹ جا تا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔