Topics
مذہب کے بارے میں جب ہم گفتگو کر تے ہیں تو ابتدائی طور پر جس احساس سے واسطہ پڑتا ہے وہ خوف اور ڈر کا احساس ہے۔ ہمار ے رہنما ؤں نے اس بات کی پو ری پو ری کو شش کی ہے کہ مذہب کے سلسلے میں اس احساس کی امتیازی خصوصیت کو متعین کر دیں۔۔۔ احسا س کی درجہ بندی کی گئی توکئی طبقے وجود میںآئے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ___
"ان دیکھی کسی قوت کے محتاج ہو نے اور اس پر اپنی زندگی کاانحصار کر نے کا نام احساس ہے ۔ ‘‘
دو سرا گر وہ کہتا ہے کہ۔۔۔
’’احساس خوف سے پیدا ہو تا ہے۔‘‘
تیسرا گر وہ احسا س کا تعلق جنسی زندگی سے جوڑتا ہے۔ چو تھا گر وہ کہتا ہے کہ احساس ایک لا محدود اور غیر متغیر ہستی کے احساسات کی انسپائریشن INSPIRATIONہے ۔
ایک عام آدمی ان اختلافات کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں لا محالہ یہ شک جنم لیتا ہے کہ فی الواقع احساس کوئی چیز ہے بھی یا نہیں اور شک ایسی بھول بھلیوں میں تبدیل ہو جا تا ہے کہ آدم زاد مذہب سے انکار کر دیتا ہے ۔
مذہب کا مضمون اتنا ہمہ گیر اور وسیع ہے کہ اس کی پو ری وسعت کا احاطہ کر نے کا دعویٰ ایک لایعنی اور فضول بات ہے لیکن اپنی دانست اور کم شعوری کے دائرے میں رہتے ہو ئے اگر مذہب کی تعریف کی جا ئے تو دو رخ سامنے آتے ہیں۔ مذہب کا ایک رخ شرعی ہے اور دو سرا رخ شخصی یا ذاتی ہے ۔مذہب کی ایک شاخ ایک واحدہستی کو ماننے کا دعویٰ کر تی ہے اور دو سری شاخ عقلی دلا ئل اور شخصی تو جیہات سے انسانی نفسیات کا ذکر کر کے نظر نہ آنے والی ہستی کا انکار کر تی ہے ۔شخصی مذہب سیاسی مذہب ثابت ہوا ہے اور شرعی مذہب چا ہتا ہے کہ عبادت ، قربانی اور دیگر شعائر کے تحت ایک ضابطہ َحیات بنا کر ایسی تنظیم قائم کی جا ئے جہاں پو ری نوع انسانی ایک پلیٹ فا رم پر آجا ئے ۔
شرعی مذہب کے پیرو کار خوف کے احساس کے ساتھ ماورا ء ہستی کی پرستش کر تے ہیں ۔لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ماورا ء ہستی کو آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ ایک اور گروہ جسے صوفیا کہا جا تا ہے اس کا کہنا ہے کہ ماورا ہستی ہرگز کوئی خو فنا ک ہستی نہیں ہے ۔ یہ ما ورا ءہستی ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کر تی ہے ۔یہ کبھی مشاہدے میں نہیں آیا کہ ماں نے بچے کو آگ کےاَ لاؤ میں جھونک دیا ہو___ اس گر وہ کا یہ دعویٰ بھی ہے ہر خاص و عام ما ورا ءہستی کو دیکھ سکتا ہے ۔اور دنیا میں را ئج شماریات سے زیادہ ایسی مثالیں، ایسے واقعات اور کیفیات موجود ہیں جو ہزاروں سال پر محیط ہیں ۔
کلیہ یہ ہے کہ ڈر اورخوف دو انسانوں کے درمیان ،ایک انسا ن اور درندہ کے درمیان ،ایک انسان اور سانپ کے درمیان دوری اور بُعد کی دیوار کھڑی کردیتے ہیں ۔اس کے متضاد محبت سے قربت کا احساس وجود میں آتا ہے ۔
جب دوری واقع ہو تی ہے تو لا محالہ ذہن میں خو ف اور وسوسے در آتے ہیں ۔جیسے جیسے قربت کا احساس کم ہوتا ہے ،آدم زاد اپنا خوف کم کر نے کے لئے خود اپنے ہا تھوں سے کئی صورتیں بنا لیتا ہے اس نقطہ ءارتکا ز سے بت پر ستی شروع ہو جا تی ہے ۔بتوں کی موجود گی آدم زاد کے اندر سے حقیقت کے جو ہر ختم کر دیتی ہے ۔ حقیقت کے جو ہرسے محرومی کا نام جا دو ہے ۔اس مقام سے انسانی نفسیات میں عجیب عجیب شگوفے پھوٹتے ہیں ۔ پھر یہ شگوفے اپنی ایک طر ز ِفکر اور طرزِ استدلال بنا لیتے ہیں اور بر ملا اس بات کا اعلان ہو جاتا ہے مذہب اور رُوحانیت محض خیالی چیز ہے ۔ صوفیا ء کہتے ہیں اگر اس استد لال کو تسلیم بھی کر لیا جا ئے کہ مذہب اور روحانی کیفیت محض خیال ہے توپھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لا مذہبیت ، کفر اور وسوسوں سے معمور احساسات بھی خیالی با تیں ہیں ۔ صوفیا ء حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ہم یہ فر ض کر بھی لیں کہ رو حانیت اور مذہب خیالی تا نے با نے پر بنا ہو ا ہے ۔ تو اس حقیقت کو کیسے بھلا یا جا سکتا ہے ۔کہ ایک مذہبی رو حانی آدمی کے اندر سکون ہو تا ہے ،قنا عت ہو تی ہے، وہ ایسے کا م کر تا ہے جن کا موں سے ان کی نوع اور انسانی بر ادری کو آرام ملتا ہے ۔اس کے اندر ایسی غیر مر ئی قوتیں پیدا ہو جا تی ہیں جن قوتوں میں عوام الناس کی فلاح مضمر ہے ۔اسکے بر عکس لا مذہب لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جا ئے تو با وجودیہ کہ ان کے پاس دنیا وی وسائل کے انبارہیں مگر ان کے اندر وہ سکون نہیں ہو تا جو ایک رو حانی آدمی کے اندر ہوتا ہے۔یہ با ت ہر با لغ اور با شعور آدمی کے سامنے ہے کہ جو شخص کمینی حر کت کر تا ہے، اس کی زندگی میں پستی اور نا ہمواری داخل ہو جا تی ہے ۔نا پاک شئے کو دھو یا جا ئے وہ پاک ہو جا تی ہے ۔ انصاف پسند شخص کے اندر خدا کا عدل ہو تا ہے ۔ عدل ،انصاف، مر وت اور رحم دلی کے نتیجے میں ماوراء ہستی انسان کے اندر داخل ہو جا تی ہے ۔
ریا کار اوردھو کے باز شخص ، مطلب پر ست اور مصیبت نا آشنا شخصیتیں چو نکہ خود کو دھو کہ دیتی ہیں ۔ اس لئے منا فقت پیدا ہو جا تی ہے اور اس کے اندر وسوسوں کا عفر یت داخل ہو جا تا ہے ۔ جس کے نتیجے میں آدم زاد جو فر شتوں کا مسجود ہے ، اپنی ذات سے نا آشنا ہو جا تا ہے ۔
اہل ِنظر اور بصیرت والے بڑے لوگ کہتے ہیں کہ سیرت کے تا ثرات کبھی چھپے نہیں رہتے ۔یہ ایک مسلمہ ہے کہ خیرات کر نے والے لوگ کبھی مفلس نہیں ہو تے ۔زندگی کے اعمال میں جھوٹ کی تھوڑی سی آمیزش بھی قول و فعل میں تضاد پیدا کر دیتی ہے ۔
سچ ایک ایسی حقیقت ہے جو زمین کے ایک ایک ذرہ کو منور کرتی رہتی ہےاورزمین کا ایک ایک ذرہ پکا رکر اعلان کر تا ہے کہ یہ انسان سچ کا پیامبر ہے ۔ کیا کو ئی شخص یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہےکہ غلط کا ری سے اس کے وجود میں کمی واقع نہیں ہو تی ۔
آئیے، اس فلسفیانہ بحث کو چھوڑ کر نتیجہ پر غور کر یں۔ اللہ ،بھگوان ، نروان ، گاڈ ، ایل ، ایلیا ،ماورا ہستی ہر خاص و عام کی سر پر ست ہے ، نگراں ہے ، ابتداء ہے اور انتہا ہے۔ نگرا ں ذات سے خوف بندہ کو دور عمیق سمندر میں پھینک دیتا ہے ۔محبت سے قربت کا احساس جنم لیتا ہے ۔ماورا ء ہستی اللہ سے جتنی محبت کی جا ئے وہ ہستی اس منا سبت سے دس گنا بندے کی طر ف متوجہ ہو جا تی ہے ۔ دو ستی کا وصف قربت ہے نہ کہ دوری ۔ دو ست کو دو ست سے نہ خوف ہو تا ہے اور نہ غم ۔
آدم و حوا کے بیٹوں اور بیٹیوں کو عہد کر نا چا ہئے کہ ماورا ء ہستی اللہ سے آج کے بعد ڈریں گے نہیں ۔ اس سے محبت کر یں گے اس لئے کہ ما ورا ہستی خود اعلان کر رہی ہے ۔
’’اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہو تا ہے اور نہ انہیں غم ہو تا ہے ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔