Topics
میں چا ہتا ہوں کہ آپ کو وہ گر بتا دوں جس سے اسفل آدمی اشرف المخلوقات بن کر اللہ تعا لیٰ کی با دشاہی میں قدم رکھ دیتا ہے اور اس کی مداومت سے با لآخر وہ اللہ کی بادشاہی میں ایک رکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔
آپ نے کبھی غو ر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیا کا م کر تے ہیں ؟
اللہ بحیثیت خالق کے ہر وقت ، ہر لمحہ اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت کر رہا ہے ۔ پیدا ئش سے موت تک کی زندگی کا احا طہ کیا جا ئے تو یہی نظر آتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں، پیدا ئش کے بعد ایام رضا عت (بچپن )میں ،لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ وہ تمام ضروریات اور وسائل فراہم کر تے ہیں جن کی آدمی کو ضرورت ہو ۔ ہوا ہو ، سورج کی رو شنی ہو ، چاند کی چا ندنی ہو یا زمین کے اندر وسائل پیدا کر نے کی صلا حیت ہو ،ایک مر کز اور ایک قانون کے تحت آدمی کی خدمت گزاری ان کی ذمہ داری ہے ۔ خدمت کا یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص نظام اور قانون کے تحت قائم و دائم ہے ایسا قانون جو اللہ تعالیٰ نے خود بنا یا ہے اور خود اس کو جا ری رکھے ہو ئے ہیں ۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جب ہم کسی سے قربت چا ہتے ہیں تو اس کی عادات و اطوار اختیار کر لیتے ہیں ۔ آپ کسی نمازی سے دو ستی کر نا چا ہتے ہیں تو آپ نمازی بن جا تے ہیں ۔کسی تا ش کھیلنے والے سے دو ستی قائم کر نا چا ہتے ہیں تو تا ش کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم شیطان سے قربت کے خوگر ہیں تو شیطان کے اوصاف پسند کر تے ہیں اور اگر ہم رحمان سے قربت چا ہتے ہیں تو رحمان کی عادت و صفات اختیار کر تے ہیں ۔اور رحمان کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کیخدمت میں ہمہ وقت مصروف ہے ۔
پس اگر آپ اللہ ، اپنے خا لق سے متعارف ہو کر اس کی قربت اختیار کر کے کا ئنات پر اپنی حا کمیت قائم کر نا چا ہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیجئے ۔بلاشبہ اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہیں اور دوست پر دوست کی نوازشات و اکر امات کی ہمیشہ با رش بر ستی ہے ۔
ترجمہ:یہ بڑائی اللہ کی ہے ، دیتا ہے جس کو چا ہے ، اور اللہ کافضل بڑا ہے ۔ (القرآن)
آج تک نوع انسانی نے جو تہذیبی پیش رفت کی ہے اس کا ایک اہم پہلو تا ریخ کے حوالے سے حال کی صورت گر ی اور مستقبل کی نشاندہی ہے۔ مروجہ تمام علوم کسی نہ کسی جہت سے انسان کے حال کو بہتر بنانے اور یقینی مستقبل کی ضمانت فراہم کر نے کی جدو جہد میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ کہا جا تا ہے کہ تاریخ کا علم سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
آج ہم جانتے ہیں کہ ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تہذیبیں اسی زمین پر ظاہر ہو ئیں اور پھر معدوم ہوگئیں کہ صرف آثار با قی رہ گئے۔ تباہ ہو نے والی ان قوموں کا تذکرہ صرف زمانہ قبل از تا ریخ پر کی جا نے والی تحقیق میں ہی نہیں ملتا بلکہ نوع انسانی کی مر بوط و مسلسل تا ریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔
جب ہم ان عوامل کا کھوج لگا تے ہیں جو ان قوموں کی مکمل تبا ہی میں کار فر ما ہیں توہمارے سامنے یہ بات کھل کر آجا تی ہے کہ جن قوموں کا رشتہ دنیا سے مستحکم اور اپنی رُوح سے کمزور ہو گیا یابالآخر ان کے اوپر حرص و طمع اور لالچ غالب آگیا ۔ ایسی قوموں کا مقصدِ زندگی صرف اور صرف دنیا کا حصول بن جا تا ہے اور کبھی نہ ختم ہو نے والی حرص و ہوس کی دوڑ میں پو را معاشرہ اس طر ح گر فتار بلا ہو جا تا ہے کہ کو ئی صورت با ہر نکلنے کی با قی نہیں رہ جا تی۔ شرافت و نجا بت ، تقوی و پا کیزگی کی حیثیت ختم ہو جا تی ہے جس کے گھر میں مال و دولت کے انبار ہیں اور جس کے پاس آسائش و آرام کا ضروری غیر ضروری سامان موجود ہے اور وہ معاشرہ میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے جبکہ اس بات سے ایک فرد واحدبھی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ سب عارضی اور مفروضہ ہے اور آخر کار سب کچھ چھوڑ دینے پر ہر شخص مجبور ہے کو ئی چیز اس کے ساتھ نہیں جا تی اور جو چیز اس کے ساتھ جا تی ہے جس سے وہ دوسری دنیا میں آرام و سکون حاصل کر سکتا ہے ،اس سے وہ تہی دامن جا تا ہے ۔دنیا میں ایسے بندے کو جس کے پاس آخرت کے لئے کو ئی اثاثہ نہیں ہو تا مصائب و آلام اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ زندگی دشوار ہو جا تی ہے۔ رنج و غم ہیبت ناک شکلیں اختیار کر کے اس کو مر دہ بدست زندہ بنادیتے ہیں ۔ جب یہ صورت حال انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتما عی ہو جا تی ہے تو قومیں تباہ وبر باد کر دی جا تی ہیں یا پھر ان کے چہرے مسخ ہو جا تے ہیں ۔
دنیا کی محبت ان کو بزدل بنا دیتی ہے۔ وہ موت جیسی حقیقی زندگی سے خوف زدہ رہنے لگتے ہیں۔ نفس پر ستی ، عیاشی ، پراگندگی، فتنہ انگیزی ظلم و ستم عام ہو جا تا ہے ۔ دو سری قومیں طر ح طر ح کے جال بچھا کر اور مال وزر کے لالچ میں مبتلا کرکے ان کم ہمت قوموں کے وجود کو ختم کر دیتی ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔