Topics
آئیے اس نشست میں ہم زندگی اوراس کے تقاضوں کی ما ہیت پر غوروفکر کر تے ہیں ۔ یہ بات ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ زندگی تقاضوں کے دوش پر سفر کر رہی ہے ،ہمارے اندر تقاضے پیدا ہو تے ہیں اور ہم ان کی تکمیل کر تے ہیں۔ ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم بھوک رفع کر نے کے لئے غذا کی طر ف متوجہ ہو تے ہیں ۔پیاس لگتی ہے تو فو راً ہمارا رحجان پانی کی طر ف ہو جا تا ہے ۔ ہم کھا نا کھا لیتے ہیں ،پا نی پی لیتے ہیں ۔یعنی تقاضوں کی تکمیل کر لیتے ہیں ۔اس طر ح ہمیں تسکین مل جا تی ہے اور ہم مطمئن ہو جا تے ہیں ۔
اگر ہم کسی تقاضے کو نظر انداز کر تے ہیں تو ہما را ذہن اس میں الجھ کر رہ جا تا ہے اورہمیں بار بار اس کی عدم تکمیل کی طر ف متوجہ کر تا رہتا ہے ۔اس کے نتیجے میں ہم بے چینی کاشکار ہو جا تے ہیں۔ اضطراب اور پر یشانی ہمارے اندردور کر نے لگتی ہے۔ ہم کو ئی بھی کام ارتکاز توجہ سے نہیں کر سکتے ۔ با ر بار ہماری توجہ بھٹک جا تی ہے ۔
تمام تقاضوں کا یہی حال ہے ۔اور کھا نا پینا ، خوش ہو نا ، محبت کر نا ، معاش کا کام کر نا ، اولاد کی تعلیم و تر بیت کر نا ، ایثارو محبت، دوسروں کے کام آنا الغرض زندگی کا ہر عمل کسی نہ کسی تقاضہ کا نتیجہ ہو تا ہے ۔یہ تقاضے دنیا کے ہر آدمی میں پیدا ہو تے ہیں او ر دنیا کا ہر آدمی کسی نہ کسی طرح کبھی نہ کبھی، جلد یا بہ دیران تقاضوں کی تکمیل کر کے اطمینان حاصل کر تا ہے ۔
جسم کے تقاضوں کی طر ح انسان کی رُوح میں بھی تقاضے ہو تے ہیں ۔رُوح کے تقاضے بھی انسانی شعور کو یہ احساس دلا تے ہیں کہ ان تقاضوں کی تکمیل ہو نی چاہئے ۔روحانی تقاضے اور ان کی تکمیل جسمانی تقاضوں سے زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ان کے نتا ئج جسمانی تقاضوں کے مقابلے میں زیادہ مسلسل اور عظیم الشان ہو تے ہیں اور ان کی تکمیل کے نتیجے میں انسان کو بہت زیادہ سکون ، بہت زیادہ طمانیت کا احساس ہو تا ہے یہاں تک وہ کہ ہرفکر کوبھول جا تا ہے۔ ایک سر شار ی اور ایک کیف اس کے ذہن کا احاطہ کر لیتاہے چاروں طر ف سے خوشی اور خوشی کے لوازمات اُسے حصارمیں لے لیتے ہیں۔ اور کسی غم یا کسی پر یشانی کو اس کے پاس بھی بھٹکنے نہیں دیتے۔
ا ن روحانی تقاضوں میں سب سے اہم اورسب سے زیادہ بنیادی تقاضہ جو ہر انسان کے اندر پیدا ہو تا ہے وہ انسان کو احساس دلا تا ہے کہ اسے اپنے اللہ سے رابطہ پیدا کر نا چا ہئے اور اسے ان خوشیوں اور مسر توں سے بہرہ مند ہو نا چا ہئے جوکہ اس رابطہ،اس قربت کا لازمی نتیجہ ہیں ۔انسان کی رُوح اس خوشی اور اس مسرت کے حصول کے لئے بے قرار ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان اس ذہن کو پست پشت ڈال چکا ہے جو اسے ایسے تقاضوں اور ان کی تکمیل کی اہمیت سے آگاہ کر تا ہے۔ انسان نے چند رو زہ مادی زندگی کے عارضی تقاضوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔جسم فانی ہے اور جسمانی خو شیاں اور غم بھی عارضی ہیں ۔یہ سب جسم کی مو ت کے ساتھ ہی فنا ہو جا ئیں گے ۔ روح لا فانی ہے ۔ اس لیے ہر وہ چیز جو روح سے متعلق ہے اپنے اندر لا فانیت کا پہلو رکھتی ہے ۔ روحا نی تقا ضو ں کی تکمیل کے نتیجے میں جو روحا نی خو شی حا صل ہو تی ہے وہ ہمیشہ کی مسر ت و آرام کی ضا من ہو تی ہے ۔
لیکن المیہ یہ ہے ،کہ جیساکہ ہم ابھی کہہ چکے ہیں انسان ان سب با توں کی اہمیت کو فراموش کر چکا ہے ،وہ اپنی روح سے دور ہو چکا ہے اور رو حانی تکمیل کی طر ف سے لا پر وا ہو گیا ہے لیکن اس کی رُوح اسے اب بھی ان تقاضوں کی تکمیل کی طرف متوجہ کر تی رہتی ہے ۔ انسان اسے خواہ کچھ بھی معنی پہنائے، اسے کسی بھی مفہوم میں قبول کر ے اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ رو ح کے بار بار خبردار کر نےپر بھی جب ہم اس کی تکمیل نہیں کر تے تو تقاضے کا رد عمل ظاہر ہو تا ہے۔ یہ وہی رد عمل ہے جو جسمانی تقاضوں کی عدم تکمیل سے بھی پید اہو تا ہے ۔
اس رد عمل کی کیفیت مذکورۂ اولیٰ کیفیت سے بہت زیادہ بڑھی ہو ئی ہو تی ہے ۔کبھی اس کیفیت کو ا نسان ذہنی انتشا رکی صورت میں محسوس کر تا ہے، کبھی بے اطمینانی اور عدم سکون سے تعبیر کر تا ہے،کبھی عدم تحفظ کے احساس کی حیثیت دے دیتا ہے۔ لیکن یہ سب ایک رو حانی تقاضے کی عدم تکمیل کے( SIDE EFFECTS )ہیں۔ اوروہ تقاضہ یہ ہے کہ انسان کی رُوح چا ہتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کر ے اور اس طر ح اپنے اصل مقام پر جسے وہ ما ضی میں رد کر چکا ہے فا ئز ہو جا ئے اور اس طر ح ہر پر یشانی اور غم سے محفوظ اور مامون ہو جا ئے ۔
لہٰذا
ہم سب کے لئے لازم ہے کہ ہم رُوح کے اس تقاضے کی تکمیل
کے لئے عملی اقدام مر اقبہ کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری رہنما ئی فرمائے ۔
اٰ مین!
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔