Topics
سوچ کی دو طر زیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طر ز یہ ہےکہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ہم اپنے اردگردکے ماحول سے متاثر ہو کر وسائل کے انبار میں خود کو قید کر لیتے ہیں اور ہمارے سامنے آسائش و آرام اور روٹی کپڑے کے علاوہ دوسری کو ئی بات نہیں آتی اور اسی کو ہم زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ۔
دوسری طرز یہ ہے کہ اعتدال کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں ہم نے کیا پا یا اور کیا کھو یا ہے ۔ دنیا میں عزت و جاہ کا خوش نما لباس زیب تن کر نے کے لئے ہم دولت جمع کرتے ہیں ۔ اس دولت کی تشہیر کے لئے عالیشان محلات کھڑے کر تے ہیں ۔ گھروں میں تزئین و آرائش کے ایسے ایسے سامان رکھتے ہیں جن سے اس بات کا اظہار ہو کہ ہماری اپنی ایک حیثیت ہے ۔
جہاں تک دولت کے انبار جمع کر نے سے عزت و تو قیر کے حصول کا تعلق ہے یہ ایک خود فر یبی ہے، ایسی خود فر یبی جس سےایک فرد ِواحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔فراعین ِمصر کے محلات ،قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ تاریخ خود کو دوہراتی رہتی ہے اور ہر زمانے میں دولت کی حقیقت کو ہمارے اوپر آشکار کر تی رہتی ہے ۔بڑے بڑے شہنشاہوں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے ۔ ایسا بھی ہو ا ہے کہ پو ری شان و شوکت اورشاہی دبدبہ کے با وجود ما درِ وطن میں قبر کے لئے جگہ بھی نصیب نہیں ہو ئی ۔
سونے چا ندی کے ذخیروں اور جوہرات کے ڈھیر نے دنیا کے امیرتر ین آدمیوں کے ساتھ کتنی وفا کی؟کیا یہ حقیقت ہمارے لئے درسِ عبرت نہیں ہے ؟
مٹی صرف خود کو پہچانتی ہے اور اپنے ایک ایک عضو کو اپنی کوکھ سے وابستہ رکھتی ہے ۔مٹی کواگر ایک فر د مان لیا جا ئے تو مٹی سے بنی ہو ئی ہر چیز مٹی کے اعضا ء ہیں ، تا نبا ، لو ہا ، جوہرات ، سونا ،چا ندی وغیرہ مٹی کے وہ اعضا ہیں جن پر مٹی کا تشخص قائم ہے ۔ آدمی کا جسم بھی مٹی سے مر کب ہے لیکن آدمی چو نکہ اللہ کی امانت کا امین ہے ،اس لئے مٹی کا شعور آدمی کودوسرے اعضا کے مقابلے میں اپنا قلب سمجھتا ہے اور جب کسی جسم میں قلب متا ثر ہو جا تا ہے تو بالآخر جسم مفلوج اور نا کارہ بن جا تا ہے ۔مفلوج اور ناکا رہ جسم کی حیثیت زمین پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہتی ۔
یہ بات کس کے علم میں نہیں ہے ؟ آدمی چا ہے تو پچاس کمروں کا مکان بنا لے لیکن سو ئے گا وہ ایک ہی چا ر پا ئی کی جگہ ۔ چا ہے تو ہوسِ زر میں سونے چا ندی (مٹی کے ذرات )سے خزانے بھر لے لیکن پیٹ کے ایندھن کو پو را کر نے کے لئے اسے دو ہی روٹی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ماحو ل کو مصنو عی رو شنیوں اور خوشبوؤں سے کتنا ہی رنگین اور معطر کر لیا جائے آدمی کے اندر کی سڑاند کا یہ نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔
زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چا ہتی ہے اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور جب اولاد تعفن سے نکلنا نہیں چا ہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے اور اس ادبار کی وجہ سے انسان گھنا ؤنا اورناسورزدہ ہو جا تا ہے۔ بلا شبہ کسی بندہ کے لئے اس سے بڑا دردناک عذاب اور کوئی نہیں ۔ قرآن کہتاہے:۔
’’اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر تے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کر تے ، ان کے لئے عَذَابُ اَلِیمْ کی بشارت ہے ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔