Topics
خداوند اقدس و مکرم نے جب حضرت آدم علیہ السلام
کو پیدا کیا تو ان کو فرشتوں کی ایک جماعت کے پاس جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جائو
اور ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور وہ سلام کے جواب میں جو دعا دیں اس کو غور
سے سن کر حافظہ میں محفوظ کر لو۔ اس لئے کہ یہی تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے دعا
ہو گی۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں کے پاس پہنچے اور کہا……السلام علیکم۔
فرشتوں
نے جواب دیا……السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ یعنی فرشتوں نے ورحمتہ اللہ کا اضافہ کر کے
حضرت آدم علیہ السلام کے سلام کا جواب دیا۔
دنیا
کا ہر آدم زاد آپ کا بھائی ہے۔ میں آپ کا بھائی ہوں، آپ میرے بھائی ہیں۔ وہ میری
بہن ہے، میں اس کا بھائی ہوں۔ ان سب بہن بھائیوں میں من حیث القوم پہلے قرابت داروں
کا حق زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اوپر نوع انسانی کے
حقوق عائد نہیں ہوتے۔ کنبہ برادری، ملک و قوم اپنی جگہ، ہر آدم زاد پر دوسرے آدم
زاد کا حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ایک باپ آدم اور ایک ماں حوا کے رشتے سے ہم اپنے
بھائیوں اور بہنوں کو دعوت حق دیں۔ دعوت حق قبول کرنے والا کسی بھی علاقہ کا ہو، کسی
رنگ اور نسل کا ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، آپ کا اس سے تعارف ہو یا نہ ہو آپ
اس کے ساتھ خلوص محبت کا اظہار کر کے سلام میں پہل کیجئے۔ آپ اپنے گھروں میں جب داخل
ہوں تو گھر والوں کو بھی سلام کریں۔
آپ
جب اپنے بھائی، اپنے عزیز، اپنے دوست سے ملاقات کے وقت السلام علیکم کہتے ہیں تو اس
کے معانی یہ ہوتے ہیں کہ آپ نے اپنے بھائی کے لئے دل کی گہرائی سے دعا کی ہے کہ اے
اللہ! اس کے جان و مال کو سلامت رکھ، اس کے گھر بار کی حفاظت فرما، میرے بھائی کے اہل
و عیال اور متعلقین کی سلامتی کے ساتھ حفاظت فرما۔ اس کی دنیا بھی اچھی ہو اور دین
بھی روشن اور تابناک ہو۔ اے اللہ! میرے بھائی، میرے عزیز، میرے دوست اور میرے ہم جنس
کو ان نوازشات سے نواز دے جو میرے علم میں ہیں اور ان انعامات سے مستفیض فرما جو میرے
علم میں نہیں ہیں۔
جب
ایک بھائی دوسرے بھائی کو سلام کرتا ہے تو دراصل وہ کہنا چاہتا ہے کہ:
’’اے
میرے بھائی! میرے دل میں تمہارے لئے خیر خواہی، محبت و خلوص، سلامتی اور عافیت کے انتہائی
گہرے جذبات موجزن ہیں۔ تم بھی میری طرف سے اندیشہ نہ کرنا۔ انشاء اللہ میرے طرز عمل
سے تمہیں بھی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ السلام علیکم کے معانی اور مفہوم کو اگر شعوری حواس
کے ساتھ سوچ سمجھ کر زبان سے ادا کیا جائے تو مخاطب کے اندر یگانگت، قلبی تعلق اور
وفاداری کے جذبات پیدا ہوں گے۔
نبی
مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نوع انسانی کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب بھی کوئی ایک دوسرے
سے میل ملاقات کرے تو دونوں مسرت و محبت کے جذبات کا تبادلہ کریں اور اس کا بہترین
طریقہ یہ یہ کہ ہر دو ایک دوسرے کے لئے سلامتی، عافیت اور نیک خواہش کا اظہار کرے۔
ایک بندہ یہ کہے……السلام علیکم تو دوسرا یہ جواب دے……وعلیکم السلام۔
اللہ
تعالیٰ کے حضور بھائیوں کے لئے یہ دعا باہمی الفت و محبت کو استوار کرتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ