Topics

جنوری1999؁ء۔صراط مستقیم

ہم بحیثیت مسلمان اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے جانشین ہیں اور ہمیں وہی کام انجام دینا ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے انجام دیا ہے۔ جس طرح آخری نبیﷺ نے اپنے قول و عمل اور شب و روز کی زندگی سے خدا کے دین کو پھیلانے اور واضح کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ اسی طرح سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیروکار کی حیثیت سے ہمیں بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے خدا کے دین کو واضح کرنا ہے تا کہ پوری نوع انسانی اللہ کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کے قابل ہو جائے۔ اللہ نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ خود اللہ چاہتا ہے کہ بندے اپنی روح سے آشنا ہو کر اللہ کو پہچان لیں۔

                جو لوگ خود شناسی سے آگے اللہ کے راستے پر قدم اٹھا چکے ہیں، ان کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انسانوں کو اس راستہ پر چلنے کی دعوت دیں جو راستہ صراط مستقیم ہے اور جس راستہ پر چلنے والے لوگوں پر انعام کیا جاتا ہے اور ان کے اوپر عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

                اس دعوت کو عام کرنے کے لئے کچھ ضابطے ہیں، اصول و قاعدے ہیں۔ ان کو ذہن نشین رکھئے۔ اپنی اصلی حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھئے۔ خود نمائی اور کبر سے بچئے۔ کوشش پیہم جاری رکھئے۔ اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کیجئے۔ مقصد کے لئے زندہ رہئے اور اس ہی کے لئے جان دیجئے۔ اسی کام کو انجام دینے کے لئے خدا نے آپ کو ’’خیر امت‘‘ کے عظیم لقب سے سرفراز کیا ہے۔

                ’’اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ پیروی کرو اس دین کی جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔ اس نے پہلے ہی تمہیں مسلم کے نام سے نوازا تھا تا کہ رسولﷺ ہمارے لئے دین حق کی شہادت دیں اور تم دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔‘‘ (القرآن)

                رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

                ’’قیامت کے روز کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے۔ وہ موتیوں کے منبروں پر بٹھائے جائیں گے۔ لوگ ان کی شان پر رشک کریں گے۔ یہ لوگ نہ نبی ہوں گے، نہ شہید ہوں گے۔‘‘

                ایک بدو نے سوال کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! یہ کون لوگ ہیں ہمیں ان کی پہچان بتا دیجئے۔‘‘

                فرمایا۔’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔‘‘

                نبی اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شرف ملاقات بخشا اور اپنے دیدار خاص سے نوازا۔ اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ سے کہا۔ مانگئے!۔

                حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا مانگی:

                ’’اے خدا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور بُرے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تُو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور جب تُوکسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہے۔‘‘

                پاکیزہ نفس اور روحانیت سے سرشار لوگوں سے محبت بندہ کو خود شناسی سے قریب کرتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ بلاشبہ محبت آخرت کی نجات ہے۔

                غصہ، نفرت، تفرقہ، بغض و عناد اس مشن کا تشخص ہے جو بارگاہ ایزدی سے معتوب اور گم کردہ راہ ہے۔ یہ مشن کبر و نخوت، ضد اور ذاتی طور پر غرور کا پرچار کرتا ہے۔ اس کردار میں وہ تمام عوامل کار فرما ہیں جن سے بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر تاریکی گھٹا بن کر چھا جاتی ہے۔ ادبار اور آلام و مصائب اس طرح مسلط ہو جاتے ہیں کہ یہ خود اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ بظاہر دنیا کی ہر آسودگی میسر ہوتی ہے لیکن دل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے تعفن سے روح کے اندر لطیف انوار اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں اور جب قطع و برید کی یہ حالت مزمن ہو جاتی ہے تو انوار کا ذخیرہ پس پردہ چلا جاتا ہے اور اللہ کے ارشاد کے مطابق دلوں پر، کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر دبیز گہرے پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ محرومی اس کو نہ صرف یہ کہ دنیا میں  امن و سکون سے دور کر دیتی ہے بلکہ ایسا بندہ ازلی سعادت اور عرفان حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ 

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ