Topics
اے آدم زاد!اپنےحافظےکی اسکرین پر پڑے ہوئے پردوں کو چاک کر دے اور اند ر جھانک ۔ کیا تجھ کو وہ سہانا زمانہ یاد نہیں آتا جب تو آزاد فضاؤں میں سانس لیتا تھا، بھوک پیاس کی تکلیف تھی نہ دھوپ تجھے ستاتی تھی ، نہ کوئی ڈر تھا نہ پریشانی ، ملال کیا ہوتا ہے اس سے واقف نہ تھا۔ جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاتا تھا۔ زمانی و مکانی فاصلے تیرے پیر کی زنجیر نہ تھے ۔ خوشی سے سر شار پنچھی کی طرح لامکانی وسعتوں میں تیری پرواز بان زدِ ملائکہ تھی۔
اے میرے بھائی! ذہن پر ذرا زور تو ڈال، کیا تجھے کچھ یاد نہیں ، تو نے کیوں اُن سنہری دنوں کی یاد کو فراموش کر دیا ہے؟ ماضی کے تہ خانے میں دفن یہ یادیں کیا تجھے بے چین و بے قرار نہیں کرتیں؟ کسی پُر فضا مقام پر گزارے ہوئے دن یا کسی صحبت میں بیتے ہوئے چند خوبصورت لمحات کو تو ساری عُمر یاد رکھتا ہے لیکن یہ عظیم لمحات کیا تیرے شعور کے دروازے پر کبھی دستک نہیں دیتے؟
اگر تجھے کچھ یاد نہیں آتا ، تو سُن! تو نے کفرانِ عظیم کیا۔ تونے جان بوجھ کر خود کو تکلیف و رنج کے حوالے کر دیا، آزادی کی نعمت کو ٹھکرا کر غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہن لیا، پابندیوں کو اپنے پیروں کی بیڑیاں بنا لیا۔ یک سوئی کی جگہ شک اور انتشار کو اپنے اندر جگہ دے دی ، آزاد پنچھی ہو کر صیّاد کو خود دعوت دی کہ آ ، مجھے قید کر لے۔ تو نے اپنی لامتناہی صلاحیتوں کو تناہیت کے اندھیرے غاروں میں دھکیل دیا۔ تیری ان حرکتوں سے آسمان رو دیا۔ اور فرشتوں نے ندامت سے سر جھُکا لیا۔
اے آدم و حوا کے سپو ت ! سنبھل ، تجز یہ کر اور اپنی حالت کو دیکھ ۔پا بندیوں کے جال نے تجھے اس طر ح جکڑا ہواہے کہ اب تیرا با ہر نکلنا جو ئے شیر لا نا ہے ۔تجھ پرمصا ئب کی ایسی یلغارہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے ۔ پیٹ کی آگ بجھا نے کے لئے تو در بدر ما را مارا پھر تا ہے۔ مستقبل کا خوف تجھے ہر وقت لر زاں رکھتا ہے۔ تو خوشی اور راحت کی ضمانت چا ہتا ہے لیکن کہیں سے نہیں ملتی ۔
اور دیکھ ! تو نے آزادی اور مسرت کی حقیقی قدروں کو سمجھنے کے بجائے جو فرضی قدریں اپنے اوپر مسلط کر لی ہیں، ان کے نتا ئج اس قدر ہو لناک ہیں کہ چند لقموں کے لئے تو اپنے بھا ئی کی گر دن کا ٹنے سے بھی گر یز نہیں کر تا ۔ تر قی کے خوشنما لبادوں میں محجوب دھر تی کو تو نے سُرخ خون سے رنگین کر دیا ہے ۔ مصائب کے اندھیرے گہرے ہو تے جا رہے ہیں ۔ روشنی کی کر نیں معدوم ہو تی جا رہی ہیں ۔ تیرے اوپر خود فراموشی کا اتنا غلبہ ہے تو نے اپنی عظمت کو گہنا دیا ہے ۔ تو اللہ کا نائب ہے لیکن ما دیت اور کثافت نے تجھے لطا فت اور پا کیزگی سے محروم کر دیا ہے ۔
آدم کے بیٹے ! تو نے اپنی ابدی اور لا فا نی زند گی کو تہ در تہ پر دوں کے پیچھے چھپاتو لیا ہے اور اسے اپنے اندر دفن بھی کر دیا ہے لیکن میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا ۔ تجھے جھنجھوڑتار ہوں گا ۔ چا ہے تو متوجہ ہو یا نہ ہو ۔
قدرت کی فیا ضی شاہد ہے کہ اس نے ما دی خدو خال سے مر کب اپنے پیغامبر تیرے پاس بھیجے اور تجھے با ربار تیرے وطنِ مالوف کی طر ف لو ٹنے کی تلقین کی لیکن تو نے ہمیشہ نا شکری کی ۔
اے آدم زاد ! میری بات پر دھیان دے ۔ میں جو تیرا ضمیر ہوں، تیرے اندر کی آواز ہوں__________ تیرے باطن کی پکار ہوں ۔ دیکھ ، میرا گلانہ گھونٹ ،میری طر ف متوجہ ہو ورنہ اسی طر ح مصائب کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔ اور اندھوں کی طر ح ٹھوکریں کھا تا رہے گا ۔
اے فر زند آدم ! اپنے گلے میں پڑے ہوئے غلامی کے طوق کو اتار پھینک ۔ زمان و مکان کی مفروضہ پابندیوں کے جال کو کاٹ دے غم و آلام کے بجا ئے خوشی اور مسرت کا لبا دہ اوڑھ لے ۔ یہ جو تونے ہزاروں بت سجا رکھے ہیں اور ان کی بندگی میں مصروف ہے کہ کوئی دولت کا خدا ہے، کوئی عزت و شہر ت کا تو کو ئی جھوٹی خواہشات کا خدا ہے ۔
آگے بڑھ اور ابراہیمی گُرز سے انہیں پاش پاش کر دے اور آزادی کا مزہ چکھ لےجوتو اپنی غلطی سے کھو بیٹھا ہے ۔ اس تیرہ وتاریک عالم سے نظر یں ہٹا کر ا س روشن دنیا کو بھی دیکھ جہاں آزاد فضا تیری منتظر ہے ۔ قرآن پکا ر پکار کر کہہ رہا ہے ’’اے آدم ! تو اور تیری بیوی (دونوں) جنت میں سکون کے ساتھ رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھا ؤ ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔