Topics
قلندر شعور بیدار ہو ا تو ۔۔۔
عالم غیب و شہو د میں ایک دانا ئے راز سے ملا قات ہو ئی گو کہ یہ دانا ئے راز گو شت پو ست اور ہڈ یوں کے پنجر ے پر گو شت پو ست کے تانے بانے سے مر کب نہیں تھا لیکن اس ماورا ئی جسم میں ٹھوس نظر آیا اور گو شت پو ست کے ہا تھوں نے جب اس کے گو شت پو ست سے آزاد ماورائی ہا تھو ں سے مصافحہ کیا تو لمس میں کو ئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہو ئی۔ ماورائی ٹھوس جسم سے جب ذہنی ہم آہنگی ہو ئی تو شعور اس دانا ئے راز ہستی سے مانو س ہو گیا ۔
سوال کیا : اللہ تعالیٰ کون ہیں ، کیسے ہیں اورکیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں ؟
دانائے راز کی نیم کھلی ،مخمور آنکھوں پر پلکوں میں حرکت پیدا ہو ئی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ۔ چہرے پر عرفان وآگہی کا تا ثر گہرہ ہو گیا ۔ میرے سوال کے جواب میں اس مر دِ آگاہ نے سوال کیا ۔’’اللہ وہ ہے جس نے آسمان کو بلند کر نے کے بعد ان میں توازن قائم کیا ۔ ‘‘سوال یہ ہے کہ کیا تم خود کو جا نتے ہو ؟ "
ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب میرے پاس نہ تھا ۔
دانائے راز ہستی نے کہا ۔’’آسمانی رفعتوں سے زمین کی طر ف دیکھو۔۔۔!"
میں نے دیکھا کہ زمین میں ایک ننھا سا بیج ڈالا گیا ہے ۔زمین نے ما متا کے جذبات سے بے تاب ہو کر اس بیج کو اپنے پیٹ میں محفوظ کر لیا اور اپنی تخلیقی صلا حیتیں اس بیج میں منتقل کر دیں ۔ دیکھا کہ زمین میں سے ایک ننھا سا پو دا پھو ٹا اور یوں کہیں کہ بیج کے دو پر ت نہا یت نرم و نا زک دو پتے بن کر نمودار ہوئے ۔جڑ ا س قدر کمزور ہے کہ براہ ِراست زمین سے غذا حاصل نہیں کر سکتی ۔ یہ ننھا سا پو دا بیج سے نکلے ہو ئے دو پتوں سے اپنی غذا حاصل کر رہا ہے ۔رفتہ رفتہ جڑذرا مضبو ط ہو ئی اور اس کے اندر اتنی صلا حیت پیدا ہو گئی کہ وہ براہ ِراست زمین سے غذا حاصل کر سکے ۔ جیسے ہی یہ صلا حیت بیدار ہو گئی بیج کے دو نوں پرت جھڑ گئے۔ اب پو دے نے بر اہ راست زمین سے غذا حاصل کر نی شروع کر دی شب و روز اور ماہ و سال کے اس عمل نے اس ننھی سی جڑ کو ایک تنا ور درخت بنا دیا ایسا درخت جو زمین سے غذا حاصل کر تا ہے اور فضا سے بھی رو شنیوں کے ذریعے اپنے وجود کو بے قرار رکھتا ہے ۔
آدم زاد جب ماں کے پیٹ میں منتقل ہو اتو اس کی پیدائش میں بھی یہی تخلیقی عوامل نظر آئے۔ماں کے پیٹ میں آدم زاد کے لئے گیہوں کی روٹی تھی اور نہ کسی قسم کا پھل تھا اور نہ ہی وہاں با ورچی خانے کا کو ئی انتظام تھا۔ آلات ِہضم اتنے کمزور اور نحیف تھے کہ آدم زاد ان غذاؤں کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا تھا ۔ ماں کے اندر تخلیقی صلا حیت نے ماں کے سینے کو دودھ جیسی صاف ، زود ہضم اور لطیف غذا سے بھر دیا اور جب بچہ نمودار ہوا تو دودھ کے دوچشمے ابل پڑےاور جب اس چشمے کی ضرورت با قی نہیں رہی تو یہ چشمے سوکھ گئے ۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جو ازل سے جا ری ہے اور ابد تک قائم رہے گا ۔
مرد دانائے راز نے اپنی مخمور اور غزالی آنکھیں میرے اوپر مر کوز کر دیں۔ مجھے نظر آیا کہ اس کی آنکھوں کے اندر سے لہریں نکل کر میرے دماغ میں جذب ہو رہی ہیں ۔ جب جذب ہو تی ہو ئی لہروں کے ذخیرے سے دماغ معمور(OVERFLOW) ہو گیا تو یہ لہریں با ہر نکلنے لگیں ۔یہ لہریں ایک سیال چیز نظر آئیں ۔ تفکر کر نے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ لہریں پا نی ہیں ۔ دانائے راز نے سیدھے ہا تھ کی انگشت شہادت دونوں نتھنے کے بیج میں ناک کی جڑ پر رکھی ۔ یہ دیکھ کر حیرت کی انتہاء نہیں رہی موجودات میں ہر چیز کی بنا (BASE)پا نی ہے ۔جو ایک پا ئپ کے ذریعے صعود اور نزول میں رواں دواں ہے ۔ ماں کے پیٹ میں یہی پا نی شکل بدل کر ایک پا ئپ کے ذریعے بچے کی غذا بنتا ہے ۔پھر یہی پا نی دودھ بن جاتا ہے ،آم کے درخت میں آم ، بیر کے درخت میں بیر ، سیب کے درخت میں سیب اور کیلے کے درخت میں کیلا بنتا رہتا ہے ۔یعنی میٹر یا مادہ ایک ہے مختلف درختوں میں جا کر مختلف صورت میں جلوی گر ہو رہا ہے ۔یہی پا نی کبھی ایک رنگ پھول بن جا تا ہے اور کبھی ایک پھول میں بے شمار رنگ بن جا تا ہے ۔
قرآن میں ہے :
اور وہی ذات با بر کت ہے جو آسمان سے پا نی نا زل کر تی ہے اور پا نی سے قسم قسم کے پھل اور طر ح طرح کی نوعوں کو وجود میں لا تی ہے ۔
یہی پا نی کسی خول کو خدوخال کے ساتھ خوبصورت بنا تا ہے اور یہی پا نی کسی خول کو بد صورت بنا دیتا ہے۔پانی کی یہ کا ر فر ما ئی اتنی گہری اور عمیق ہے کہ اس کو سمجھنا دراصل نظام کا ئنات کاعر فان حاصل کر لیتاہے۔
تخلیق کے اس نظام پر غور کر نے والے لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ کا ئناتی تخلیقی پرو گرامایک رشتہ میں منسلک ہے ۔ فر ق صرف یہ ہے کہ موجودات میں دو نو عیں ،انسان اور جن نظام کو سمجھنے کی صلا حیت رکھتی ہیں ۔ باقی نو عیں اس نظام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتیں ۔ یہ نوعیں اس نظامِ کا ئنات کو سمجھنے کی اہل اس لئے نہیں ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پیش کر دہ امانت کو قبول نہیں کیا ۔اور آدم زاد اس پُر پیچ نظام کو اس لئے سمجھنے کی قدرت رکھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی پیش کر دہ امانت کو قبول کر لیا۔ اس بات کو قرآن یوں بیان کر تا ہے۔
’’اور ہم نے اپنی امانت پیش کی سماوات کو، زمین کو ، پہا ڑوں کو لیکن
سب نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں
ہو سکتے اور انسان نے بغیر سوچ سمجھے اس امانت کو قبول کر لیا ۔
بیشک یہ ظالم و جاہل ہے ۔‘‘
ظلم اور جہالت یہ ہے کہ آدم کے پاس اللہ تعالیٰ کی وہ امانت موجود ہے جس امانت سے کائنات کی ساری مخلوق محروم ہے ۔اللہ تعالیٰ سورۂ آل ِ عمران میں فر ما تے ہیں :
’’وہ دن آکر رہے گا جب بعض چہرے نورانی ہو جا ئیں گے اور بعض
تا ریک ۔ سیاہ رُولوگوں سے کہوکہ تم نے اللہ کو تسلیم کر نے کے بعد
اس کے احکام سے انحراف کیا ، اب اس بد کاری کی سزا بھگتواور باقی
وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی امانت قبول کر نے کے بعد اللہ تعالیٰ کی
خوشنودی کو ہر چیز سے زیادہ مقدم رکھا ،ان کے چہرے زیادہ نورانی ہو نگے۔
اور ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمت نازل ہو تی رہے گی ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔