Topics

نومبر1980؁ء۔اللہ کی راہ میں خرچ

انسان ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتا چلا آیا ہے کہ وہ جو کچھ کماتا ہے وہ سب اس کی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے زور بازو کا ثمرہ ہے چنانچہ وہ اپنی دولت کا پوری طرح مالک و مختار ہے جس طرح چاہے خرچ کرے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس سے باز پرس کر سکے۔ قرآن پاک نے قارون کو اس سرمایہ دارانہ اور ابلیسانہ طرز فکر کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اس گروہ کا سرغنہ قارون جو کچھ کہتا تھا۔ قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔              

                ’’میں نے جو کچھ کمایا ہے اپنی ہنرمندی سے کمایا ہے۔‘‘ (قصص)

                معاشرتی اور انفرادی سطح پر اس طرز فکر کی کارفرمائی کی بنیادی وجہ انسان کے اندر سرمایہ پرستی کا ذہن ہے۔

                آدمی ہمیشہ سے مال و دولت کا بھوکا اور آسائشوں کا طلب گار رہا ہے۔ دولت سمیٹنے کی دھن ہمیشہ اس کے اوپر سوار رہتی ہے۔ آدم کی اولاد نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ وہ شعور کی حالت میں داخل ہونے سے قبر کا منہ دیکھنے تک دولت اکٹھا کرنے کی دوڑ میں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔

                ’’تمہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘

                انفرادی حدود میں دولت پرستی کی بیماری آدمی کی انا اور اس کی ذات سے گھن بن کر چپک جاتی ہے۔ اس کی انسانی صفات کو چاٹتی رہتی ہے اور خالق کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے۔ آدمی کے باطن میں ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہو کر اس کی ذات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ آدمی کی بہترین تخلیقی صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ میں پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ آدمی کے لباسوں میں یہ درندے جب موقع ملتا ہے جھپٹ کر دوسرے کو شکار کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں طرح طرح کے قوانین اور رسوم کو رواج دے کر نچلے طبقہ کا خون چوستے رہتے ہیں۔ قانون قدرت سرمایہ پرستی اور لالچ کو کبھی پسند نہیں کرتا، وہ ایسی قوموں کو غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل دیتا ہے۔

                قرآن پاک سرمایہ پرستوں کے اس اوّلین دعوے پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ان کی کمائی اور ان کی دولت ان کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ رزق کا حصول اور اس کی پیدائش تمہارے زور بازو کا نتیجہ ہے۔ ایک خام خیال ہے۔ فطرت کے قوانین اور اس کے وسائل خود تمہارے لئے مسلسل رزق کی بہم رسانی میں مصروف ہیں۔ سمندروں سے پانی بخارات کی شکل میں زمین پر برستا ہے اور زمین کی مردہ صلاحیتوں میں جان ڈال کر اسے وسائل کی تخلیق کے قابل بنا دیتا ہے۔ زمین طرح طرح کی پیداوار کو جنم دے کر انسان کی پرورش کرتی ہے اور اس کی زندگی کے قیام کے وسائل فراہم کرتی ہے۔ ہوا، سورج کی روشنی اور بہت سے دوسرے عوامل اس دوران فصلوں کو بارآور کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اور بلا معاوضہ آدمی کی خدمت کرتے ہیں۔ رزق اور وسائل کے حصول اور عمل میں انسان کی کوشش صرف ہاتھ بڑھا کر روزی حاصل کر لینا ہے۔


                حضور سرور کائناتﷺ نے جو صفات حمیدہ کے بہترین مظہر اور تکمیل انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، کبھی دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں فرمایا، ہمیشہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کیا۔ کوئی ضرورت مند آپﷺ کے دربار سے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا۔ اگر آپﷺ کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا تو آپﷺ اپنی ضرورت کی اشیاء گروی رکھوا کر سائل کی مدد فرماتے۔ تمام عمر یتیموں، بیوائوں اور حاجت مندوں کی سرپرستی حضور اکرمﷺ کا شیوہ رہی۔ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد جب آپﷺ کے اوپر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی اور یہ تقاضائے بشریت خوف کے آثار ظاہر ہوئے تو حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں تسلی دی:

                ’’آپ پریشان نہ ہوں، خدا آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ یتیموں کے والی ہیں اور بیوائوں کی سرپرستی فرماتے ہیں۔‘‘

                ہادیٔ برحقﷺ نے اپنے پاس مال و زر جمع نہ ہونے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ صبح کا درہم شام تک کبھی اپنے پاس نہ رکھا۔ حضور ابو ذر غفاریؓ کو نصیحت کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:

                ’’اے ابوذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اُس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس باقی رہ جائے، مگر یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کو رکھ چھوڑوں، میں کہوں گا کہ اس کو خدا کے بندوں میں ایسے ایسے داہنے بائیں اورپیچھے بانٹ دو۔‘‘

                ایک مرتبہ حضورﷺ نے یہ آیت پڑھی، الھٰکم التکاثر، پھر فرمایا، آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے کہ میرا مال! میرا مال اور تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا، کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا۔

                حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:

                ’’اے آدم کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے بُرا ہے۔‘‘

                حضور ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:

                ’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس زائد زاد رہ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔ ‘‘

                حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔

                نبوت کی اس تعلیم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جس کا ہر فرد دوسرے کا مددگار اور سرپرست تھا اور جس میں لوگ اپنی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ وہ اسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ جس سے ان کی کمائی مستحقین تک پہنچ جائے۔

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ