Topics
دراز ریش ، غزالی آنکھیں ، کھلی پیشانی ، کتا بی چہرہ ۔ ایک بڑے عالم وفاضل تشریف لا ئے ۔دوران گفتگو حدیث کا تذکرہ نکل آیا ۔ صاحب موصوف نے کہا :
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو کچھ ہو نے والا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو گیا جب قلم خشک ہو گیا تو پھر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ رُوحانیت کیا ہے ؟
روزانہ صبح ہو تی ہے ۔ صبح کے تا ثرات اور ماحول بھی موسم کے لحاظ سے یکساں ہو تا ہے ۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر صبح نئی صبح ہے ۔ رات آئی ایک بستر ایک چا ر پا ئی، ایک کمرہ اور ایک ہی گھر میں ہم سو تے ہیں مگر سمجھتے یہ ہیں کہ ہر رات نئی رات ہے اور بھوک لگتی ہے تو ہم کھا نا کھا لیتے ہیں ۔ روٹی ہماری خوراک ہے لیکن ہر دفعہ ہم اسے نئی رو ٹی سمجھ کر کھا تے ہیں ۔ تو کیا ہم فر یب کی زندگی نہیں گزار رہے ہیں ؟ اور جب ساری زندگی ہی فریب ہے تورُوحانیت کے بلند با نگ دعووں کی کیا حقیقت رہ جا تی ہے ؟قوم پہلے کون سی با عمل ہے جوآپ مزید بے عملی کا درس دے رہے ہیں ۔‘‘
اس حدیث کی تشریح بیان کر تے ہو ئے ابدال حق قلندر بابااولیا ء ؒ نے فر ما یا تھا :
ایک کتاب ہے جو لکھی جا چکی ہے یعنی یہ کتاب ما ضی (RECORD)ہے اب اس کتاب کو پڑھنے کی طر زیں مختلف ہیں اگر کتاب شروع سے ترتیب و مسلسل سے پڑھی جا ئے یعنی ایک لفظ ، پھر دوسرا لفظ ، ایک سطر پر دو سری سطر، ایک صفحہ پر دو سرا صفحہ پھر تیسرا صفحہ اس طر ح علیٰ ہذ القیاس پوری کتاب کو مطا لعہ کیا جا ئے تو مطا لعہ کی یہ طر ز وہ طر ز ہے جو بیداری (شعور ) میں کام کر تی ہے۔
انسان کا شعوری تجر بہ یہ ہے کہ ایک دن گزرتا ہے ، پھر دو سرا دن گزر جا تاہے ۔ ایک ہفتہ گزر تا ہے ، پھر دو سرا ہفتہ گزر جا تاہے ۔اسی طر ح ماہ و سال اور صدیاں اسی تر تیب اور اسی طرز سے یعنی ایک کے بعد ایک کر کے گزرتی رہتی ہیں ۔منگل کے بعد جمعرات کا دن اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ بُدھ کا دن نہیں گزرجا تا ۔ شوال کا مہینہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ رمضان اور اس کے پہلے کے مہینے نہیں گزر جاتے انسا ن کے اندر یہ طر ز انسان کے اندر شعور ی طر ز (زمان و مکان کی قید و بند )ہے ۔ اس طر ز کو بیداری کہا جا تا ہے۔ اور جب یہ شعوری طر زکتاب کے ورق کے دو سرے صفحے پر منتقل ہو جا تی ہے تو ٹائم اسپیس سے آزاد شعوری طر زبن جاتی ہے ۔آسان الفاظ میں اس بات کو اس طر ح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک ہی طر ز دو خانوں میں ردوبدل ہو رہی ہے ۔اور اس ردوبدل یا خیال کا اُلٹ پلٹ ہو نا ہی ہماری زندگی ہے ۔ ان حقائق کی رو شنی میں یہاں جو سب کچھ ہے یہاں لکھا جا چکا ہے ۔کتاب ازل ہے اور ازل ما ضی ہے ۔ رہا گناہ ، ثواب ، اچھا ئی ، برا ئی کا تصور ۔یہ اطلا ع میں معنی پہنانے کا عمل ہے۔ وہی چیز جو اچھی ہے اور بری بھی ہے ایک آدمی نماز قائم کر تا ہے لیکن قرآن پاک کے ا رشاد کے مطا بق اگر وہ نماز کی حقیقت نما زمیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور ربط قائم ہو نے سے بےخبر ہے تو نماز اس کے لئے ہلا کت اور بر بادی کا سبب بن جا تی ہے ۔
صلوٰۃ (نماز )کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مومن کوغیب کی دنیا میں داخل کر دیتی ہے جب کہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ غیب کی دنیا سے با خبری تو کجا نماز میں حضور قلب بھی نصیب نہیں ہو تا ۔ نماز ی جیسے ہی نیت با ندھتا ہے خیالات کی یلغار اس کے اوپر مسلط ہو جا تی ہے ۔
ابدال حق قلندر بابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں کہ قلم لکھ کر خشک ہوگیا کا روحانی مفہوم یہ ہے کہ کا ئنات میں ما ضی کی حکمرانی ہے اور بندے نے امانت قبول کر کے اپنے اوپر یہ ذمہ داری عائد کر لی ہے کہ وہ ما ضی کی حکمرانی کو قبول کرلے ۔ما ضی زمانہ ہے، زمانہ اللہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی مقا م ہے کہ ۔’’زمانے کو برا نہ کہو ، زمانہ اللہ ہے ۔"لا تسبوا الدهر فان الله هو الدهر"
’’ازل میں سب کچھ ہو چکا ہے ‘‘سے مراد یہ نہیں کہ اللہ نے انسان کو مجبور محض بنادیا بلکہ ازل میں جو کتاب لکھی گئی جہاں زحمت اور رحمت کی دو طر زیں متعین ہیں وہاں اس بات کی وضا حت بھی موجود ہے کہ بندہ اپنا اختیار استعمال کرکے اپنے لئے کسی ایک طرز کا انتخاب کر سکتا ہے ۔کتاب کی تحریر یہ ہے کہ دو راستے ہیں ایک کا انجام زحمت ہے اور دوسرے کا نتیجہ رحمت ہے ۔
رُوحانیت کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ رو حانیت کے علاوہ کو ئی ایسا راستہ نہیں جوانسان کو ماضی (ازل میں لکھی ہو ئی کتاب )سے متعارف کراسکے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔