Topics
ہمارا تمہارا خدا با دشاہ -خدا کا بنا یا رسول ؐ با دشاہ ۔
چند دانشور سر جو ڑے بیٹھے تھے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ کشش کیا ہے ، کیوں ہے اور اس کا منبع اور مخزن کیا ہے ؟
کسی نے کچھ کہا- کسی نے اپنی با ت کو ثابت کر نے لئے دلا ئل پیش کئے ۔ ایک صاحب بول پڑے:-
"زمین میں کشش (GRAVITY)ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیب زمین پر گر جا تا ہے ۔ "
دو سرے صاحب بو لے :۔
"یہ بھی تو رو زمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ عارضی طو ر پر سہی لیکن کششِ ثقل سے آزادی مل جا تی ہے ۔ تیز رفتاری بھی کشش ثقل سے آزاد ہو نے کا عمل ہے ۔ "
شہرسے دُور ، آبادی سے با ہرویرانے میں لال بجھکڑ رہتے تھے ۔ جب مسئلے کا کو ئی حتمی حل سامنے نہیں آیا تو لو گ اس لا ل بجھکڑ کے پاس پہنچے اور درخواست پیش کی ۔
’’حضرات ! یہ کشش کیا ہے ؟‘‘
لال بجھکڑ غورو فکر کے سمند رسے گو ہر آب دار نکال لا ئے کہنے لگے: ۔
" اس وقت ہمارے سامنے جو بھی شئے ہے ،وہ خلا ہے۔ بو تل اس لئے بو تل ہے کہ اس میں خلا ہے ۔زمین میں خلا نہ ہو تو بیج کو نشو ونما نہ ہو گی۔ بیج کو خلا سے آزاد کر دیا جا ئے (یعنی دال بنادی جا ئے )تو زندگی در زندگی درخت کا تصور بھی قائم نہیں ہوگا ۔ "
آدمی بھی خلا ہے اور اس خلا میں لا ئف اسٹر یم گو نجتی(Echo) رہتی ہے۔ کا ئنات بھی ایک خلا ہے اور اس خلا کا محور ایک ایسی ذات ہے جو خلا کی رگِ جان ہے۔ جب خلا کے ٹکڑے یکجا ہو جا تے ہیں تو مٹی ، لو ہا ، پتھر سونا ،چاندی بن جاتے ہیں ۔
انہیں تقسیم کر دیا جا ئے تو نا قابل تقسیم عددتک تقسیم ہو جا تے ہیں ۔
لا ل بجھکڑ نے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا یا ۔ اسے لوگوں کو دکھا یا ۔"صاحبو! یہ ڈھیلا اگر زور سے ما را جا ئے تو کیا چھو ٹ لگے گی ؟"
لوگوں نے جواب دیا۔"جی ہا ں ، چوٹ لگے گی۔"
لا ل بجھکڑ نے مٹی کے ڈھیلے کو پیس کر سُر مہ بنا یااور پھونک ما ر کر اسے ہوا میں اڑا دیا لوگوں سے پو چھا :۔
"مٹی کا ڈھیلا کہاں ہے ؟"
پھر دو سرے کنڈے ایک وزن ،ایک حجم کے اٹھا ئے ۔دو نوں کو ایک ساتھ فضا میں اچھا ل دیا ۔زمین پر دونوں ایک ساتھ نہیں گر ے لا ل بجھکڑ نے کہا ۔ "دوستو ! ان دو نوں سر کنڈوں کو ایک ساتھ اچھا لا گیا تھا۔جس فضا میں اچھا لا گیا وہ بھی ایک ہے اور اچھالنے میں جتنی طا قت استعمال ہو ئی وہ بھی یکساں ہے ۔پھر یہ سر کنڈے کیوں ایک ساتھ ز مین پر نہیں آئے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شئے کے اندر خلا کا عمل ردوبدل ہو تا رہتا ہے ۔"
ہمارا تمہا ر اخدا با دشاہ ، خدا کا بنا یا رسولؐ با دشاہ ۔
خلا سے اس پار حاکم ،قادرِ مطلق ایک شہنشاہ ہے ۔بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا کہ کو ئی ایسا نظام قائم کیا جا ئے کہ لوگ مجھے پہنچا نیں۔خیال کا آنا تھا کہ ارادہ تشکیل پا گیا اورارادہ 'کنُ' بن کر ایسی تصویر بن گیا جس کا ہر ہر عضو ایک مکمل اور مجسم تصویر ہے ۔
اسکر ین نہ ہو تو تصویر ڈسپلے(Display) نہیں ہوگی اور خلا نہ ہو تو اسکر ین کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ یہ جو ذرہ ذر ہ خلا ہے ، اس لئے ہے کہ اس میں کو ئی بستا ہے ۔ با دشاہوں کے با دشاہ ،اللہ نے اپنی شان کو نما یاں کر نے کے لئے ہر ذرہ کو خلا بنا دیا ہے اور اس میں خود بر اجمان ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے اور ذرے کے درمیان ایک پر دہ ڈال لیا ہے ۔ ہر چیز پر دے کے پیچھےاس من مو ہنی صورت کے دیدار کے لئے بے قرار ہے اور یہی بے قراری کشش ہے ۔ یہی کشش ہی تو ہے آدمی اس کو پانے کے لئے با دشاہتیں چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ کشش ہے جس کو زینہ بنا کر آدمی وہاں پہنچ جا تا ہے جہاں خدو خال(Dimension) نہیں ہیں ۔یہ کشش ہستیِ مطلق سے جس قدر قریب ہو تی ہے اس ہی قدر بندہ اللہ کی با دشاہی میں رکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کی سوچ بھی اپنے با دشاہ کی سو چ بن جا تی ہے ۔ با دشاہ کا با دشا ہ اللہ خلا ،ٹائم ، اسپیس کے تا نے با نے سے آزاد ہے ۔
ہمارا تمہا ر ا خدا با دشاہ ، خدا کابنایا رسول ؐ با دشاہ ۔
رسول با دشاہ ؐ نے اللہ کی با دشاہی میں رُکن کی حیثیت سے کشش کے اس قانون کو شب معراج میں پورا کر دیا ہے ، یہاں تک کے خود اللہ تعالیٰ نے فر ما یا :۔
’’ہم نے اپنے بندے سے رازو نیاز کی جو با تیں کیں ۔دل نے جودیکھا جھو ٹ نہیں دیکھا ۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔