Topics
انسان ایسی زندگی چاہتا ہے جو فنا سے نا آشنا ہو ۔ ایسی صحت چا ہتا ہے جو بیماریوں سے متا ثر نہ ہو ۔ایسی جوانی چاہتا ہے جو بڑھاپے میں تبدیل نہ ہو۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جوانی بڑھا پے میں تبدیل ہوجا تی ہے ،صحت اورتندرستی کے اوپر بیماریوں کا غلبہ ہو تا رہتا ہے ۔انسان زندگی کے نشیب و فراز سے کتنا ہی فرار چا ہے کا میاب نہیں ہو تا ۔اس لئے کہ دنیا میں کو ئی چیز بے ثباتی سے خالی نہیں ۔ فنا اور تخریب کا عمل ہر وقت جا ری و ساری ہے ۔
انسان کے اوپر جب بے ثباتیکا غلبہ ہو تا ہے تو وہ تکلیف کے بار ے میں زیادہ حساس ہوجاتا ہے ۔تکلیف اور غم کے عالم میں ایسے ایسے احساسات نمودار ہو تے ہیں ۔جن سے انسان غمگین اور پریشان خیال بن جاتا ہے ۔زندگی کی ساری چمک و دمک ما ند پڑ جا تی ہے اور شان و شوکت افسردہ ہو کر ٹھٹھرجاتی ہے ۔
انسا ن پیدا ئش کے بعدسے بڑھا پے تک مسلسل ایک جنگ لڑتا ہے ۔وہ ہر حال میں فتح یا ب ہو کر سر خرو ہو نا چا ہتا ہے لیکن با لآخر جیت بڑھا پے کی ہو تی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ موت بڑھاپے کے اوپر چھا جاتی ہے ۔ حیات کی ابتدا کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہو انتہائی طور پر فنا ہے ۔ ہر آن ہر لمحہ انسان کو موت کی آنکھ گھورتی رہتی ہے ۔
ایک مکتبہَ فکر کا خیال ہے کہ انسان کی خوشی اس میں ہے کہ وہ آزادنہ زندگی گزارے ۔ لیکن جب ان لوگوں نے زندگی کی فنا ئیت پر سو چنا شروع کیا تواس نتیجہ پر پہنچے کہ انسان کسی بھی حال میں آزاد نہیں ہے ۔ اس فلسفے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہر مسرت کے بعد کسی آفت کا آنا لا زمی ہے۔ ہر سکھ اور چین کے بعد کوئی نہ کو ئی فتنہ بر پا ہو تا ہے ۔ہر خوشی دراصل ایک غم کا پیش خیمہ ہے اور ہر سکون اضطرات اور بے چینی پر ختم ہو تا ہے ۔
ہر خوشی اک وقفہ َتیاری سامان غم
ہر سکون مہلت برائے امتحان و اضطراب
عام مشاہدہ یہ ہے کہ سکھ ہو یا چین ، مصیبت ہو یا پر یشانی ، لڑکپن ہویا جوانی ، ہر چیز پر موت حاوی ہے ۔غور کیا جا ئے توزمین پر بسنے والی تمام مخلوقات میں انسا ن سب زیادہ مظلوم اور مصیبت زدہ ہے ۔موت جب اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جا تی ہے تو انسانی زندگی کی ساری جدو جہد بے کار محض دکھا ئی دیتی ہے ۔انسان زندہ رہتا ہے اور ز ندگی میں اتنے دکھ جھیلتا ہے کہ جب دکھ اور سکھ کے اعداد وشمار جمع کئے جا تے ہیں تو ساری زندگی دکھوں کا ایک لا متنا ہی سلسلہ نظر آتا ہے ۔ آدمی بر ہنہ پیدا ہو تا ہے اور بر ہنہچلا جا تا ہے ۔ اور یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے آیا اور کیوں آیا اور کہاں چلا گیا۔ خبر متواتر ہمیں بتا تی ہے کہ انسا ن عدم سے وجو د میں آیا اور پھر عدم میں چلا گیا ۔ یعنی انسان کی تمام جدوجہد، ہر قسم کی کوشش ،زندہ رہنے کی تگ ودو سب عدم ہے ۔زندگی ایک پروگرا م کے تحت آدم زاد کو وسا ئل اور خوردونوش کے ساتھ متحر ک رکھتی ہے ۔ آدم زاد جانوروں کو کھلا پلا کر مو ٹا تا زہ کر تا ہے اور ذبح کر کے کھا جا تا ہے ۔جس طر ح آدم زاد جانوروں کو کھا تا ہے اسی طر ح موت آدم زاد کو کھا لیتی ہے۔
زندگی سے مردانہ وار لڑ کر فتح یاب ہو نے کی ایک ہی صورت ہےاور وہ یہ کہ انسان جدو جہد اور کوشش کی حقیقت سے واقف ہو جا ئے ۔واقفیت یہ ہے کہ زندگی ایک رو ٹین ROUTINEمیں گزار دی جا ئے . ۔رو ٹین یہ ہے کہ ہم سانس لیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سو چتے کہ ہم سانس لے رہے ہیں ۔ پلک جھپکتی رہتی ہے لیکن ہم یہ نہیں سو چتے کہ پلک جھپک رہی ہے ۔
حقیقی طر ز ِفکر یہ ہے کہ کسی سے تو قع نہ رکھی جا ئے اس لئے کہ جو کو ئی بندہ کسی سے تو قع نہیں رکھتا وہ نا امید بھی نہیں ہو تا ۔ امیدیں تو ازن کے ساتھ کم سے کم رکھنی چا ہئیں۔ اور ایسی ہو نے چا ہیں جو پو ری آسانی کے ساتھ ہو تی رہیں ۔
آسمانی کتابوں کے مطا بق سکون حاصل کر نے کا موثر طر یقہ یہ ہے کہ انسان غصہ نہ کر ے اور کسی بات پر پیچ و تا ب نہ کھا ئے ۔ عملی جدو جہد میں کو تا ہی نہ بر تے اور نتیجہ کے اوپر نظر نہ رکھے ۔ زمین پر بسنے والی نو عیں زندگی کے جن اصولوں پر کار بند ہے ان کا مطالعہ کرے ۔
عارضی FICTION زندگی کی اکا ئیوں کو یک جا کر لیا جا ئے تو شہا دت فراہم ہو تی ہے :
قانون فطرت میں کہیں جھول نہیں ہر چیز وقت کے ہاتھوں میں کھلونابنی ہو ئی ہے ۔وقت جس طر ح چا بی دیتا ہے شئے حر کت میں آجا تی ہے ۔وقت اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو چا بی کھلونے میں ختم ہو جا تی ہے ۔کل پر زے سب ہو تے ہیں لیکن قوتENERGYبا قی نہیں رہتی ۔وقتTIME قوت کا مظاہرہ ہے،قوت ایک تو انائی ہے، ایک مر کز ہے اور اسی مر کز کو آسمانی کتا بیں قدرت کے نام سے متعارف کر اتی ہیں ۔قدرت قائم بالذات ہے، ایک ایسا مر کز ی نقطہ ہے جس نقطے کے ساتھ پو ری کا ئنات کے افراد بندھے ہو ئے ہیں۔ وجود اور عدم جود دونوں اس میں گم ہیں ۔
انسان جب اس مر کز ی نقطے سے اپنا رشتہ تلاش کر لیتا ہے تو دنیا FICTIONسے اس کی ساری تو قعات ختم ہو جاتی ہے ۔اور جب ایسا ہوجا تا ہے تو مسرتیں اس کے گر د طواف کر تی ہیں ____اور___ موت کی آنکھ اسے مامتا کی آنکھ سے دیکھتی ہے ۔اس کے قریب آنے سے پہلے دستک دیتی ہے اور اجازت کی طلب گار ہو تی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔