Topics

محا سبہ

پیغامبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک شہر سے دو سرے شہر تبلیغ کے لئے جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک یہودی نے سلام کیا ۔’’اے بندہ خدا ! ا س سفر میں آپ کی رفا قت چاہتا ہوں ۔‘‘

دونوں مسا فر چلتے چلتے  جب تھک گئے اور سورج بھی نصف النہا ر پر آگیا تو یہودی نے تجو یز پیش کی دھو پ کی تمازت ، بھوک اور پیاس کی شدت سے بچنے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے ایک پہر گزار لیا جا ئے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یہودی ایک درخت کے نیچے جا ٹھہر ے ۔سورج کی جھلس دینے والی شعاعوں سے درخت نے جب تحفظ فراہم کیا اور اعصاب کو سکون ملا تو یہودی نے عرض کیا "آئیے، کھا نا کھا لیں ۔‘‘ عیسیٰ علیہ السلام اور یہودی نے ایک ساتھ اپنے اپنے دستر خوان کھولے ۔یہودی نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دستر خوان میں دو روٹیاں تھیں اور یہودی کے پاس تین رو ٹیاں تھیں ۔ یہودی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا ’’میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں کھا نا کے ساتھ پا نی کا ہو نا بھی ضروری ہے ۔‘‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام پا نی لینے چلے گئے اور یہودی نے اپنی تین رو ٹیوں میں سے ایک جلدی جلدی کھا لی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام پا نی لیکر آئے اور دو نوں مسا فر کھا نا کھا نے بیٹھے تو حضرت عیسیٰ نے دیکھا کہ یہودی کے دستر خوان میں دو رو ٹیاں ہیں ۔

انہوں نے کہا" اے شخص ! تیرے پاس تین رو ٹیاں تھیں ۔ ایک رو ٹی کہاں گئی؟"

یہودی نے کہا ۔’’آپ کو مغالطہ ہو ا  ہے میرے پاس دو ہی رو ٹیاں تھیں۔ ‘‘

کھا نا کھا نے کے بعد یہودی قیلولہ کے لئے لیٹا اور سو گیا ۔ حضرت عیسیٰ ؑ اٹھے اور ریت کی تین ڈھیریاں بنائیں اس کے اوپر پھونک ما ری تو وہ سو نا بن گئیں ۔ یہودی بیدار ہو ا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سامنے کچھ فا صلے پر سو نے کی تین ڈھیر یاں پڑی ہیں اس نے نہا یت تعجب اور بے یقینی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پو چھا یہ سو نا کس کا ہے ؟ ‘‘

عیسیٰ ؑ نے فر ما یا :’’ایک میری ہے ، ایک تیری ہے اور تیسری اس کی جس نے تیسری رو ٹی کھا ئی ۔ ‘‘

یہودی فو راً بول پڑا۔" وہ رو ٹی میں نے کھا ئی تھی" ۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد یہودی گو یا ہو ا۔ ’’اے حضرت ! آپ نبی اللہ ہیں ۔ آپ کو دنیا کی دو لت سے کیا غر ض ،سونے کی یہ تیسری ڈھیری بھی مجھے دے دیں ۔ ‘‘

عیسیٰ ؑ نے کہا ایک شرط ہے ۔ میرے اور تیرے درمیان ساتھ سفر کر نے کا جو معاہدہ ہوا تھا، تو اس کو ختم کر دے تا کہ میں اپنی راہ لو ں۔

یہودی نے کہا ۔’’ٹھیک ہے ،آپ تشریف لیجا ئیں ،میں تنہا سفر کر لوں گا ۔‘‘

حضرت عیسیٰ ؑ نے کندھے پر کمبل ڈالا اور درخت کے نیچے سے رخصت ہو گئے ابھی وہ زیادہ دور نہیں پہنچے تھے کہ یکایک تین آدمی نمودار ہو گئے۔ ایک نے با آواز بلند یہودی سے کہا ۔’’اے شخص ! تو یہاں کیا کر رہا ہے ،کیا تو ہما رے حق پر غاصبانہ قبضہ کر نا چا ہتا ہے ؟‘‘یہودی نے یہ سن کراس  آدمی پر لعن و طعن کی مگر جب ان کی با توں کا کو ئی اثر نہ ہوا تو وہ منت وزاری کر نے لگا ۔ مگر ان تینوں آدمی کے پاس یہ دلیل تھی کہ ہم تین ہیں اور یہ ڈھیر یاں بھی تین ہیں ۔ یہودی بہت رو یا ۔ بہت گڑ گڑ ایا تو ان تینوں میں سے ایک نے جو سر دار تھا،کہا ۔’’ایک طر یقہ ہے تم ان تینوں میں سے ایک ڈھیری لے سکتے ہو۔ ‘‘

یہودی چار رو نا چا ر را ضی ہو گیا ۔ معاہدہ یہ طے پا یا کہ یہودی با زار جا کر ان تینوں کے لئے کھانا لائے اور اس بات کی اطلا ع پو لیس کو نہ دے ۔یہودی نے با زار سے کھانا خر یدکر اس میں زہر ملا دیا کہ وہ تینوں غاصب کھاکر مر جا ئیں اور سارے سونے پر اس کا قبضہ ہو جا ئے ۔ادھر ان  تینوں میں سے ایک نے یہ ترکیب سوچی کہ یہودی جیسے ہی کھا نا لیکرآئے اسے قتل کر دیا جا ئے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ یہودی کو قتل کر دیا اور تینوں کھا نا کھا کر ہلاک ہو گئے ۔ 

ہم جب اپنے معاشرے پر غو ر کر تے ہیں تو ہما را  ذہن وقت کی نفی کر کے ۳۷ سال پہلے ما ضی میں پہنچ جا تا ہے۔۱۹۴۷ء کے ایک دن میں مشرقی پنجاب کی ریا ست پٹیا لہ میں ایک وسیع و عریض ، بلند و بالا حویلی میں مقیم تھا ۔ ہر طر ف ہاہا کار مچی ہو ئی تھی مشین گن میں سے نکلنے والی گو لیوں کی آوازسے شعور معطل اور اور اعصاب  مضحمل ہو رہے تھے۔جو بھی گھر سے باہر نکل رہا تھا اس کو موت اچک لیتی تھی ۔جو لوگ گھروں میں بند تھے، ان کے گھروں کو آگ لگا دی جا تی تھی ۔قدرت کا کر نا ایسا ہو اکہ سات رو ز کی قید اور بھوک پیاس کی اذیت سے نجات ملی تو گھر والوں کو گھر سےبا ہر نکال دیاگیا۔ مجھے اس طر ف سے اُس طر ف جا نے کے لئے ایک سڑک عبور کر نا تھی ۔ کچھ دیر ٹھہر کر ، رک کر، عالم خواب میں نہیں ، عالِم ہوش و حواس، میں نے یہ چا ہا کہ سڑک اس طر ح پار کرلوں کہ میرے قدم لا شوں کے اوپر نہ پڑیں ۔مگر سڑک لاشوں سے اٹی پڑ ی تھی  اور مجھے مجبوراً پنجوں کے بل لا شوں کے اوپر سے گزر کر سڑک کی دوسری طر ف جا نا پڑا ۔گھروں کی چھتوں سے خون بہہ رہا تھا ، نا لے خون آلود پا نی سے بھرے ہو ئے تھے ۔بچے بلک رہے تھے۔ خواتین چادر اور چار دیواری سے آزاد عبرت کا مر قع بنی ہو ئی تھیں۔ دو لت کے انبار اور نوٹوں بھری ہو ئی گھٹڑیاں مٹی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو گئی تھیں۔

۱۴ اگست کا سورج جو ں ہی افق سے نمودار ہوا ۔اس کی شعاعوں میں ایک پیغام تھا ایک قوم دو سری قوم سے آزادی حاصل کر کے اپنی نسل  کے لئے ایک فلاحی  مملکت قائم  کرے۔ بھوکی اور ننگی قوم پرقدرت  نے اپنے خزانے کھول دیئے تاکہ  قوم  وسائل کی کمی کا شکوہ نہ کرے اور قوم کے فلاحی کاموں میں کوئی  رخنہ انداز نہ ہو۔

ایک نسل ختم ہو گئی ۔ ایک نسل جوان ہو کر بڑھا پے کی طر ف گا مزن ہے اور ایک نسل جوان ہو رہی ہے ۔تینوں نسلوں کو فرشتے ترغیبی پر وگرام انسپا ئر کر تے رہے مگر جیسے جیسے قدرت کا انعام عا م  ہو تا رہا، قوم کے اندر زرا ور زمین کی ہوس بڑھتی گئی  اور آج یہ حر ص و ہوس قوم کے جسم کے لئے نا سور بن گئی ہے ۔ 

قوموں کے عروج و زوال کی تا ریخ ہمیں بتا تی ہے کہ دھر تی پر وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ما ضی کو یاد رکھتی ہیں اور حال میں کئے ہو ئے اعمال کا محاسبہ کر تی ہیں ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی



ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔