Topics
یہ فقیر ہر ماہ کسی نہ کسی عنوان سے آپ سے مخاطب ہوتا ہے ۔ آج کی نشست میں عامتہ المسلمین کی ذہنی پر یشانی ، عدم تحفظ کا احساس ، خوف اور مستقبل کی طر ف سے ما یوسی کے بارے میں کچھ عرض کر نا چاہتا ہوں ۔
اداس،غمگین اور پژ مر دہ چہرے دیکھ کر یہ محسوس ہو تا ہے کہ ہم ایسے مسافر ہیں جن کی کو ئی منزل نہیں ہے ۔ جب کہ اسلامی زندگی کے دل کش خدوخال اختیار کر کے ہم اپنے اندر غیر معمولی کشش اور انتہائی جاذبیت پیدا کر سکتےہیں ۔ اہل اسلام ہی نہیں بلکہ دو سری قومیں بھی اسلامی اصولوں کی ضیا پا شیوں سے متا ثر ہو کردین ِمبین کی طر ف کھنچنے لگتی ہیں۔ اسلام یقیناًہوا ، پا نی اور رو شنی کی طرح سارے انسانوں کی عام میراث ہے۔لیکن محض زبانی طور پر اس کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے اس کے لئے ایثار و عمل کا مظاہرہ کر نا ضروری ہے ۔
آ ج کے ترقی یافتہ دور میں والدین اور بزرگوں کااحترام کم سے کم ہوتا جا رہاہے ۔ اور یہ پہلا قدم ہے جہاں سے اسلامی اخلاقی قدروں میں شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کے لئے بالخصوص اور نوع انسانی کے لیے بالعموم ایسے روشن اور واضح اصول مرتب کئے ہیں جن پر عمل کر کے ہم ذہنی کشاکش ، اعصابی کشمکش ، الجھنوں اور پر یشانیوں سے محفوظ و مامون ہو سکتے ہیں ۔
ایک مر تبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گو شت تقسیم فر ما رہے تھے کہ ایک عورت تشریف لائیں حضور ﷺنے کام چھو ڑ کر ان کے لئے چادر بچھائی اور معزز خاتون کو نہا یت ادب واحترام کے ساتھ اس چا در پر بٹھایا ۔ حضرت ابو طفیل کہتے ہیں میں نے لوگوں سے پو چھا یہ کون برگزیدہ ہستی ہیں ؟ وہاں موجودلوگوں نے بتا یا یہ بزرگ عورت وہ ماں ہیں جنہوں نے آپ ﷺکو دودھ پلایا ہے ۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلے میں سورۂ بنی اسرا ئیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کر واور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
محسن کی شکر گزاری اور احسان مندی شرافت کا اولین تقاضا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے وجود کا محسوس سبب ’’ماں باپ ‘‘ ہیں جن کی پر ورش اور نگرا نی میں ہم پلتے بڑھتے اور شعور کو پہنچتے ہیں اور جس غیر معمولی قربانی ، بے مثال جا نفشانی اور انتہا ئی شفقت و ایثار سے وہ اولاد کی دیکھ بھا ل اور تر بیت کر تے ہیں حق یہ ہے کہ ہمارا دل اُن کی عقیدت واحسان مندی اور عظمت و محبت سے سر شار ہواور ہمارے جسم کا رُواں رُواں ان کا شکر گزار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی شکر گزاری کی تا کید فر ما ئی ہے ۔
باپ کے دوستوں اورماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور احترام کا حکم دیا گیا ہے ۔ان کے مشوروں
ہم ایک لباس بناتے ہیں وہ سوتی کپڑے کا ہو ، اون کا ہو یا نا ئلون کے تا روں کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ ہم لباس کے ذریعے خود کو چھپا ئیں اس طر ح رُوح نے خود کو پس پر دہ رکھنے کے لئے ایک لباس اختراع کیا ہے اور یہ لباس گوشت پو ست اور ہڈیوں سے مر کب ہمارا جسم ہے جس طرح جسم کے بغیر انسان کی کو ئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی لباس کی ذاتی کو ئی اپنی حر کت ہے اس طر ح روح کے لباس کی اہمیت اسی وقت تک ہے جب تک رُوحاس لباس کو اہمیت دیتی ہے ۔ ہم کو ٹ یا شیروانی زیب تن کر تے ہیں یہ ممکن نہیں کہ کوٹ ہمارے جسم پر ہو ااور ہم ہا تھ ہلا ئیں اور آستین نہ ہلے ۔ یہ بھی قرین قیاس نہیں ہے کہ کوٹ کو کھونٹی پر لٹکا دیا جا ئے یا چار پا ئی پر ڈال دیا جا ئے تو اس کے اندر اسی طر ح حرکت پیدا ہو گی جس طر ح جسم کے اوپر رہتے ہو ئے ہو تی ہے ۔۔۔لباس کی حیثیت اس وقت تک ہے جب تک وہ جسم کے ا وپر ہے ۔ گو شت پو ست سے مرکب لباس جسم کے تمام حرکات و سکنات کا دارومدار اونی یا سوتی لباس کی طر ح رُوح کے اوپر ہے ۔ رُوح جب تک جسم میں موجود ہے ۔ جسم چلتا پھر تا ہے اور اس میں زندگی کے آثار پا ئے جا تے ہیں ۔رُوح جب اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو جسم کی حیثیت کھو نٹی پر لٹکے ہو ئے کوٹ کی ہو جا تی ہے ۔
کسی عاقل ، با لغ ، با شعور آدمی کو اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ماں باپ کون ہیں تو وہ کتنا ہی ذہین اور قابل کیوں نہ ہو اس کے اوپر ایک احساس محرومی مسلط رہتا ہے ۔اور احساس محرومی انسانی زندگی میں اتنا بڑا خلا ہے کہ با لآخر ایسا بندہ دماغی مریض بن جا تا ہے ۔ پا گل پن زیادہ ہو یا کم، بہرحال اس کانام پا گل کے علاوہ کچھ نہیں رکھا جا ئے گا ۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارا پیدا کر نے والا کون ہے ۔ اگر یہ کہا جا ئے کہ ہمیں پیدا کر نے والا اللہ ہے تو یہ ایسی ہی بات ہو گی کہ ہم گو شت پو ست کے جسم کو اصل آدمی سمجھتے ہیں جب کہ اس آدمی کی اپنی کو ئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہ آدمی رُوح کے تا بع ہے اور روح ہماری جسمانی آنکھوں سے چھپی ہو ئی ہے ۔ محض زبانی طور پر یہ کہہ دینا کہ ہمارا خالق اللہ ہے ، اعتراف اور خالقیت کا تقاضا پو را نہیں کرتا وہ آدمی جس کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کے ماں باپ کون ہیں یہی کہتا ہے کہ ماں باپ نے جنم دیا ہے ۔ اگر ہم اپنی رُوح سے واقف نہیں ہیں تو اللہ کی خالقیت اور ربا نیت کا تذکرہ محض مفروضہ حواس پر مبنی ہو گا ۔ کتنی ستم ظر یفی ہے کہ معاشرے میں ایسے شخص کو کو ئی مقام نہیں دیا جا تا جس کے ماں باپ کا کو ئی پتا نہ ہو اور ہم اللہ تعا لیٰ کا زبانی تذکرہ کر کے خود کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔